ملالہ ! روشن چہرہ یا ایک قابل مذمت کردار۔۔۔انوار احمد

سوات کی بیٹی ملالہ یوسفزئی جو گل مکئی کے قلمی نام سے بھی پہچانی گئی آج مہذب دنیا میں ایک علم کی سفیر اور جہالت اور تاریکی کے خلاف ہونے والی کوششوں کی علمبردار بن چکی ہے۔ دنیا نے اس کم سن لیکن باہمت بچی کو سر آنکھوں پر بٹھا یا اور اسے اعلی ترین عالمی ایوارڈ نوبل اور دیگر بہت سے اعزازات سے نوازا ۔ امریکہ اور یورپ کے وہ رہنما اور شخصیات جو ہمارے سیاسی رہنمائوں اور حکومتی اداروں کے افراد کو دو منٹ کا وقت بھی نہیں دیتے وہ ملالہ سے ملنا اپنے لئیے باعث فخر سمجھتے ہیں۔ سوات کے چھوٹے سے گائوں شانگلہ کی ملالہ آج ایک قدر آور شخصیت ہے جو جو علم کے فروغ اور جہالت کے خلاف جہاد کی سرخیل ہے ۔۔
لیکن وہیں ہماری ” قوم” کے رویےاس مسئلہ پر بھی ہمیشہ کی طرع سب سے الگ اور سب سے جدا ہیں۔ بجائے اس کے کہ وہ اس اعزاز کو اپناتے اور قوم کی اس بیٹی کو سراہتے ہم نے اسے بھی متنازعہ بنادیا اور قوم مختلف بیانیوں میں الجھ کر رہ گئی ۔ پرنٹ و الیکٹرونک میڈیا کے علاوہ سوشل میڈیا سب کے سب مکمل کنفیوژن کا شکار نظر آتے ہیں۔ من گھڑت خبروں ، فوٹ شاپ اور سینہ گزٹ کا ایک بازار گرم ہے ہر شخص اپنی استطاعت کے مطابق ان بے بنیاد اور بلا تحقیق ” مستند خبروں ” کو آگے بڑھا دیتا ہے ۔

شاید ہم شدید ترین Insecurity کا شکار قوم ہیں جو ہر وقت اور ہر ایشو پر کسی نادیدہ ” سازش تھیوری” کی بو سونگھتی نظر آتی لہذا ایک بار پھر ایسی ہی افواہیں زبان زد عام ہیں اور ملالہ کے حالیہ دورے کو ایم نئی سازش کے تناظر میں دیکھا جارہا ہے۔ ایک بار پھر وہی یہود و نصارا کی ریشہ دوانیوں کی کہانیاں سنائی جارہی ہیں جن سے ملکی سالمیت اور انکے ایمان کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے ۔۔۔۔
ہم عجیب لوگ ہیں جن جنگجئوں اور سفاک قاتلوں نے ہمارے لاکھوں لوگ ماردئیے اور ملک کو جہنم بنادیا ان کو تو سہولتیں اور  آسانیاں دینے اور ان کے ملک میں دفتر کھولنے پر بخوشی تیار ہیں۔

کبھی ہم اچھے طالبان اور برے طالبان کا نظریہ پیش کرتے ہیں اور ان میں فرق بتاکر انہیں معصوم ثابت کرکے ان درندوں کو کسی طرع سہولت دینا چاہتے ہیں اور کبھی ہمارا ایک بااثر طبقہ طالبان کے ترجمان اور ہزاروں قتل اور دہشت گردی کی کاروائیوں میں ملوث احسان اللہ احسان کے لیے بھی ایک نرم گوشہ رکھتے ہیں جو ایک قابل نفرت کردار ہے جن کی وارداتوں کی وجہ سے ملک اور اس کے باسییوں کے سر شرم سے جھک جاتے ہیں ۔۔ لیکن بوجوہ ہم ان کو تو سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں اور انہیں کسی نہ کسی طرح ” معصوم اور بھٹکے ہوئے” قرار دے کر معاشرے کے لیے قابل قبول بنانے اور ان کے کریہہ جرائم تک کو معاف کردینے کے حق میں ہیں ۔ ان ہی ظالمان کو جماعت اسلامی کے سابقہ امیر جناب منور حسن خاں شہید کے اعلی درجات پر فائز کرتے ہیں جبکہ پاک فوج کے جوان کی ہلاکت کو شہادت کے رتبے کے قابل نہیں سمجھتے۔ اور بقول انہی کے وہ ” افغانستان میں طالبان کے بابرکت دور” کو بھی سراہتے ہیں ۔

مقام افسوس ہے کہ ایک معصوم بچی پر کیسے کیسے الزامات لگائے جارہے ہیں اس پر کیسی کیسی تہمتیں اور کس بری طرح اس کی شخصیت کو مسخ کیا جارہا ہے ۔۔ ملالہ کی علم کے لیے  کی گئی کوششوں کو دشمن کی” سازش” سے تعبیر کررہے ہیں ۔ اس معصوم کو جو آج بھی پاکستان کے لیے  رورہی ہے جس کے سر سے دوپٹہ کبھی نہیں ڈھلکا،اس کی باتوں میں معصومیت اور پاکستانیت ہے وہ پاکستان کے پسماندہ علاقوں میں علم کی شمع روشن کرنا چاہتی ہے لیکن ہم اسے دشمن ایجنٹ ثابت کرنے پر اپنی ساری توانائیاں صرف کرنے میں لگے ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میں پوچھتا ہوں جس قوم کی آدھی سے زیادہ اسمبلی ممبران اور بیوروکریٹس کی ایک بڑی تعداد دوہری شہریت رکھتی ہو اسے کسی ایجنٹ کی کیا ضرورت۔ اور وہ بھی  کم عمر کی کمزور بچی جس نے پاکستان کو ایک   روشن چہرہ دیا ۔۔جب دنیا ہمیں ایک ناکام ریاست  قرار دینے پر تلی بیٹھی تھی ۔

ہم ایک احسان فراموش اور متعصب گروہ سے زیادہ کچھ نہیں جو ایک بچی کی کاوشوں کو ہضم نہیں کرپارہے۔دوسری جنگ عظیم کے دوران ہولوکاسٹ اور نازی بربریت پر ایک تیرہ سالہ لڑکی اینا فرینک کی ڈائری Diary of Anna Frank منظر عام پر آئی جو اس نے ایک تہ خانے میں لکھی جہاں وہ اور اسکے اہل خانہ جرمن نازیوں کے خوف سے چھپے ہوئے تھے ۔ اس کتاب پر اسے نوبل پرائز سے نوازا گیا اور دنیا نے اسکی پذیرائی کی ۔ خود ملک عزیز میں ایک نو عمر بچی ارفع کریم نی مائکروسافٹ کا اعلی ترین ایوارڈ دیا گیا اور دنیا نے اسے سراہا۔
آج ہم دیکھتے ہیں نوعمر بچے اور بچیاں کمپیوٹر اور دوسری ٹکنالوجی میں کس طرع اعلی مقام حاصل کررہے ہیں ۔ کیا ہم محمد بن قاسم کو بھول گئے جنہوں نے صرف سترہ سال کی عمر میں سندھ فتح کیا ۔۔۔ لیکن ہمارے جغادری مان کر نہیں دیتے کہ ایک کم عمر کی بچی کیسے ایک کتاب لکھ سکتی ہے اور اس کتاب کو مصنف کرسٹینا لیمب کی تصنیف کہتے ہیں ۔
بات صرف ٹائمنگ کی ہوتی ہے۔ کرکٹ کے ہر میچ میں روزآنہ درجنوں چھکے لگتے ہیں لیکن جاوید میانداد کا شارجہ کا چھکا یادگار ہوگیا کیونکہ بات ٹائمنگ کی تھی ۔ اسی طرع ملالہ کی ڈائری اس بہیمانہ دور کی داستان ہے جب طالبان اور فضل الرحمان کے خوف سے سوات میں کوئی لب کشائی نہیں کرسکتا تھا ایسے میں ملالہ کی ڈائری ایک آواز بن گئی جہالت اور تاریکی کے خلاف اور دنیا نے پاکستان سے ایک زندہ پکار سنی اور اسے دنیا کے ہر فورم پر اجاگر کیا لیکن ہمارے اپنے لوگوں نے اسے سازش قرار دیا ۔۔آج اس ٹیکنالوجی کے دور میں کچھ چھپایا نہیں جاسکتا کیا دنیا پاگل ہوگئی ہے جو اسکی اتنی پذیرائی کی جارہی ہے ۔ کیوں نہیں یہ اعزاز عمران ، زرداری یا نواز شریف صاحب یا کسی اور کو نہیں دیا گیا ۔ شاید ہم ناشکرے اور ناقدرے لوگ ہیں جس کی سزا ہمیں مل رہی ہے ۔۔۔۔صاحبو!  ہم تقلید اور توصیف کرتے ہیں خادم رضوی کی اسامہ بن لادن اور ملا عمر کی یا عافیہ صدیقی کی ،ملا طارق جمیل ، حافظ سعید اور ممتاز قادری کی ۔۔۔ ہمارے ہیروز ہیں غزنوی ، ابدالی، غوری اور وہ تمام بیرونی حملہ آور جنگجو جن کے ہاتھ خون میں رنگے ہوئے تھے ۔۔۔ ہم کیوں ملالہ , ڈاکٹر عبدالسلام ، ایدھی ، فیض ،منٹو، جالب ،حسن ناصر، عاصمی جیلانی اور ایسے دوسرے روشن خیال افراد کی توصیف کریں جو علم و آگہی کی بات کرتے ہیں جو معاشرتی انصاف اور جبر کے خلاف آواز اٹھاتے ہوں بلکہ یہ لوگ تو ہمارے نزدیک دشمن کے ایجنٹ، مذہب بیزار اور قابل گردن زنی ٹھہرے ۔۔

جیسا کہ اکثر اہل وطن کا خیال ہے کہ ملالہ ملک کے خلاف ہونے والی کسی گہری سازش کا حصہ ہے اور وہ کسی خفیہ ایجنڈے پر کام کررہی ہے اور اسکا یہ دورہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
میرا سوال ان حضرات سے یہ ہے کہ اگر ایسا ہی ہے تو ہماری مایہ ناز خفیہ ایجنسیاں اور ادارے اس پر کیوں لب کشائی نہیں کرتیں اور قوم کو حقیقت حال سے آگاہ کیوں نہیں کیا جاتا۔ کیوں حکومت نے ملالہ کو اسٹیٹ گیسٹ کا درجہ دیا ہوا ہے اور کیوں اسے گرفتار کرکے کیفر کردار تک نہیں پہنچاتیں کیا وہ بھی اس ” سازش” کا حصہ تو نہیں ؟؟؟؟

کیا یہ بھی حقیقت نہیں کہ ملالہ کو ابتدائی طبی امداد اور سرجری فوج ہی کے ڈاکٹرز نے کی تھی اور اسکو فوجی ہیلی کاپٹر میں ہسپتال لایا گیا اور فوج کے ہی ڈاکٹرز کی سفارش پر ملالہ کو ملک سے باہر علاج کے لیے بھیجا گیا تھا ۔۔کیا ملالہ کی” سرگرمیاں اور ملاقاتیں” ان حساس اداروں کی نظروں میں نہیں ہوں گی؟

آج کے دور میں فوٹو شاب اور مختلف طریقوں سے کہانی کچھ کی کچھ بنائی جاسکتی ہے اور یہی  کچھ اس معصوم بچی کے ساتھ ہورہا ہے ۔ہر شخص اپنی اپنی منطق بگھاررہا ہے اور Speculations کو بغیر کسی ثبوت اور تحقیق کے آگے بڑھا دیتا ہے ۔ کوئی “محب وطن” کیوں نہیں ملالہ کے خلاف عدالت میں جاتا کیوں چیف صاحب سو موٹو ایکشن نہیں لیتے ۔ کیوں آرمی چیف حقیقت حال سے قوم کو آگاہ نہیں کرتے تاکہ یہ کنفیوژن ختم ہو ۔۔

اب تو سعودیوں کا کردار اور نام نہاد اسلامی تشخص بھی کھل کر سامنے آگیا کہ انہوں نے کس کے کہنے پر مسجدیں اور مدرسے قائم کیے ۔ ہم کو تاریکی اور انتہا پسندی کی راہ پر ڈال کر اب وہ روشن خیالی اور جدیدیت کی طرف تیزی سے گامزن ہیں ۔
اب ہمارے دائیں بازو کے رجعت پسند بھائی کون سا چورن بیچیں  گے ۔۔۔ خادمین حرمین شریفین تو آج کل امریکہ میں یہودیوں کے اعلی وفد سے مل کر مذہبی آہنگی اور یگانگت کی باتیں کررہے ہیں ۔ شاید جلد ہی سفارتی تعلقات بھی بحال ہوجائیں ویسے بیک ڈور ڈپلومیسی تو ایک عرصہ سے جاری ہے ۔۔۔ لیکن ہم نے کوئی سبق نہیں سیکھا اور نام نہاد ” مسلم امہ” کے سراب سے باہر آنے کو تیار نہیں ۔

جیو ملالہ سر اٹھا کے ۔۔ زمانے نے تو نبیوں کو نہیں بخشا اور ہر اس شخص کی مخالفت کی جس نے حق کے لیے آواز اٹھائی چاہے وہ یسوح مسیح ہوں ، سرمد ہو یا پھر منصور حلاج سب ہی بے توقیر ہوئے ۔

دلیل ہے نہ کوئی جواز ان کے پاس ۔۔
عجیب لوگ ہیں بس اعتراض رکھتے ہیں !

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”ملالہ ! روشن چہرہ یا ایک قابل مذمت کردار۔۔۔انوار احمد

Leave a Reply