کارِ جہاں دراز ہے، اب میرا انتظار کر(حصّہ اوّل)۔۔عائشہ یوسف

میرا نام اینڈریو مورگن ہے اور میں ایک خلا باز ہوں۔ میرے سامنے خدا کی لامتناہی کائنات ہے اور آٹھ گھنٹے کا وقت۔۔۔۔ مگر نہیں۔۔۔ اس سے پہلے کچھ اور باتیں بھی جاننا ہوں گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
14 فروری 2018 ، فلوریڈا ، امریکہ۔
میرے سامنے دریائے اوکلاہاوا ہے اور پہلو میں میری منگیتر ایما ولیم ! سورج دریائے اوکلاہاوا میں غروب ہورہا ہے اور ایما کی نیلگوں آنکھوں کے فسوں میں کوئی بھی ڈوب سکتا ہے۔ میرا دل تو یہی ہے کہ یہ لمحے کبھی ختم نہ ہوں۔ ایما خاصی پریکٹیکل لڑکی ہے مگر اس وقت خاصی آزردہ لگ رہی ہے۔ دریائے اوکلاہاوا سے بھی گہری اس کی آنکھیں بار بار پانیوں سے بھر آتی ہیں جنہیں ہتھیلیوں سے مسل کر وہ مجھ سے مسکرا کر پھر سے باتیں کرنے لگتی ہے۔ اس کو میرے شعبے ، میرے پیشے کی تمام حساسیات اور باریکیوں کا علم ہے۔ وہ جانتی ہے کہ میں کتنے اہم خلائی مشن پر جانے والا ہوں ۔ میں ‘اینڈریو مورگن’ اپنی تمام تر ذہانت اور سائنٹفک اپروچ کے باوجود اسے جذباتی دلاسے ہی دے رہا ہوں۔
” ایما! محبت کرنے والے آسمان سے چاند تارے توڑ لانے کے دعوے کرتے ہیں۔ یوں تو تمہارا یہ عاشق حقیقتاً چاند سے محض تین دن کی دوری پر واقع انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن کا چھ ماہ تک مکین ہوگا ، مگر ایسا کوئی وعدہ کرنے سے قاصر ہے۔ ہاں ! مگر چھ ماہ بعد زمین واپسی پر تمہیں اپنی شریک حیات بنا کر یہ خلا نورد تمہارے ہی مدار پر پر گردش کرے گا ، یہ میرا وعدہ ہے۔ ”
ایما ولیم میرا یہ سائنسی اظہار محبت سن کر کھلکھلا کر ہنس پڑی۔ اس کی جھیل سی آنکھوں میں تارے جگمگائے اور وہ بولی،
” You know Andrew ! I fell in love with an astronaut and he wants space ”
اب کی بار مسکرانے کی باری میری تھی ۔

ایسا ہمیشہ ہی ہوتا تھا۔ جب بھی اس سے ملنے فلوریڈا آتا ، ہمارے درمیان ایسی ہی گفتگو ہوا کرتی۔ وہ میری محبت تھی اور اب منگیتر بھی۔ جب میں نے واشنگٹن ، ڈی ۔سی میں واقع ناسا کا ہیڈ کوارٹر جوائن کیا تھا وہ بہت خوش تھی ، وہ جانتی تھی کہ یہ میری ڈریم جاب تھی۔ ان دنوں وہ تعلیم مکمل کرنے کے ساتھ ساتھ ملازمت بھی کیا کرتی تھی۔ پھر جلد ہی وہ دن آگیا جب میں فلوریڈا سے واشنگٹن آگیا۔ ناسا ہیڈ کوارٹرز میں میری ملازمت انتہائی حساس نوعیت کی تھی۔ اکثر ناسا کے خلائی مشن انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن ( آئی ایس ایس) جایا کرتے۔ میں ان کریو ممبرز کو رشک سے دیکھا کرتا ، اور انتظار کرتا کہ کب میں بھی ان خوش نصیب انسانوں میں شامل ہوں گا جو آسمانوں سے بھی اوپر خلا کو تسخیر کر آئے ہیں۔
اور پھر وہ موقع اگیا۔ ناسا کے اگلے اسپیس مشن کیلئے میرا نام بھی کریو ممبرز میں شامل تھا۔ میں نے سب سے پہلے یہ خبر ایما ولیم کو دی۔ گرچہ اس نوعیت کے مشن انتہائی حساس نوعیت کے ہوتے تھے مگر ایما میرے شعبے کی باریکیوں سے خوب واقف تھی۔

جلد ہی میری دو سالہ ٹریننگ کا آغاز ہوگیا ۔ یہ ایک طویل، مشکل اور سخت ٹریننگ تھی، جس میں ہماری جسمانی ، ذہنی ، تربیت کے ساتھ ساتھ مختلف مواقع پر استعمال ہونے والے طریقہ کار ، اسپیس شٹل اور آئی ایس ایس (ISS) کے آلات کی تربیت ، EVA یعنی space walk کی تربیت اور دیگر کئی طرح کی ٹریننگ شامل تھی۔ اس کے علاوہ ہماری فٹنس اور طبی جانچ کا روزانہ خاص اہتمام کیا جاتا۔ EVA (extra vehicular activity) یعنی خلا میں چہل قدمی کی مشق کیلئے ہمیں ہوسٹن ، ٹیکساس میں قائم ایک بڑی سی لیب جو کہ پانی کے ٹینک پر مشتمل ہے وہاں لے جایا گیا، اور تربیت دی گئی۔ اسے نیوٹرل بیونسی کہا جاتا۔ بالآخر اس کٹھن اور طویل تربیت کا اختتام ہوا اور مجھ سمیت دو خلا باز “رابرٹ جان” اور “جیکب میسن” اس خلائی مشن space X کیلئے تیار ہوگئے۔ روانگی سے تقریباً دو ماہ قبل میں ایما ولیم سے الوداعی ملاقات کرنے دو دن کی چھٹی پر آیا ہوا تھا۔ 10 اپریل 2018 کو ہمارے اسپیس سوئز کی روانگی تھی۔

فی الوقت ہم تمام فکروں کو ذہن سے جھٹک کر صرف اس ملاقات کو بھرپور بنانے دریائے اوکلاہاوا کے کنارے موجود تھے۔ شام ڈھل گئی تھی ۔ سامنے نیلگوں رنگت والا پانی اور ساتھ نیلگوں آنکھوں والی لڑکی۔ دور آسمان پر اب تارے دکھائی دے رہے تھے ۔ میں ہمیشہ چاند ، تاروں کو ایک سائنسدان کی حیثیت سے دیکھتا تھا ، مگر ایما ولیم کا نظریہ بہرحال مجھ سے مختلف تھا۔ اسی وقت آسمان پر روشنی کا ایک کوندا تیزی سے زمین کی طرف جاتا دکھائی دیا۔ وہ ایک شہابیہ تھا۔ ایما نے آنکھیں بند کرلیں ، اور منہ ہی منہ میں دعا مانگنے لگی۔ اس کی یہ عادت میں جانتا تھا۔ وہ ہمیشہ ٹوٹتے تاروں ( جو درحقیقت خلا سے آنے والے مادے کے ٹکڑے ہوتے ہیں) کو دیکھ کر یونہی دعا مانگتی اسے ان دعاؤں کی قبولیت پر یقین تھا۔ کتنی بھولی تھی ایما ! ایک خلانورد کی منگیتر !
” تم نہیں بدلو گی ایما! یہاں فلوریڈا میں گرتے شہابیوں کا نظارہ ایک عام سی بات ہے ، اور میں کئی دفعہ بتا چکا ہوں کہ یہ اصل میں outer space سے آنے والے ٹکڑے ہیں جو زمین کے مدار میں پہنچ کر ہوا کی رگڑ سے جل اٹھتے ہیں اور ۔۔۔۔ ”
” I do know Andrew. ”
ایما نے تیزی سے میری بات کاٹی ۔
” مگر کچھ باتیں اعتقادوں اور استعاروں کے پردوں میں ہی اچھی لگتی ہیں ، چاہے تمہاری سائنس کچھ بھی کہتی رہے۔ ”
” اچھا ! پھر بتاؤ کیا دعا مانگی؟ ” میں نے مسکرا کر پوچھا ۔
” وہی ! کہ تم سدا سلامت رہو۔ ”
اس کا ہمیشہ والا جواب ترنت آیا۔
” Don’t you worry dear. I’ll stay in touch ”
میں نے دلاسہ دیا۔ اور یہ محض دلاسہ نہیں تھا۔ وہ اور میں جانتے تھے کہ انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن پر اپنے تمام کاموں کے دوران بھی ہم ایک نارمل لائف گزارتے ہیں ، جس میں ہفتے میں ایک دفعہ یکطرفہ طور پر فیملی سے رابطہ بذریعہ کال بھی شامل ہے
” Love you to the moon and back Andrew”
“Love you to the moon and back
Emma”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
10 اپریل 2018 ، واشنگٹن ڈی سی (امریکہ)
آخرکار وہ تاریخ ساز لمحہ بھی آ ہی گیا جب میں ، رابرٹ جان اور جیکب میسن خلا میں جانے کیلئے تیار تھے۔ ہمارے مشن میں خلائی اسٹیشن میں چھ ماہ کے قیام کے دوران مختلف تجربات، خلائی اجسام پر تحقیق، اور ISS کی مرمت شامل تھی۔ اس مشن کیلئے ہم تینوں خلا بازوں کو ہر ممکنہ پہلو سے تیار کیا گیا تھا۔ ہر قسم کے ہنگامی حالات سے نمٹنے اور ہر قسم کی ضروری تربیت کے بعد ہم تینوں اپنے مہنگے ترین ، یعنی 12ملین US ڈالر کے اسپیس سوٹ پہنے خلائی شٹل میں سوار ہوکر اپنی نشستوں پر مکمل فکس ہو گئے۔ جلد ہی راکٹ نے زمین کی سطح کو چھوڑا اور آگ کا شعلہ سا لپکا۔ اب اسپیس شٹل اوپر ہی اوپر کی طرف گامزن تھی۔ ایما ولیم کی دنیا سے دور اور دریائے اوکلاہاوا سے پرے۔۔۔ نئے جہانوں کی تلاش میں۔۔۔!

زمین سے 400 کلومیٹر کی دوری پر ، دنیا کے 16 طاقتور اور ترقی یافتہ ممالک کی مشترکہ کاوشوں کا ثمر ، 120 ملین ڈالر کی خطیر رقم سے تیار کردہ ، انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن ISS ، جو زمین کےگرد اپنا ایک چکر 90 منٹ میں مکمل کرتا ہے ،ہماری منزل مقصود ٹھہرا۔ اب ہم زمین کی کشش ثقل سے آزاد ہوچکے تھے اور خود کو بالکل بے وزن محسوس کررہے تھے ۔ مکمل معلومات اور تربیت کے باوجود یہ میرے لئے ایک منفرد اور نیا تجربہ تھا۔ ہمارے soyuz capsule میں لگے آلات اور مشینیں ہمیں خلا میں سمت سمیت کئی اشارے دکھارہی تھیں۔ خلا میں کئی روسی ، چینی ، جاپانی اور دیگر ممالک سمیت امریکہ کے بھی سیٹلائٹ موجود ہیں مگر ہماری منزل آئی ایس ایس تھا، جو 1998 سے 2011 کے عرصے میں مکمل ہوا ، تاہم 2000ء سے ہی اس پر انسانی سرگرمیاں ، تجربات اور جاسوسی مشن جاری تھے۔ میرے ہیلمٹ میں لگے مختلف ڈیوائسز مجھے اپنے ساتھیوں سے بات چیت کرنے کے قابل بنا رہے تھے ، کیونکہ خلا میں آکسیجن نہ ہونے کی وجہ سے ریڈیائی لہروں کے ذریعے رابطہ ممکن بنایا جاتا ہے۔ اب ہمیں خلا میں سفر کرتے پانچ گھنٹے بیت چکے تھے ، اور ایک گھنٹے بعد ہم آئی ایس ایس پر لینڈ کرنے والے تھے۔ آخرکار ہمارا soyuz spacecraft انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن سے منسلک ہوگیا ، اور ہم ائر لفٹ میں داخل ہوگئے۔ ائرلفٹ وہ مختصر سی راہداری ہے جو اسپیس اسٹیشن کی آکسیجن کو باہر خلا میں ضائع ہونے سے بچاتی ہے۔ ہم لوگ ائرلفٹ سے گزر کر ISS میں داخل ہوگئے۔ اب ہم ہوا میں معلق اور تیرنے کے انداز میں حرکت کر رہے تھے۔ ہمارے استقبال کیلئے ایک روسی، اور ایک جاپانی مرد خلانورد اور ایک امریکی خلاباز خاتون شامل تھے۔ ان کی معیت میں ہم ISS کا دورہ کرنے آگے کی طرف فضا میں تیرنے لگے۔ جلد ہی ہم مخصوص لباس سے آزاد تھے اور عام زمینی لباس میں نسبتاً آرام دہ محسوس کر رہے تھے ۔

109 میٹر طویل انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن جو کہ چھ کمروں ، دو باتھ رومز ، ایک جم اور ایک 360 ڈگری view window پر مشتمل ہے ، میرے لئے تحیر اور دلچسپی کی ایک نئی دنیا تھی۔ یہ میرا پہلا دورہ تھا جبکہ میں جانتا تھا کہ انیس ممالک کے 242 افراد اب تک اس انسانی شاہکار کا دورہ کر چکے ہیں، اور چھ افراد پر مشتمل عالمی کریو یہاں ہمیشہ آن ڈیوٹی ہوتا ہے۔ یہاں کے فول پروف نظام کو چلانے کیلئے پچاس سے زائد کمپیوٹرز کا استعمال کیا گیا ہے۔ اب ہم 360 ڈگری زاویے والی بڑی سی شفاف کھڑکی کے سامنے موجود تھے۔ سامنے کائنات اپنی تمام تر وسعتوں اور اسرار کے ساتھ پھیلی ہوئی تھی۔ کائنات جو خدا نے انسان کے غور وفکر کیلئے تخلیق کی ۔۔۔۔ کائنات جو ہر لمحہ پھیلتی چلی جارہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
21 اپریل 2018 ، لاہور ، پاکستان
ستارہ کیا مری تقدیر کی خبر دے گا
وہ خود فراخی افلاک میں ہے خوار وزبوں
یہ کائنات ناتمام ہے ابھی شاید
کہ آرہی ہے دمادم صدائے کن فیکوں

آج علامہ اقبال کی 70 ویں برسی کے موقع پر منعقدہ اس سیمینار کا موضوع ہے ” اقبال اور فلکیات ” ۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ علامہ اقبال کی شاعری میں تصوفانہ اور آفاقی رنگ کے ساتھ ساتھ کائنات کے اسرار و رموز پر غور وفکر کا رنگ بھی نظر آتا ہے۔ اقبال کائنات کے مسلسل ارتقاء کے قائل تھے ۔۔۔۔۔۔۔”

Advertisements
julia rana solicitors

فاضل مقرر کا مقالہ جاری تھا۔ پروفیسر مفتی جلال احمد خان نے گھڑی پر نظر ڈالی ۔ ابھی ان کے پاس آدھا گھنٹہ باقی تھا۔ اس کے بعد ان کو ایک مدرسے کا افتتاح کرنے اور اس کے بعد ایک ڈنر میں بھی شرکت کرنی تھی۔ اپنے اس مختصر دورہ لاہور میں ان کی کئی مصروفیات اور پروگرام شیڈول کا حصہ تھے۔ پروفیسر صاحب علم فلکیات پر ایک اتھارٹی مانے جاتے تھے۔ اقبالیات پر بھی ان کے کئی مقالے شائع ہوچکے تھے۔ اس کے علاوہ وہ ایک جید عالم دین اور اسکالر بھی تھے۔ کچھ اہم سرکاری اور غیر سرکاری تنظیموں کے روح رواں بھی تھے۔ یہاں اس سیمینار میں وہ مہمان خصوصی کی حیثیت سے شریک تھے۔
“چند منٹ بعد منتظمین سے اجازت چاہوں تو بہتر رہے گا۔ ”
مفتی جلال احمد نے سوچا۔
” ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
تہی زندگی سے نہیں یہ فضائیں
یہاں سینکڑوں کارواں اور بھی ہیں
قناعت نہ کر عالم رنگ و بو پر
چمن اور بھی آشیاں اور بھی ہیں
اسی روز وشب میں الجھ کر نہ رہ جا
کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں
اقبال فلسفہ خودی کے ساتھ ساتھ مسلمانوں ، خصوصاً اہل مشرق کو کائنات پر تدبر کرنے کی بھی دعوت دے رہے ہیں مگر افسوس کہ اہل مغرب تو چاند ، ستاروں پر کمندیں ڈال رہے ہیں مگر مسلم امہ فروعی مسائل میں الجھی۔۔۔۔۔۔۔”
پروفیسر جلال نے چینی سے دوبارہ پہلو بدلا اور گھڑی پر دوبارہ نظر ڈالی۔ دس منٹ گزر چکے تھے، مگر اس ناخلف مقرر کی تقریر ختم ہوکر نہیں دے رہی تھی ۔
اب مفتی جلال احمد خان کھڑے ہوچکے تھے اور اپنے ذاتی عملے کی معیت میں منتظمین کی جانب بڑھ رہے تھے۔
” باغ بہشت سے مجھے اذن سفر دیا تھاکیوں”
کار جہاں دراز ہے اب مرا انتظار کر”
مقرر کی آواز ہال کے باہر تک سنائی دے رہی تھی۔ مفتی صاحب نے سر جھٹکا اور تیزی سے گاڑی کی طرف بڑھ گئے۔
جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply