کلیاں مسلنے سے بچالو، قحبہ خانے کھلوا دو۔۔۔منصور ندیم

بچپن میں جب پانچویں جماعت میں تھا،گھر کے پاس ہی مین  طارق روڈ پر ایک ایدھی سینٹر کھلا تھا، ایک بار  وہاں سے گزرتے ہوئے  ایدھی سینٹر کے سامنے ایک پنگھوڑا رکھے دیکھا۔ اس پر یہ لکھا تھا” قتل مت کریں، یہاں ڈال دیجئے” ۔ یہ پڑھ کر کچھ سمجھ نہ آیا ، اس وقت میڈیا نے ایسی ترقی نہیں کی تھی نہ ہی نیوز چینل کا کوئی تصور تھا، خبروں کی رسائی فقط اخبارات تک محدود رہتی تھی، پھر اکثر اخبارات میں کچھ ایسی خبریں نظر آتی تھیں  کہ ” فلاں علاقے کی کچرا کنڈی  میں نوزائیدہ بچہ  کپڑے میں  لپٹاہوا پایا گیا” یا کوئی صبح فجر میں مسجد کے پاس ایک نوزائیدہ بچے کو چھوڑ کر چلا گیا، اکثر ان تمام واقعات میں وہ نوزائیدہ بچہ  کسی کو خبر ہونے سے پہلے یا تو بلک بلک کر مر جاتا تھا ، یا کبھی کبھی کتوں اور بلیوں کے ہاتھ لگ جاتا تھا، اللہ اکبر۔۔۔۔

پہلے ایسے واقعات کم تھے، لیکن جب بھی سنتے تھے تو بازاروں میں اور گھروں میں یہی موضوع سخن رہتا تھا۔پھر دور بدل گیا، میڈیا نے ترقی کر لی، انسان کی درندگی اور حیوانیت  نے بھی نئی نئی جہتوں میں کمال حاصل کرلیا، اب ملک بھر کے ہر کونے سے ہر روز ایسی عجیب اور رونگٹے کھڑے کردینے والی خبروں کا ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا،ننھی معصوم کلیاں ہوس کے ہاتھوں روندی جانے لگیں، پہلے  روندنے کا سلسلہ تھا اس کے بعد قتل بھی کی جانے لگیں، فقط قصور شہر میں یکے بعد دیگرے  ایک سال میں ۱۲ واقعات ہوئے،  کس کا نوحہ لکھوں، کائنات کا، زینب کا، عائشہ کا، ایمان کا، نور  فاطمہ کا یا  لائبہ کا… یہ سلسلہ تو رکنے کے لئے ہے ہی نہیں۔ہر واقعے پر میڈیا نے خوب دل دہلا دینے والی  داستانیں سنائیں ، پھر  ننھی زینب کی عصمت دری پر حکومت جاگی، چیف جسٹس نے نوٹس بھی لیا اور بالآخر عمران عطاری گرفتار بھی ہوگیا ، لیکن انصاف پر عملدرآمد نہ ہوسکا، ہم مان کیوں نہیں لیتے کہ اگر انصاف نہیں ہوگا تو یہ سلسلے نہیں رکیں گے، پیر کو کراچی سے ملنے والی عصمت دری کے بعد قتل کی جانے والی  رابعہ کی لاش یہ ثابت نہیں کرتی کہ یہ انصاف کے ایوانوں میں بیٹھےمنصف اور پارلیمان کی عمارتوں میں بیٹھے منتخب لیڈر اس ملک کی عام عوام  کو انصاف نہیں دے سکتے .  ان کو کوئی  خبر دے دو کہ جاؤ اپنے گھروں کو ، اپنے محلوں میں، اپنے بچوں کی پیار کرو، سو جاؤ ، صبح اٹھو اور شکر کرو کہ  تمہاری باری ابھی نہیں آئی ہے  ، آئے گی بھی کیسے؟ باری تو غریب کی آتی ہے. لاچار کی، مفلس کی، بےبس کی. وہ اوپر والا آسمان توڑتا ہے تو ان پر جو پہلے ٹوٹے پڑے ہیں. آزمائش بھی ان کے لئے اور انعام میں پھوٹی کوڑی بھی نہیں ، مسخ شدہ نوچی ہوئی لاشیں، غربت، بے بسی اور تکلیف سے کمانے کے بعد فقط ایک  وقت کا کھانا.

کیا ملک ہے، کیا لوگ ہیں. کیا معاشرہ ہے. سب اجتمائی خود کشی کر چکے اب چلتی پھرتی لاشیں ہیں. زندگی سے بھری چلتی پھرتی ہنستی کھیلتی لاشیں، ہماری بے حسی کمال اوج پر پہنچ گئی، ظلم کا راگ بھی الاپا جانے لگا لیکن ظلم بھی بڑھنے لگا، انصاف اور انسانی حقوق کے اداروں کی بہتات کے ساتھ بے انصافی اور حقوق کی پامالی بھی بڑھنے لگی، ہم دنیا کی ساتویں ایٹم بم بنانے والی طاقت تو بن گئے، لیکن ہم اپنی معصوم بیٹیوں کی حفاظت ان درندوں سے نہیں کرسکتے  ،ہم سے ایک کیس عمران عطاری کی سزا پر عملدرآمد نہیں ہوسکا، عمران عطاری پہلے پیشہ ور عورتوں کے پاس جاتا تھا، لیکن جب وہ پیسوں کے لئے اپنے ساتھی سے بلیک میل ہونے لگا تو اس گھناؤنے عمل پر آگیا، اگر ریاست اس کا تدارک نہیں کرسکتی ، اس ملک میں موجود ریاست کے ایوانوں، پارلیمان کے منتخب عوامی نمائندے، حقوق انسانی کی تنظیمیں، اور مذہبی رہنما سب بے بس ہیں، ہم سب کبھی امریکا یورپ اور کبھی خلیجی ممالک کی بے راہ روی   پر بات تو کرتے ہیں، کیا وہاں ایسا ممکن ہے؟ اگر بالفرض ہوتا بھی ہے تو وہاں مجرم کبھی بچتا نہیں ہے، اس کے بجائے ہماری ریاست شہریوں کو فعال اور مہذب نہیں بنا سکتی، انسانی ضروریات کا تحفظ اور حصول تک رسائی  تو نہیں دے سکتی ،اس ملک کے بنانے والے کے مزار کو تو باقاعدہ فحاشی کا اڈا بنا ہی دیا، ملک کی ہر تفریح گاہ ہو یا ہر دوسری گلی وہاں Prostiution ہو رہی ہے، جب عوام  کو ریاست جنسی درندہ   بنا سکتی ہے تو پھر جن کے منہ کو ماس لگ جائے  تو کم از کم ان کے ماس کا ہی انتظام کردے،  جیسے عبدالستار ایدھی نے   ہر ایدھی سینٹر کے باہر پنگھوڑے لگوائے   تھے تاکہ لوگ قتل نہ کریں ویسے ہی ان معصوم بچیوں کو بچانے کے لئے  اب ایسا ہی کچھ کرلیں ارباب اختیار۔کم از کم  معصوم کلیاں تو مسلنے سے بچ  جائیں گی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نوٹ : اگر کسی کو اختلاف ہے تو اس پر سخت رائے  دینے کے بجائے اس کا کوئی حل دے دیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply