شکر واجب ہے/ڈاکٹر نوید خالد تارڑؔ

یہ پاکستان کے ٹھنڈے ترین علاقوں میں سے ایک علاقہ تھا۔ ہسپتال میں میری ڈیوٹی ختم ہوئے کچھ دیر ہو چکی تھی، میری جگہ آنے والے دوسرے ڈاکٹر صاحب اب مریض دیکھ رہے تھے۔

میں ہسپتال سے نکلا تو ڈھلتی شام میں سردی اپنے پورے زوروں  پہ تھی۔ کچھ دور ایک چائے کے ڈھابے پہ کچھ دوست بیٹھے میرا انتظار کر رہے تھے۔ میں ہسپتال سے نکل کر پیدل اس طرف چل پڑا۔

کچھ قدم آگے ایک آدمی جا رہا تھا، مزدوروں والا حلیہ، گرد سے اَٹے کپڑے، پرانے سے شکستہ بوٹ۔ وہ تھوڑا رک رک کے مریضوں والے انداز میں چل رہا تھا۔ میں پاس پہنچا تو میرے اندر کا ڈاکٹر انگڑائی لے کر جاگ گیا۔ اس سے پوچھا کیا بات ہے؟ طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟

بولا : سر میں درد ہو رہا ہے۔

اس نے سر پہ ٹوپی پہنی ہوئی تھی اور سرد ہوا کے تھپیڑوں سے بچنے کے لیے کسی کپڑے سے منہ ڈھکا ہوا تھا، بس دو آنکھیں ہی نظر آ رہی تھیں۔ میں نے بتایا کہ یہ ساتھ تو ہسپتال ہے، دوائی لے لو۔

کہنے لگا : دوائی تو لے آیا ہوں، انھوں نے ٹیکا نہیں لگایا۔ میں نے انھیں بولا بھی تھا مجھے ٹیکا لگاؤ، انھوں نے پھر بھی ٹیکا نہیں لگایا۔

(وہ ٹیکے کا کوئی اور علاقائی نام لے رہا تھا، میں وہ نام اب بھول گیا ہوں)

اس کے لہجے میں سادگی تھی، شکوہ تھا۔ اس کے اس سادہ سے انداز سے میرے لبوں پہ ہنسی آ گئی، پھر میں اسے بتانے لگا کہ ہر مرض میں ٹیکا ضروری نہیں ہوتا، کئی دفعہ تو غیر ضروری طور پہ ٹیکا لگانے سے فائدے کے بجائے نقصان بھی ہو جاتا ہے۔

کہنے لگا : ہاں یہ تو آپ ٹھیک کہہ رہے ہو، آپ بھی یہیں کہیں کام کرتے ہو کیا؟

میں نے بتایا: ہاں یہیں کام کر رہا ہوں، آپ کیا کام کرتے ہو۔

اس نے چہرے سے کپڑا ہٹا لیا، چہرہ نظر آیا تو پتا چلا وہ کوئی بڑی عمر کا مزدور نہیں، چوبیس پچیس سال کا نوجوان لڑکا تھا۔ بولا “مزدوری کرتا ہوں۔”

پھر میرے مزید سوالوں کے جواب دیتے ہوئے بتانے لگا

“میں بنوں سے آیا ہوں، سات آٹھ ماہ ہو گئے ہیں یہاں۔ مزدوری کے ساتھ ساتھ اوورٹائم بھی کرتا ہوں۔ مہینے کا پچیس تیس ہزار بن جاتا ہے، پھر میں وہ گھر بھیج دیتا ہوں۔”

میں نے پوچھا “خود کتنے عرصے بعد گھر جاتے ہو؟

کہنے لگا:” جب دو مہینے گزر جاتے ہیں، تیسرا مہینہ چڑھ آتا ہے، پھر میں جاتا ہوں گھر۔ جب گھر جاتا ہوں تو چھٹی کی تنخواہ نہیں ملتی اور تنخواہ نہ ملے تو گھر کا گزارا نہیں چلتا۔ اس لیے کم جاتا ہوں اور جب جاؤں تو دل نہیں کرتا واپس آنے کو لیکن میں دل کی نہیں سنتا، جلدی ہی واپس آ جاتا ہوں ”

“یہاں مزدوری آسان ہی ہوتی ہے یا مشکل؟” میں نے مزید پوچھا تو کہنے لگا

” آسان کہاں؟ تین تین بوریاں اکٹھی اٹھوا دیتے ہیں، کمر دہری ہو جاتی ہے لیکن کیا کریں کام تو کرنا ہے نا” آواز میں لاچارگی تھی۔

میں نے بات بدل دی اور کہا

” سردی شدید ہے، اوپر نیچے زیادہ کپڑے پہن لیا کرو۔ سردی لگنے سے بھی سر میں درد ہونے لگ جاتا ہے۔”

اس نے اثبات میں سر ہلایا پھر بولا

” پانی بھی ٹھنڈا ہوتا ہے نا، شائد ٹھنڈے پانی سے سردی لگ گئی ہو گی۔ میرے پاس تو وضو کرنے کے لیے چپل بھی نہیں ہے۔ تنخواہ بھی ختم ہو گئی ہےش ورنہ لے ہی لیتا۔” آواز میں بےبسی تھی، ضرورت تھی۔

چائے کا ڈھابہ پاس آ گیا تھا، جہاں دوست میری راہ دیکھ رہے تھے۔ میں نے ڈھابے کے سامنے بنی ایک دکان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہاں رکو، میں چپل لے دیتا ہوں۔

وہ کہنے لگا” نہیں، نہیں آپ رہنے دیں۔ میں اگلی تنخواہ میں سے لے لوں گا۔”

میں اسے رکنے کا کہتا ہوا دوستوں سے ملنے لگا۔ وہ رکا نہیں آہستہ آہستہ قدموں سے آگے بڑھ گیا کیونکہ رکنا اس کی خودداری پہ چوٹ تھا اور اسے کچھ لینے کے لیے رکتے ہوئے شرم آ رہی تھی۔ لیکن اس نے آگے بڑھتے ہوئے قدم اتنے آہستہ ضرور کر لیے کہ میں اسے روک سکوں۔

میں دوستوں سے ملا اور ان سے دو منٹ مزید انتظار کا کہتا ہوا تیزی سے اس کی طرف بڑھا۔ اسے واپس بلایا تو وہ نرم لہجے میں تکلفاً انکار کرنے لگا۔ میں اس کے انکار کو نظرانداز کرتا اسے ہاتھ سے پکڑ کر دکان پہ لے آیا۔

اس سے کہا اپنی پسند کی کوئی بھی چپل لے لو۔ اس نے جھجکتے ہوئے ایک چپل پسند کی۔ میں دکان دار کو پیسے دے کر باہر نکلنے لگا تو اس نے پشتو میں دکان دار سے کچھ کہا۔ اس دکان دار نے مجھے کچھ اور پیسے واپس کر دیے کہ اگر آپ کسی کو لے کے دے رہے ہیں تو قیمت اور کم کر لیتا ہوں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہم دکان سے باہر نکلے، اس نے مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھایا۔ میں نے ہاتھ ملایا تو گرم جوشی اور شکریہ کے جذبات اس کے ہاتھوں سے مجھے اپنے ہاتھوں میں اترتے ہوئے محسوس ہونے لگے۔ وہ خدا حافظ کہہ کر اپنی راہ چل دیا اور میں دوستوں کی محفل میں جا بیٹھا اور سوچنے لگا یہاں کچھ لوگ کتنی معمولی معمولی سے ضرورتوں کے لیے ترس رہے ہیں، پریشان ہو رہے ہیں اور ہم جنھیں اللہ نے ڈھیر ساری نعمتیں دے رکھی ہیں، ہم اگر چاہیں تو کتنی سہولت سے دوسروں کی چھوٹی چھوٹی ضروریات پوری کر سکتے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply