• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • امریکہ اور اتحادیوں کا شام پر حملہ اور روس کا کردار۔۔۔۔۔ابو بکر

امریکہ اور اتحادیوں کا شام پر حملہ اور روس کا کردار۔۔۔۔۔ابو بکر

آخرکار امریکہ ، برطانیہ اور فرانس کی فضائیہ نے شام پر مشترکہ ہوائی حملے کردئیے۔ دمشق اور حمص میں مبینہ طور پر ان اہداف کو نشانہ بنایا گیا جہاں کیمیائی اسلحہ تیار اور اسٹور کیا جاتا تھا۔ بشار حکومت پر کیمیائی حملے کا الزام لگنے کے بعد صدر ٹرمپ نے شام کے مرکزی اتحادی روس کے لیے خبرداری ٹوئیٹ کی تھی کہ تیار رہو ! نئے اور سمارٹ امریکی میزائل آ رہے ہیں۔اس کے بعد ایک سفارتی جنگ چھڑ گئی جو بے نتیجہ ختم ہوئی۔ امریکی قرارداد کو روس نے ویٹو کیا۔ اسی طرح روسی قرارداد کو اتحادیوں نے مسترد کردیا۔سلامتی کونسل میں جاری اس جنگ کے دوران صدر ٹرمپ نے ایک اور ٹوئیٹ کیا جس کے مطابق شام پر اتحادی حملے کا حتمی وقت ابھی طے نہیں کیا گیا۔ یہ جلد بھی ہو سکتا ہے اور بدیر بھی۔ فرانس اور برطانیہ شروع سے ہی عملی طور پر امریکہ کے ساتھ کھڑے تھے۔جرمنی کی اخلاقی مدد بھی اسی گروپ کے ساتھ تھی۔

سفارتی جنگ میں روس کی جانب سے بھی ایسے شدید جواب دئیے گئے کہ اقوام متحدہ نے سرد جنگ کا بازار دوبارہ گرم ہونے کی نوید سنادی۔ روس نے عالمی امن میں خلل ڈالنے کی کوشش کرنے پر سلامتی کونسل میں امریکہ کی مستقل نشست پر ہی سوال اٹھا دئیے۔ روس نے یہ تنبیہ بھی کی کہ اگر امریکہ نے فضائی حملے کیے تو دونوں ممالک کے درمیان جنگ چھڑ سکتی ہے۔

ایسا سوچا جا سکتا تھا کہ ٹرمپ کی یہ دھمکی بھی شمالی کوریا کو دی جانے والی دھمکیوں جیسی ثابت ہوگی لیکن گذشتہ کچھ ہفتوں میں روس اور اتحادیوں کے تعلقات پہلے ہی بدترین سطح تک پہنچ چکے تھے۔برطانیہ میں منحرف روسی ایجنٹ پر حملہ کا الزام روس پر لگائے جانے کے بعد دونوں جانب سے ایک دوسرے کے سفارت کاروں کی بڑی تعداد ملک بدر کی جا چکی تھی۔ دوسری طرف حال ہی میں روس کے صدراتی الیکشن میں صدر پیوٹن نے دوبارہ کامیابی حاصل کی۔ وہ پیوٹن ہی کیا جو الیکشن ہار جائے۔ اپنی تقریر میں پیوٹن نے جدید ترین نیوکلئیر میزائل اور اسلحہ متعارف کرایا جس کا ہدف امریکہ کے سوا اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ روس میں سیاسی اپوزیشن پر متعدد پابندیاں ہیں۔مرکزی رہنما کے الیکشن میں حصہ لینے پر ہی پابندی تھی۔ روسی معیشت یوکرائن کی جنگ کے وقت ہی پابندیوں کی زد میں ہے۔اسکے علاوہ شام میں جنگ کے اثرات بھی پڑے ہیں۔ روسی صدر کے لیے جارحانہ قوم پرستی کے سوا کوئی چارہ نہیں۔روسی افواج کو اپ گریڈ کرنے کے علاوہ عالمی محاذوں پر روس کی موجودگی اور اثر بھی بڑھایا گیا ہے۔روسی عوام کو یہ باور کرایا گیا ہے کہ پیوٹن روس کی عظمت رفتہ واپس لانے کا واحد آپشن ہیں۔ اس طرح پیوٹن اندرون ملک اپنے اقتدار کو بحال رکھنے میں کامیاب رہے ہیں۔

امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک بھی ملتی جلتی مجبوریوں کی وجہ سے جارحانہ پالیسی اپنانے پر مجبور ہیں۔ مغرب روس کو اپنا مشترکہ اور حقیقی دشمن سمجھتا ہے۔انہیں جو موقع  یوکرائن اور کریمیا میں نہیں مل سکا وہ شام میں مل رہا ہے۔یہ دیکھنا مشکل نہیں کہ مغرب کو ایسا موقع لازمی چاہیے اور اگر ضرورت پڑے تو وہ ایسا موقع  خود بھی پیدا کر سکتے ہیں۔ چنانچہ متعدد ذرائع کی جانب سے یہ کہا جاتا رہا ہے کہ جو کیمیائی حملہ موجودہ بحران کی وجہ بنا ہے وہ خود مغرب اور ممکنہ طور پر برطانیہ کی خفیہ کارروائی ہے۔شام میں مغربی اتحادیوں کی کاروائیاں جس قدر شدت پکڑتی جائیں گی اسی رفتار سے سعودی عرب اور اسرائیل بھی ناصرف مغربی بلاک کے قریب ہوتے جائیں گے بلکہ خطے میں بھی ان دونوں کا باہمی تعاون بڑھتا جائے گا۔ اس سے یمن کی جنگ میں اسرائیلی حصہ بڑھ جائے گا۔ اس کے نتیجے میں ایران اور روس بھی مزید قریب آتے جائیں گے۔ شام کی ختم ہوتی جنگ میں مغرب کا بڑھتا کردار روس کو روکنے کے لیے ہے جبکہ سعودیہ اور اسرائیل کا مقصد ایران کو روکنا ہے۔ امریکہ کے علاوہ باقی مغربی اتحادی ابھی ایران کو براہ راست خطرہ نہیں سمجھتے۔ تاہم اگر روس کے ساتھ ان کی دشمنی بڑھتی گئی تو شاید مغربی بلاک کی وہ اندرونی سفارتی کنفیوژن بھی دور ہوجائے جس کی وجہ سے اب تک ایران نیوکلئیر معاہدہ باقی ہے۔

اگرچہ موجودہ ہوائی حملوں کی شدت صدر ٹرمپ کی دھمکیوں سے کہیں کم تھی لیکن مغرب نے اپنا الٹی میٹم اس قدر ضرور پورا کیا ہے کہ عزت رہ جائے۔ ٹرمپ کے تازہ بیان کے مطابق وہ یہ جنگ عسکری،معاشی اور سفارتی ہر تین سطح پر جاری رکھیں گے۔پیوٹن اگرچہ ان حملوں کی ‘سنجیدہ مذمت’ کر چکے ہیں لیکن روس کا ممکنہ ردعمل اس سے بڑھ کر کیا ہو سکتا ہے؟

امریکہ نے شامی حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے کچھ عرصہ قبل بھی میزائل حملے کیے تھے لیکن بشار حکومت پر یہ داؤ کارگرثابت نہ ہوا۔ اسی وجہ سے اب تازہ حملے کرنا پڑے۔ کیا بشار حکومت مستقبل میں ان اقدامات سے پرہیز کرے گی تاکہ کوئی نیا حملہ نہ ہو ؟ یہ سوال مشکل ہے کیونکہ شام اور روس کیمیائی حملے کے موجودہ الزام کو بھی مسترد کرتے ہیں۔ گویا شامی حکومت کچھ کرے یا نہ کرے، مغربی حملہ بعض ایسی وجوہات کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے جس کا شام سے براہ راست کوئی تعلق ہی نہ ہو۔

روس کی جانب سے ان حملوں کا ایک موثر جواب شام میں جنگی کارروائی میں تیزی کی صورت بھی دیا جا سکتا ہے۔ روس یہ چاہے گا کہ باقی ماندہ جنگ جس قدر جلد ہو سکے ختم کی جائے اور مکمل علاقہ کلئیر کر لیا جائے۔ جنگ کے رسمی خاتمے کے بعد روس کی پوزیشن بہت بہتر ہوجائے گی۔نیٹو نے اس حملے کی حمایت کی ہے جو کپاس کے کاشتکاروں کی بجائے روس کےلیے اہم پیغام ہے۔نیٹو کی وجہ پیدائش ہی روس کا جنگی مقابلہ ہے۔ مغرب اور روس کے سرحد سے یہ پیغام واضح کرتا ہے کہ جنگ کہاں کہاں تک پھیلی ہوئی ہے۔

لیکن ایسا سوچا جا سکتا ہے کہ مغربی اتحادیوں اور روس کے خفیہ مذاکرات جاری ہوں یا اس کی امید باقی ہو ۔اس کی بڑی وجہ برطانوی وزیراعظم کا وہ پیغام ہے جو ان حملوں کے بعد نشر کیا گیا جس کےمطابق یہ حملے بشار حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے نہیں کیے گئے بلکہ شامی افواج کی جنگی کارروائیوں کو ایک حد میں رکھنے کے لیے کیے گئے ہیں۔ اگر مغرب کسی بھی طرح بشار حکومت پر راضی ہو سکتا ہے تو اس کا دوسرا مطلب روس کے ساتھ ممکنہ جنگ کا کسی اور محاذ کے لیے ملتوی ہونا ہے۔اس سارے کھیل میں شام کی حیثیت کھلونے سے زیادہ نہیں لیکن صاف ظاہر ہے کہ روسی اور مغربی بلاک اس کھلونے کو بہانہ بنا کر بچوں کی طرح لڑنا چاہتے ہیں۔

شمالی کوریا اور ساؤتھ چائنہ سمندر کا مسئلہ جنگی خطرے کے طور پر ٹھنڈا ہو چکا ہے اور تجارتی جنگ کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ روس کے ساتھ کشمکش جنگی اور تجارتی ہر دو سطح پر جاری ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے مغرب کو اندازہ ہو چکا ہو کہ چین سے جنگ تجارتی میدان جبکہ روس سے جنگ فوجی میدان میں ہی ہوگی چاہے جب بھی ہو۔

Advertisements
julia rana solicitors

آخری اطلاعات تک اس ساری گریٹر گیم میں مبینہ اسلامی بلاک کی جملہ کارروائیاں فیس بک اور جماعت اسلامی تک محدود تھیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply