خدمتِ خلق کی سزا۔۔۔عبداللہ قمر

رواں سال فروری میں صدرِ پاکستان جناب ممنون حسین نے ایک آرڈیننس جاری کیا کہ ایسے افراد یا تنظیمیں  جو اقوامِ متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے مطابق کالعدم ہیں وہ پاکستان کے اندر بھی کالعدم ہوں گی اور حکومتِ پاکستان ایسے افراد یا تنظیموں کے خلاف بھر پور کارروائی کرے  گی ۔اس آرڈیننس پر تنقید تو اسی  وقت شروع ہو گئی تھی۔ یہ  صدارتی آرڈیننس  در حقیقت پاکستان کی معروف جماعت ، جماعت الدعوۃ  اور  اس کے سربراہ حافظ سعید  کو پابندیوں میں جکڑنے  کے لیے جاری کیا گیا تھا۔

یوں تو یہ جماعت ایک عرصے سے پابندیوں کا سامنا کر رہی ہے، کبھی انہیں  چندہ  جمع  کرنے سے روک دیا جاتا  ہے ،کبھی   خدمتِ انسانیت سے روک کر ان کے دفاتر بند کر دیے جاتے ہیں اور کبھی انہیں  گمنام کر دینے کے واسطے میڈیا کوریج پر پابندی لگا دی جاتی ہے۔ان تمام تر نا  انصافیوں  کے باوجود اس جماعت نے کسی  غیر اخلاقی یا غیر قانونی ردِّ عمل کا اظہار نہیں کیا  بلکہ ہمیشہ معاملات کو پر امن طریقے سے حل کرنے کی کوشش کی اور قانون کا راستہ اپنایا۔

مجھے آج بھی حافظ سعید کا ویڈیو  پیغام یاد ہے جب  گزشتہ برس انہیں بغیر کسی وجہ کے نظر بند کیا گیا تھا  تو انہوں نے اپنے کارکنان کو نصیحت کی تھی کہ کسی ردِ عمل کا شکار نہیں ہونا، کوئی ایسا کام نہیں کرنا کہ جس سے پاکستان کے اندر امن کی صورتحال کو نقصان پہنچے۔یہ بات بھی واضح کرتا چلوں کہ پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں نے کئی مرتبہ جماعت الدعوۃ  اور اس کے سربراہ   کو  ان پرلگنے والے الزامات سے مکمل طور پر بری قرار دیا ہے۔ مگر نواز حکومت  جو کہ غیر علاقائی طاغوتی  قوتوں کو خوش کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کے لیے ہمہ وقت تیار  ہے، نے حافظ سعید کو بلاوجہ  تقریباً ایک سال کے لیے نظر بند رکھا اور اس بات کو بھی قبول   کیا کہ  ان کی وجہ سے بیرونی دباؤ بہت  زیادہ ہے۔لیکن پاکستان کی عدالتوں نے انہیں مکمل طور پر  معصوم قرار دے کر نظر بندی ختم کرنے کا فیصلہ دے دیا۔

اس کے بعد پھر  بھارتی پروپیگنڈے کے نتیجے میں امریکہ کی جانب سے دباؤ آیا  اور ہماری وزاتِ داخلہ نے ایڑیاں بجا کر “یس سر” کہتے ہوئے قبول کیا اور فوراً سے ایک مرتبہ پھر جماعت الدعوۃ  پر پابندیوں کا سلسلہ شروع کر دیا، دفاتر بند کر دیے، چندہ جمع کرنے  پر پابندی لگا دی  یہاں تک کہ  تعلیمی ادارے بھی اپنی زیرِ نگرانی لے لیے۔ اور  اسی اثناء میں ایک صدارتی آرڈیننس جاری ہوتا ہے کہ اقوامِ متحدہ کی سکیورٹی  کونسل کے مطابق  کالعدم جماعتیں پاکستان کے اندر بھی کالعدم ہوں گی۔ یعنی کہ  یہ امریکی حکم نامے کو من و عن ماننے کا آرڈیننس تھا۔

بہرحال  اس پر کام شروع کیا گیا۔ اب آپ ذرا اندازہ کیجئے  دشمن نے کس قدر مکاری کے  ساتھ  اور  پاکستان کے اقتدار  پر قابض ضمیر فروش ٹولے کی معاونت کے ساتھ  کس طرح پاکستان کی سالمیت اور خود مختاری پر حملہ کیا ہے کہ ایک ایسا شخص یا تنظیم  جسے پاکستان کی اعلیٰ عدالتیں کہیں کہ یہ مجرم نہیں ہے ،لہٰذا اسے تمام الزامات سے بری کیا جاتا ہے لیکن اس کے  بعد امریکہ سے ایک حکم نامہ آتا ہے کہ نہیں اس شخص کو بند کر دو یہ ہمیں پسند نہیں، اور امریکہ بہادر اس حوالے سے کوئی لاغر سا ثبوت پیش کرنے سے بھی قاصر ہو، مگر اس آرڈیننس کے مطابق  پاکستان اس بات کا پابند ہو جائے  گا کہ وہ بے گناہ لوگوں کے خلاف بھی  کارروائیاں کرے۔ ذرا انصاف کے ساتھ بتایئے  کہ  کیا ایک اسلامی  یا  جمہوری ریاست میں ایسا قانون  نافذ کیا جا سکتا ہے؟ ہر گز نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

قارئین کرام! صدارتی آرڈیننس کی عمر ہوتی  ہے 4 ماہ  یعنی کہ 120 دن اس کے بعد اس آرڈیننس کا بل قومی اسمبلی میں پیش کیا جاتا  ہے اگر اراکینِ اسمبلی کی دو تہائی اکثریت  اس کے حق میں ووٹ  دے دے تو  اسے  آئینِ  پاکستان کا باقاعدہ طور پر حصہ بنا  دیا جاتا ہے۔اب اس آرڈیننس کی مدت ختم ہونے میں کچھ ایام باقی ہیں تو اب اس بات کی کوشش کی جارہی کہ  یہ بل اسمبلی سے پاس کروا کے  ایک محبِ وطن تنظیم کو  امریکہ  کی خوشنودی کے حصول کے واسطے بند کر دیا جائے۔  لیکن ایک بات یاد رکھیں کہ خدمتِ انسانیت اور نظریہ پاکستان کی بنیاد پر قوم کو متحد کرنے کا کام جماعت الدعوۃ  کر رہی ہے اس کام کو کبھی روکا نہیں جا سکتا۔ امریکہ کی دشمنی کھل کر سامنے آ چکی ہے اگر ضمیر فروش،  اقتدار اور دولت کی ہوس کے پجاریوں کو  نظر نہیں آ رہی یا ان میں  غداری سرایت کر چکی ہے یہ ایک علیحدہ بات ہے وگرنہ قوم کو امریکہ کا “ڈو مور”  کبھی بھی قبول نہیں !

Facebook Comments

Abdullah Qamar
Political Writer-Speaker-SM activist-Blogger-Traveler-Student of Islamic Studies(Eng) at IOU-Interested in International Political and strategic issues.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply