افغانستان کا بدلتا منظرنامہ۔۔۔ عمیر فاروق

افغانستان میں صرف مختلف ملکوں کی فوجیں ہی نہیں ڈوبیں بلکہ انواع و اقسام کی نظریاتی سیاست بھی ڈبکیاں لگاتی، بچاؤ بچاؤ کی آوازیں لگاتی بالآخر حقائق کے پانیوں میں ڈوب گئی۔

افغانستان میں ہونے والی حالیہ پیش رفتوں کا خلاصہ یوں ہے کہ وہاں امریکہ کا کردار اب انڈیا حاصل کرتا نظر آتا ہے، جس کا ذکر ہمارے کئی مبصرین نے بہت دلدوز لہجے میں کیا، حالانکہ یہ امر کسی دلدوزی کا بھی متقاضی نہ تھا۔ یہ لازمی نتیجہ تھا افغانستان کے بارے میں امریکہ اور انڈیا کے نقطہ ہائے نظر کے تضاد کا۔ امریکی طالبان سے مذاکرات کے خواہشمند تھے اور انڈیا اس کا سخت مخالف تھا تو حتمی طور پہ امریکیوں کا یہی جواب ہونا تھا کہ اگر پالیسی آپ کی ہے تو اس کا بوجھ بھی آپ ہی اٹھائیں۔

ہمارے ہاں اس تبدیلی کے اثرات اور نتائج کے بارے میں فکر مندی ہونا قدرتی ہے۔ ایک سوال یہ بھی ذہنوں میں گردش کرے گا کہ افغانستان میں کیا کوئی نئی پراکسی جنگ ہونے جارہی ہے؟ خوش آئند بات یہ ہے کہ عمومی منظرنامہ اس امکان کی نفی کرتا نظر آتا ہے۔

دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ کیا انڈیا کی مدد سے افغان اسٹیبلشمنٹ طالبان پہ غلبہ حاصل کرلے گی؟ کیونکہ اب مذاکرات کی سوچ تو ختم ہوچکی تو اس کا امکان بھی نظر نہیں آتا۔

افغانستان کے لئے انڈیا کی دفاعی اور سول امداد کا سلسلہ شروع ہے جس میں اضافہ ہوگا۔ انڈیا کو یہاں امریکیوں سے ملنے والے ورثہ میں سے ایک افغان اسٹیبلشمنٹ کی ساخت ہےامریکیوں نے جو افغان اسٹیبلشمنٹ تیار کی تھی اس کا بہت بھاری حصہ شمال کے قبائل یا افراد پہ مشتمل تھا جسے کبھی شمالی اتحاد کہا جاتا تھا اور جنوب کی پشتون آبادی کو طالبان اثرورسوخ کی وجہ سے قابل اعتماد نہ گردانا گیا۔ پشتون ، غیر پشتون و دیگر گروہی کشمکش آج بھی افغان معاشرہ کے علاوہ اسٹیبلشمنٹ میں بھی موجود ہے۔ اسٹیبلشمنٹ اب بھی بھاری غیر پشتون نمائندگی رکھتی ہے اور طالبان بھاری پشتون نمائندگی۔

دوسرا اہم مسئلہ افغان اسٹیبلشمنٹ کا مائنڈ سیٹ ہے۔ اس کی ایک ہلکی سی جھلک کچھ عرصہ قبل افغان اور امریکی دفاعی ذمہ داروں کی بحث سے عیاں ہوتی ہے۔ جہاں شمال مغربی افغانستان کے صوبہ بدخشاں میں ایک طالبان چوکی پہ قبضہ کی افغان کوشش زیربحث تھی۔ افغان دفاعی اہلکاروں کا اصرار تھا اے ۲۹ بمبار اس چوکی پہ قبضہ کے لئے کافی نہیں ،انہیں جیٹ بمبار درکار ہیں۔ اس پہ امریکی ماہر کی خفگی اور حیرانی بجا تھی، اس کا استدلال تھا کہ اوّل تو رات کے وقت زمینی حملہ ہی کافی ہے جہاں افغان طالبان کے پاس اندھیرے میں دیکھنے والی تین گوگلز کے مقابلے میں ان کے پاس بیاسی گوگلز ہیں دوسرے اے۲۹ بمبار کے درستی کے ساتھ نشانہ لگانے والے بم اگر کامیاب نہیں تو جیٹ فائٹر کیا کرسکتا ہے؟  لیکن اس کا جواب اسٹیبلشمنٹ کی سوچ اور نفسیات میں موجود ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر ان کے پاس کوئی افغان طالبان کے خلاف مدد کے لئے آیا ہے تو اس کا اپنا مفاد بھی کہیں موجود ہے لہذا اس سے زیادہ سے زیادہ خرچہ طلب کرنا ان کا حق ہے۔ شائد یہی وجہ ہے کہ اسی سال اب تک طالبان نے پچھلے سال کے مقابلے میں پانچ فیصد زیادہ رقبہ پہ قبضہ کیا ہے۔ ایسی صورتحال ،جہاں دیہات پہ طالبان کا قبضہ مستحکم ہے اور شہروں پہ اسٹیبلشمنٹ کا، ایک جمود کو جنم دیتی ہے لیکن اس جمود کو قائم رکھنا ہی کافی بڑا مالی بوجھ ہے اور مستقبل سے کسی قسم کی مایوسی طالبان کی راہ ہموار کرے گی۔

راولپنڈی کے مکینوں سے زمینی صورتحال کا کوئی پہلو پوشیدہ نہیں۔ شائد وقت اور خرچہ ہی ان کے وہ پوشیدہ ہتھیار ہیں جو اپنے پڑوسی کو واپس بھیجنے کے لئے وہ استعمال کریں۔ انڈیا کے مالی وسائل لامحدود نہیں سو وہ ان کے تھکنے کا انتظار کریں گے۔ امریکی یقیناً مکمل طور پہ واپس نہیں جائیں گے۔

افغانستان میں امریکہ اور انڈیا کے مفاد میں تضاد کی نوعیت یہ ہے کہ انڈیا افغانستان کو، جنگ کا تھیٹر بالآخر پاکستان میں منتقل کرنے کے لئے استعمال کرنا چاہتا ہے۔ اسے افغانستان میں مستقل قیام امن سے دلچسپی نہ ہے جبکہ امریکہ ۲۰۱۳ کے بعد سے ایسا چاہتا ہے۔ یہاں امن قائم ہوئے بغیر سی پیک کے رواں ہونے پہ امریکی لازماً بیچین ہونگے کیونکہ یہ وسطی ایشیا پہ چینی اجارہ داری کے مترادف ہوگا ان کی خواہش یہ ہوگی کہ تب تک افغانستان میں امن ہوتا کہ یہاں سے ایک متبادل راستہ نکال کے وہ وسطی ایشیا میں چین اور روس کی اجاراداری اور وسائل سے استفادہ کو چیلنج کئے رکھیں۔

یہ وہ نکتہ ہے جہاں امریکہ اور انڈیا کے مفاد کا تضاد اور پاک امریکہ مفاد کی یکسانیت پیدا ہوتی ہے۔ رجائیت پسند نقطہ نظر سے آنے والے چند سالوں تک افغانستان میں مستقل امن کے قیام کی امید نظر آتی ہے۔ البتہ خطرات بھی موجود ہیں، داعش کو ہی لے لیں جو افغانستان میں موجود ہے جسکی شدت پسند شیعہ مخالف سوچ افغان ہزارہ آبادی ،جو بیس فیصد کے لگ بھگ ہے ، کے لئے خطرہ ہے۔ داعش کا طاقت پکڑنا ایران کو مضطرب کرسکتا ہے اور پراکسی وار کی طرف معاملہ جا بھی سکتا ہے۔ تاہم فی الحال اس کا امکان نظر نہیں آرہا۔

Advertisements
julia rana solicitors

عمیر فاروق انگلستان میں مقیم تجزیہ نگار ہیں۔ آپ ساؤتھ ایشیا کے معاملات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ 

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply