جنسی تعلیم یا جنسی بے راہ روی۔۔صاحبزادہ امانت رسول

پا کستانی معاشرے میں” جنسی تعلیم “کی مخالفت کا سبب کیا ہے ؟اس واقعہ سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

میرے ایک دوست کئی سالوں سے بر طانیہ میں مقیم ہیں ایک روز ان کی بیٹی (جو چھٹی کلاس میں ہے )سکول انتظامیہ کی طرف سے ایک فارم لائی جس میں بچی کو جنسی تعلیم دیے جانے کے مندر جات لکھے ہوئے تھے ۔فارم کی پیشانی پہ Sex And Relationship Educationلکھا ہوا تھااور اس کے مندرجات یہ تھے۔

بلوغت کے وقت کیا تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔
جنس سے متعلق مختلف رویوں اور اقدار پہ تبادلہ خیال کر نا اور ان کی اصل و اثرات پہ غور کر نا ہے۔
تعلقات میں کونسی اقدار اہم ہیں اور “گہرے تعلقات”میں دوستی کی اہمیت کو Appreciateکر نا ۔
سلسلہ حیات کے تناظر میں افرائشِ انسان کا مطالعہ کر نا ،کیسے بچہ پیدا ہو تا اور نشو نماپا تا ہے (حمل ٹھہرنا اور حمل کا تسلسل)۔
امتناع حمل کی دوائیاں استعمال کر کے حمل سے بچا جا سکتا ہے ۔

انہوں نے آخر میں یہ بھی لکھا کہ مو ضوع کی نو عیت حساس ہونے کی وجہ سے ہمیں آپ کی رضا مندی مطلوب ہے کیا آپ اجازت دینا پسند کریں گے؟

مغربی معاشرے کا یہ ایک پہلو ہے جس کے باعث ہمارے ہاں “جنسی تعلیم” کی بھر پورمخالفت کی جاتی ہے ۔اس کے علاوہ ایک اور پہلو بھی ہے وہ ہماری نظروں سے پوشیدہ ہے یا پوشیدہ رکھا گیا ہے ۔اس بارے ہمیں شاہد جنجوعہ( بر طانیہ میں پاکستانی نژاد صحافی) آگاہ کر تے ہیں ۔وہ لکھتے ہیں” برطانیہ میں بارہ سال سے کم عمر بچوں کو اکیلا چھوڑنا غیر قانونی ہے ۔چودہ سال سے کم عمر بچوں کو تا دیر تنہا چھوڑنا قابل گرفت جرم ہے اور 16سال تک کے بچوں کو رات میں ا کیلا چھوڑنا غیر قانونی ہے۔” وہ ایک واقعہ بھی نقل کر تے ہیں”ڈاکیے نے گھر کی گھنٹی بجائی ۔10سال کے بچے نے دروازہ کھولا ،ڈاکیے نے بچے سے کہا اپنے امی ابو میں سے کسی کو بلواؤ ڈاک دے کر دستخط کر وانے ہیں ۔بچے نے کہا وہ گھنٹوں سے گھر میں اکیلا ہے اور والدین پتہ نہیں کہاں ہیں۔ ڈاکیے نے مو بائیل فون نکا لا اور فون کر کے پولیس بلوائی، پولیس نے سو شل سیکورٹی والوں کو بلوالیا، والدین پر رپورٹ درج ہو گئی۔”۔۔شاہد جنجوعہ کی تحریر سے معلوم ہو تا ہے بر طانیہ میں ریاست اور ریاستی ادارے اپنی ذمہ داریوں سے غافل نہیں اور قانون بلا امتیاز و بلا تفریق سب غیر قانونی کام کر نے والوں کیخلاف حر کت میں آ تا ہے ۔خصوصاً بچوں کی عزت اور جان کی حفاظت ریاست کی اولین ترجیح ہے ۔

اگر آپ مندرجہ با لا فارم میں مندرجہ نکات کا غیر جانبدارانہ تجزیہ کریں گے تو آپ دیکھیں گے کہ پالیسی ساز اور تعلیمی ادارے ان مسائل کو حل کر نے کیلئے مستعد دکھائی دیتے ہیں، جن سے وہ مستقبل میں دو چار ہو سکتے ہیں ۔اگر چہ ہمارے نقطہ نظر کے مطابق ان مسائل کے پیدا ہونے کی وجہ الہامی احکام سے انحراف و رو گردانی ہے ۔جن کے حل کیلئے وہ دوہری محنت و صلاحیت صرف کررہے ہیں۔ ایک طرف فطرت کے خلاف بغاوت کرکے مسائل پیدا کرتے ہیں ،دوسری طرف ان مسائل کو حل کر نے میں ریاستی مشینری پہ وسائل بھی خرچ کر تے ہیں۔ان دو نوں واقعات کی روشنی میں متوازن طرز فکر یہ ہے کہ جو ہمارے مذہب اورتہذیب کے مطابق ہو اسے اختیار کر لیا جائے اور جو خلاف ہے اسے رد کر دیا جائے۔مغرب کا نام  دیکھ کر ہر چیز کو رد کر نا متوازن طرز فکر نہیں ہے ۔یہ بحث اضافی ہے کے ہمارے ہاں اگرایسی تعلیم دی جائے تو اس کا عنوان کیا ہو نا چاہیے؟ اہم بات یہ ہے کہ ہمیں ایک طرف سائنسی ترقی سے استفادہ کر نا ہے اور دوسری طرف اس کے مندرجات کو تشکیل دینا ہے ۔

انسانی جبلّت کے تین داعیات ہیں ۔جنسی خواہش ،بھوک اورپیاس ۔اس لیے الہامی مذاہب با لخصوص اسلام نے اس کی اہمیت کے پیش نظر اس سے صرف نظر نہیں کیا۔قر آن مجید نے ہم جنس پرستی،زنا،نکاح،زن و شو کے تعلقات ،طہارت و نجاست ،نفس کے داعیات،عورت کے فطری مسائل، جنسی جرائم کی سزا،مرد وعورت کے باہمی سماجی تعلقات اور ایسے بہت سے مسائل کو بیان کیا ہے ۔قر آن مجید نے با قاعدہ نتائج و ثمرات پہ بھی گفتگو کی ہے ۔اسی طرح رسول اللہ ﷺنے حسب موقع و تقاضا ان مسائل کی وضاحت فر مائی ۔میرے علم میں ایسی بے شمار احادیث ہیں جن کے مطابق مردو خواتین نے آپ کے سامنے اپنے ذاتی مسائل کا ذکر کیا اور آپ نے انہیں اللہ کی وحی اور عرب کے معاشرتی تقاضوں کے مطا بق اس کا جواب دیا۔ سائل یا سائلہ پرکسی نے ملامت نہ کی۔

مسائل کی نا گزیر یت کے پیش نظر فقہائے کرام نے فقہ کی کتب میں ان مسائل کی جزئیات کو بھی بیان کردیا ہے۔ خاص طور پر، کتاب الطہارۃ میں خواتین و حضرات کے جسمانی ،جنسی اور باہمی تعلق پر مبنی مسائل کو بالتفصیل تحریر کیا ہے ۔میں ان کے تحریر کر دہ مسائل کو اس Angleسے لیتا ہوں کہ وہ اپنے دور کے ہر پیدا ہو نے والے مسئلہ سے آ گہی رکھتے اور ان کا حل بھی پیش کر تے تھے۔ خواہ وہ مسائل انسان کی جبلی ضرورتوں سے متعلق تھے یا انسان کے تہذیبی ارتقاء سے پیدا ہوئے تھے ۔انہو ں نے ہر حوالے سے مسلمانوں کی آگاہی اور راہنمائی کا فریضہ سر انجام دیا ۔اس سے ان کی وسعت نظری ،محققانہ ذوق اور علمی فقاہت کا بھی اندازہ ہو تا ہے ۔  ہر خطّے کے سماجی تقاضے، ثقافتی حالات اور مذہبی تصورات مختلف ہو سکتے ہیں ۔ممکن ہے کسی مسئلے کا بیان شرم و حیا کے خلاف نہ ہواور کہیں شرم و حیاء کیخلاف تصور کیا جائے۔اس پس منظر میں لو گو ں کے مزاج اور اُن کے رویوں کو مد نظر رکھ کر جنسی مسائل سے آ گاہ کر نا چاہیے اور جنسی تعلیم کے حوالے سے آ گاہی دینی چا ہیے ۔

اصل سوال یہ ہے کہ کم عمربچوں کو اس حوالے سے کیسے تعلیم دی جائے؟دور حاضر میں اس سوال کا جواب آسان ہی نہیں بلکہ بہت آسان ہے۔یہ مسئلہ فقط ہمارا نہیں بلکہ یہ دنیا کے ہر معاشرے کا مسئلہ ہے ۔انہوں نے اس حوالے سے کس طرح اپنے بچوں کوEducateکیا ہم اس سے استفادہ کر سکتے ہیں۔

گزشتہ دنوں بھارتی اداکار عامرخان کی ایک وڈیو وائرل ہوئی جس میں وہ بچوں کوجنسی حوالے سے کچھ بتا رہے ہیں وہ بتا رہے ہیں کہ آپ کے جسم کے تین Danger Partsہیں ۔وہ یہ بھی بتا رہے ہیں  کہ اگرکوئی انہیں چھوئے تو آپ نے کیا کر نا ہے ؟اس وڈیوکے علاوہ بھی بچوں کی تعلیم کیلئے بہت سی ویڈیوز مارکیٹ میں مو جود ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

اسی طرح چھوٹے بچوں اور بڑے بچوں کی جنسی تعلیم کیلئے کار ٹونز بھی دستیاب ہیں،جن سے ہر فر د کو راہنمائی مل سکتی ہے۔ڈاکٹر حارث بر کی (ماہر جنسیات )کہتے ہیں” سیکس ایجو کیشن بچوں کی عمر کے حساب سے دی جائے جو بچے کی عمر کے مطابق ہو۔بچے کو سمجھ ہونی چا ہیے کہ کون اس کو کس نیت سے ٹچ کر رہا ہے اور بری نیت کے نتائج کیا ہو سکتے ہیں۔”
موضوع اور مسئلہ کی حساسیت ہم سے تقاضا کر تی ہے کہ ہم اس حوالے سے جذباتی اور غیر ذمہ دار انہ رویہ ترک کر کے اپنے مذہب ، تہذیب کی حدود میں رہ کر افراد معاشرہ با لخصوص بچوں کیلئے”جنسی تعلیم”کا اہتمام کریں تا کہ اس کا یقینی حل سامنے آئے اوربچوں کے جنسی استحصال کا خاتمہ ہو سکے۔

Facebook Comments

صاحبزادہ امانت رسول
مصنف،کالم نگار، مدیراعلیٰ ماہنامہ روحِ بلند ، سربراہ ادارہ فکرِ جدید

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply