امریکی بالادستی کا زوال۔۔۔ اذان ملک

امریکی سامراج کا سورج پہلی جنگ عظیم کے بعد طلوع ہونا شروع ہوا، دوسری جنگ عظیم میں اتحادیوں کی فتح سے اسکی ٓاب و تاب میں اضافہ ہوا اور  پھر دیکھتے ہی دیکھتے اسکی چمک سے دنیا کی ٓانکھیں چندھیانے لگیں۔ 1991میں سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور کہلایااوربیسویں صدی کو American Century قرار دیا گیا ۔ بیسویں صدی اختتام پذیر ہو چکی ہے اور مفکرین کا کہنا ہے کہ اسکے ساتھ ساتھ امریکی عروج کا سورج بھی اپنے زوال کا سفر شروع کر چکا ہے،  لیکن اسے ڈوبنے میں ابھی کچھ وقت لگے گا۔ امریکی صدارت کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کی الیکشن مہم بھی اسی نکتے کے گرد گھوم رہی ہے۔ اسکا کہنا ہے کہ

You cannot make America great again, if it’s not great now۔

گویا کہ خود امریکیوں کو بھی یہ احساس ہے کہ امریکی ریاست زوال کا شکار ہو رہی ہے ۔ مشہور امریکی رائیٹر Noam Chomsky نے اپنی کتاب Who Rules The World ” میں بھی امریکی زوال اور اسکی دم توڑتی ہوئی طاقت کا بڑا متاثر کن نقشہ کھینچا ہے ۔

گرتی ہوئی امریکی ساکھ:

بین الاقوامی منظر نامے کا قریب اور تسلسل سے مشاہدہ کرنے والے اس بات سے اتفاق کریں گے کہ پچھلے پندرہ بیس سال سے عالمی معاملات پر امریکہ کی گرفت اتنی مضبوط نہیں رہی جتنی اس سے پہلے تھی۔امریکہ علمی پولیس مین کا جو کردار ادا کر رہا تھا، اب اس میں جان نہیں رہی۔ 9/11کے بعد دہشتگردی کے خلاف جنگ کے نام پر امریکہ نے ایشیا ، مشرق وسطیٰ اور افریقی ریاستوں میں جوچھوٹی بڑی جنگیں شروع کیں، اس سے اسکی فوجی طاقت اور جنگی وسائل کئی حصوں میں تقسیم ہوگئے جس سے امریکہ نہ صرف فوجی لحاظ سے کمزور ہوا بلکہ فوجی کاروائیوں میں لاکھوں بے گناہ انسانوں کی ہلاکت نے اس جنگ کی حرمت پر بہت سارے سوالیہ نشان بھی اٹھا دیئے۔ اس سے دنیا میں امریکہ کے خلاف نفرت کے جذبات میں اضافہ ہوا اور امریکی انتظامیہ کو اخلاقی لحاظ سے بھی حزیمت کا سامنا کر نا پڑا۔ بارک اوباما امریکہ کو ان جنگوں سے نکالنے کا عہد اور دنیا میں امن قائم کرنے کا نعرہ لگا کر وائٹ ہاؤس میں ظہور پذیر ہوئے اور امن کا نوبل پرائز بھی وصول کیا۔ امریکہ کے اندر ان پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ He is too soft۔ اسی لئے موجودہ صدارتی امیدوار خاص طور پر ڈونلڈ ٹرمپ ایک ہارڈ لائن لے کر چل رہے ہیں جس سے وہ امریکی عوام کو یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ امریکہ کا ٓائندہ صدربہت سخت گیر ہو گا اور امریکی مفادات کے تحفظ کیلئے سخت کاروائیاں کرے گا۔ مستقبل کا امریکی صدردنیا کو کس طرح امریکی خواہشات کے مطابق چلنے پر مجبور کرے گا یہ تو وقت ہی بتائے گالیکن حال یہ کہتا ہے کہ اب دنیا امریکہ کے اشاروں پر نہیں چل رہی ۔ پاکستان سمیت دیگر بہت ساری ریاستیں جو امریکی ڈکٹیشن پر چلتی تھیں اب اپنی ٓازاد خارجہ پالیسی اپنا رہی ہیں ۔ دنیا unipolarسے multipolar کی سمت گامزن ہے ۔ اب طاقت کا واحد مرکز صرف امریکہ نہیں رہا بلکہ روس، چین اور جرمنی بھی اپنی طاقتور معیشت اور فوج کے ساتھ میدان میں اتر چکے ہیں ۔ یہ امریکی کمزوری ہی تھی کہ اسے ایران سے نیو کلیئر ڈیل کرنی پڑی، کیوبا سے تعلقات بحال کرنے پڑے۔ اور یہ بھی امریکی کمزوری کی ہی مثال ہے کہ بشارت الاسد ابھی تک شام کا صدر ہے جسے ہٹانا امریکی خواہش تھی لیکن شامی صدرکو حاصل روس اور ایران کی حمائت اس خواہش کی تکمیل کے راستے میں بڑی رکاوٹ تھی اور ہے ۔ پاکستان کا امریکی پریشر کے باوجود پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کو جاری رکھنے کا عزم بھی امریکی اثر سے ٓازادی کا ترجمان ہے ۔ روس کے کریمیا پر قبضے، یورپ کو کھلی جنگ کی دھمکی اور اس سے بڑھکر CIA کے سابقہ ملازم Edward Snowden جس نے امریکی خفیہ معلومات کو دنیا کے سامنے افشاء کیا،اسے پناہ دینا اور امریکہ کے حوالے کرنے سے انکار پرامریکہ کا کوئی بھر پور کاروائی نہ کر سکنا بھی اس بات کا عندیہ دیتا ہے کہ امریکہ کمزور ہو گیا ہے ۔چین کے ساؤتھ چائنا سی میں امریکی اتحادیوں جاپان، فلپائین اور ویتنام کے اعتراض کے باوجود متنازعہ جزائر کی تعمیر پر غیر موثر امریکی ردعمل ، سعودی عرب کی یمن کے خلاف یلغار اور امریکہ کی اس میں عدم شرکت،شمالی کوریا کا مغربی ممالک کی مخالفت کے باوجود اپنا ایٹمی اور میزائل پروگرام جاری رکھنا بھی امریکی پسپائی کی نشاندہی کرتا ہے ۔

معاشی مشکلات :

معاشی میدان میں بھی امریکہ کا اثر و رسوخ کم ہو رہا ہے اور چین ، جرمنی ، برازیل ، روس کی جانب سے اسے معاشی میدان میں بھی چیلنجز کا سامنا ہے ۔ گو کہ ابھی تک امریکی معیشت اپنے پیروں پر کھڑی ہے اور چینی معیشت سے اسکا حجم بڑا ہے لیکن چین بڑی تیزی سے ٓاگے نکل رہا ہے اورعالمی معیشت میں اسکا حصہ دن بدن دگنا ہو رہا ہے ۔ چینی کمپنیا ں اور سرمایہ کاربڑی مقدار میں پوری دنیا میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں اور چین کا نیٹ ورک یورپ، افریقہ ، وسطی ایشائی ریاستوں اور ایشیا میں بڑی سرعت سے ٓاگے بڑھ رہا ہے ۔معاشی میدان میں مقابلے کے ساتھ ساتھ امریکہ کو روز بروز بڑھتے ہوئے قرضوں نے بھی گھیر رکھا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق سال 2016کے اختتام پر امریکہ پر کل اندرونی اور بیرونی قرضے 22.4ٹریلین ڈالر تک پہنچ جائیں گے ۔ امریکہ پر بیرونی قرضوں کا بوجھ 4.046ٹریلین ڈالر ہے جس میں سے 1.243ٹریلین ڈالر کا قرضہ چین سے لیا گیا ہے ۔اسکے علاوہ بجٹ خسارہ بھی ہر سال بڑھ رہا ہے ۔ مالی سال 2015میں بجٹ خسارہ 438بلین ڈالر تھا جبکہ مالی سال 2016میں متوقع خسارہ 616بلین ڈالر ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکی معیشت بہت بڑی ہے لیکن جب ملکی معیشت اسکے اخراجات کو پورا کرنے سے قاصر ہو تویہ بات واضح ہوتی ہے کہ معیشت کی صحت ٹھیک نہیں اور اس میں ملکی اخراجات کو پورا کرنے کی سکت کم ہو رہی ہے ۔

Asian infrastructure Investment Bank کا قیام:

IMFاور World Bank Group کے قیام کا سہرا امریکہ کے سر جاتا ہے اور امریکہ اسکا سب سے بڑا ڈونر ہے، اسی لئے یہ ادارے امریکی اشاروں پر چلتے ہیں ۔ چین نے ان اداروں کے مقابلے میں Asian infrastructure Investment Bank کے قیام کی بنیاد رکھی جسکا ہیڈ کوارٹر بیجنگ چین میں ہے ۔ امریکہ اور جاپان اسکی ممبر شپ اختیار کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے لیکن امریکہ کے قریبی ساتھیوں میں برطانیہ اور آسڑیلیا نے امریکہ کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اس بینک میں شمولیت اختیار کی ہے ۔ اس بینک کے قیام سے ٓانے والے چند سالوں میں عالمی مالیاتی نظام کا کنٹرول بتدریج مغرب بالخصوص امریکی اثر سے نکل کر مشرقی اقوام، جن میں چین سر فہرست ہے، کے ہاتھ میں ٓاجائے گا۔اسطرح امریکہ کا عالمی مالی معاملات میں جو اثر و رسوخ ہے وہ بھی کم ہو جائے گااور پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک IMFاور World Bankکی بلیک میلنگ سے محفوظ ہو سکیں گے ۔

Shanghai Cooperation Organization:

NATOفوجی اتحاد امریکاکا ایک طاقتور بازو ہے اورشنگہائی کوواپریشن ٓارگنائزیشن کے بارے میں مغرب میں یہ تاثرپایاجاتا ہے کہ یہ تنظیم فوجی نکتہ نظر سے مستقبل میں NATOکی حریف ثابت ہوگی ۔ اسکے ممبران خاص طور پر چین اور روس کا دہشتگردی، انتہاپسندی اورعلیحدگی پسندی کے خلاف ملکر کام کرنے کا عزم اور اس ضمن میں فوجی تعاون مستقبل میں ایک بڑے اور مضبوط فوجی اتحاد کی طرف اشارہ کر تاہے ۔ اگر روس اور چین دونوں کے فوجیوں کی تعداد کو جمع کیا جائے تو کل ایکٹو ڈیوٹی فوج کی تعداد 3.1ملین بنتی ہے ۔ reserveدستے اسکے علاوہ ہیں ۔ جسکا کل بجٹ 200بلین ڈالر ہوگا۔ سال 2016میں پاکستان اور انڈیا بھی اس تنظیم کے مکمل ممبر بن چکے ہیں جبکہ ایران بطور observerاس تنظیم میں شامل ہے ۔ اسطرح اس تنظیم میں NATOکے مقابلے میں چار نیو کلیئر پاورز اکٹھی نظر ٓاتی ہیں اور اگر اس میں پاکستان اور انڈیا کے فوجیوں کی تعداد کو بھی شامل کر لیا جائے تو یہ تنظیم ایک بڑی فوجی طاقت کے طور پر ابھرتی نظر ٓاتی ہے ۔گو کہ اس تنظیم کا بنیادی مقصدNATOکے مقابلے میں کسی فوجی اتحاد کی تشکیل نہیں بلکہ علاقائی ، معاشی، سماجی اور باہمی تعاون کو فروغ دینا ہے لیکن اس امکان کو رد بھی نہیں کیا جا سکتا کہ مستقبل میں یہ تنظیم ایسا کوئی اتحاد نہیں بنائے گی ۔

Advertisements
julia rana solicitors

اذان ملک عملی صحافت سے وابستہ اور سما نیوز سے منسلک ہیں۔ آپ قومی اور بین الاقوامی سیاسی صورتحال پر نظر رکھتے ہیں۔ 

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply