مُلاں بخشو کا اسلام۔۔۔علی اختر

یہ قصہ آ ج سے کئی  سال پہلے شروع ہوا۔ شہری آ بادی سے دور پسماندہ گاؤں سے بخشو نامی آ دمی نے روزگار کے لیے شہر کا رخ کیا۔ ارادہ تھا کہ شہر میں محنت مزدوری کر کے اپنے حالات بدل ڈالے گا۔ اسی سوچ کو لے کر بھولا بھالا بخشو شہر پہنچ گیا۔
شہر میں کئی دن کھانے کی جگہ دھکے کھانے کے بعد ایک دن بخشو مسجد میں نماز کے بعدجب ٹھیٹھ پینڈو لہجے میں گڑگڑا کر دعا کر رہا تھا آ نکھیں بند تھیں اور آ نسو رواں ،ٹھیک اسی لمحے ایک شفقت بھرا ہاتھ بخشو کو اپنے سر پر محسوس ہوا۔

آنکھیں کھولیں تو کیا دیکھتا ہے سفید اجلے لباس میں ملبوس ایک نورانی چہرہ سامنے ہے ۔ “کیا مسئلہ درپیش ہے” نورانی چہرے والے آ دمی نے پوچھا۔ بخشو کا ضبط ہمدردی کے دو بول پاش پاش کر گئے۔ وہ کوئی  جواب دیئے بغیر پھوٹ پھوٹ کر رو دیا۔ اس مہربان شخص نے بھی مزید کوئی  بات کہے  بغیر عقبی جیب سے  کچھ رقم نکال کر بخشو کی طرف بڑھادی۔
رقم دیکھ کر بخشو کی غیرت جوش میں آ گئی  ۔
وہ بولا ” جناب میں فقیر نہیں۔ اگر کچھ بھلا کرنا ہی چاہتے ہیں تو کوئی  کام دلا دیں”
مہربان شخص نے مسکرا کر بخشو کی جانب دیکھا اور پیچھے آ نے کا اشارہ کر کے مسجد کے دروازے کی جانب جانے لگا۔ بخشو بھی پیچھے پیچھے تھا۔ مسجد سے نکلتے ہی وہ دونوں مسجد کی دیوار سے ملے ہوئے ایک محل نما گھر کے دروازے پر تھے۔ جہاں وہ نورانی چہرے والا آ دمی اپنے وسیع خاندان کے ساتھ رہتا تھا۔اس خاندان کے لوگ ناصرف شہر کا سب سے دین دار اور اہل علم تصورکیےجاتے تھا بلکہ باقی شہرکے دینی عمور سے متعلق معاملات بھی وہی لوگ دیکھتے تھے۔

یہاں سے بخشو کی زندگی میں ایک اہم تبدیلی آئی۔ویسے تو بخشو اس گھر میں چھوٹے موٹے کام کاج دیکھتا تھا لیکن ساتھ ہی ساتھ وہاں رہنے والوں کے طرز زندگی سے متاثر بھی ہو رہا تھا۔ اسے وہ لوگ خود سے کچھ الگ سے لگتے تھے۔آخر ایک دن بخشو نے ڈرتے ڈرتے یہ سوال اس مہربان صورت شخص سے کر ہی دیا۔
“حضور آ پ اور ہم دونوں ہی مسلمان ہیں لیکن کیا وجہ ہے کے آ پ کا طرز زندگی ہم سے کچھ مختلف ہے”

وہ مہربان مسکرا یا اور گویا ہوا۔۔۔”میرے بھولے بخشو! بس یہ جان لو کے جو کچھ تم یہاں دیکھتے ہو یہی اصل اسلام ہے۔ باقی جو کچھ تم کرتے رہے ہو خرافات ہیں”

“بہتر حضور”-بخشو نے عقیدت سے سر جھکا لیا۔

دن گزرتے گئے ۔ دن مہینے اور مہینے سال بن گئے ۔ بخشو کو گھر کی یاد ستانے لگی ۔ ویسے بھی وہ کافی رقم جمع کر چکا تھا۔ سو ایک دن بخشو نے اپنے محسن سےگھر واپس جانے کی اجازت طلب کی۔
وہ مہربان پھر مسکرایا اور بولا ” جا میرے بھولے بخشو پر یاد رکھنا۔ جو کچھ تو نے یہاں دیکھا وہی اصل اسلام ہے سو بھول نہ جانا۔ جہاں بھی رہو لوگوں کو اصلی اور خالص دین سکھاتے رہنا”-
بخشو نے عقیدت سے اپنے محسن کے ہاتھ چو نے اور گاؤں کی طرف سفر شروع کیا۔

گاؤں پہنچتے ہی بخشو نے ایک میٹنگ بلائی اور تمام گاؤں والوں کے جمع ہونے پر ایک زوردار تقریر کی ۔

” او کم عقلو، او خرافاتیو ، اور کافرو ، بد عتیو، آ ج تک تم دین کے نام پر جن جن قبروں کی پرستش کرتے تھے ، جن جن ننگے پیروں سے اولاد مانگتے تھے، دھمال کے نام پر دین میں رقص کی گنجائش نکالتے تھے، مرغے اور کتے لڑاکر ، تاش اور لوڈو کھیل کر وقت برباد کرتے تھے، کچی شرابیں پی کر اکثر مر جاتے تھے، عورتیں بے پردہ گھومتی تھیں، مرد نماز کے وقت کاروبار بند نہیں کرتے تھے۔ اور جو خرافات بھی کیا کرتے تھے،
اب بس ۔۔۔۔
آ ج سے میں تمہیں اصلی  اور  خالص دین سکھاؤ ں گا اور سب گاؤں والے اسی پر عمل کریں گے۔”

اب یہ بخشو کے اجلے کپڑے تھے، شہر میں کمائے ہوئے نوٹ تھے یا زور بیان کہ  لوگ  جوق در جوق “ملاں بخشو” کے ہاتھ پر بیعت کرنا شروع ہو گئے اور پچھلی گناہوں بھری زندگی سے توبہ کر لی۔

گاؤں کا معاشرہ آ ہستہ آ ہستہ سدھرتا گیا اور لوگوں کی زندگی بدلنا شروع ہو گئی ۔ مثلاً  بڑوں نے تاش کے پتے اور چھوٹوں نے لوڈو کی گوٹیاں اور چھکے روڈ پر جلا کر تو بہ کی، کاروبار نماز کے اوقات میں بند ہونا شروع ہو گیا، لڑکیاں ، بالیاں دوپٹہ چھوڑ کر عبایہ پر آ گئیں (وہ الگ بات ہے کے اس میں بھی اس قدر مہین اور فٹنگ والے عبائے فیشن میں آ گئے کہ  ملا بخشو کو اپنے فتوے سے رجوع کرنا پڑا اور پرانی  روایت کے حق میں دستبردار ہونا پڑا) غرض ہر طرف اسلامی ماحول بن گیا۔

اب بخشو بوڑھا ہونے لگا تھا۔ گاؤں میں مسجد اور مدرسہ تعمیر ہوچکا تھا، آ دھےنو جوان تبلیغ پر اور آ دھے جہاد پر جا چکے تھے، ایسے میں بخشو کے دل میں اس مہربان کا آ خری بار دیدار کرنے کی جستجو بیدار ہونا شروع ہوئی  اور پھر ایک دن ملا بخشو نے اس نیت سے شہر کا رخ کیا کے اپنے محسن کا آ خری آر دیدار کر لے۔

لیکن یہ کیا شہر کا تو نقشہ ہی تبدیل تھا، خواتین سر کھولے گاڑیاں ڈرائیو کر رہی تھیں، ڈرافٹنگ کا سالانہ مقابلہ بھی ایک خاتون ہی  نے جیتا تھا، فضا میں موسیقی کی کھنکھناہٹ بس چکی تھی، جگہ جگہ کیسینو تھے مشروبات کا دور تھا، ترشی ہوئی  فیشنی داڑھیاں تھیں، مسجدوں میں اب وہ رونق باقی نہیں رہی تھی۔

وہ فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا کہ  یہ وہی شہر ہے جہاں اسکی تربیت ہوئی  تھی۔ اسی شش و پنج میں وہ اس مہربان نورانی صورت آ دمی کے سامنے پہنچا۔
” سرکار ۔ یہ سب کیا ہو گیا ۔ “ابھی وہ کچھ اور بولتا کہ  مدھم موسیقی پر جھومتے اس مہربان نے بات کاٹ دی۔

“میرے بھولے بخشو! اب تک تم جو کچھ کرتے رہے اسے بھول جاؤ۔ یاد رکھو اب سے یہی اصلی اور خالص اسلام ہے۔”
اور بخشو شش و پنج میں  پڑا ،اپنا سا منہ  بنا کر رہ گیا۔۔۔

نوٹ : کچھ شر پسند اس تحریر کو حالیہ سعودی اصلاحات سے جوڑنے کی کوشش کریں گے، راقم ان سے برات کا اعلان کرتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

Save

Facebook Comments

علی اختر
جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply