سیاسی بیماریاں ۔۔مزاح مت/کے ایم خالد

شوگر!
یہ بیماری تقریباً سارے سیاست دانوں میں پائی جاتی ہے۔حتی کہ کرخت قسم کے سیاستدان بھی اس بیماری میں مبتلا ہیں۔اس بیماری کے جراثیم عام حالات میں سوئے رہتے ہیں۔اور الیکشن سے چند ماہ قبل اس کا حملہ شدت اختیار کر جاتا ہے۔سیاست دانوں کے منہ سے مٹھاس بھری باتوں  کی بوچھاڑسے عوام شکر وشکر ہو جاتے ہیں۔ان کے جانے کے بعد ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے انگلیاں مٹھاس کے شیرے سے جڑ گئی ہوں۔وہی جانو مصلی جس کے پسینے کی بدبو سیاست دان صاحب کو میلوں دور سے ناک پر رومال رکھنے پر مجبور کردیتی تھی اور وہ بے چارہ ہمیشہ کتا اور کھوتے دا پتر جیسے القاب سے نوازا جاتا تھا۔الیکشن کی گہما گہمی میں اسی جانو مصلی کو مسند خاص پر بٹھایا جاتا ہے۔اور سیاست دان صاحب اس کی خوشامد کرتے اگلی پچھلی باتیں بھول جاتے ہیں۔’’اوئے تو ،تو میرا بھائی ہے۔میرا پتر ہے۔اوئے تائے سے ناراضگی کیسی۔اوئے ککڑ لا جانو چوہدری کے لئے‘‘۔،عوام کے ان دنوں گھل مل جانے کے باوجود سیاست دانوں سے یہ بیماری عوام میں منتقل نہیں ہوتی۔ ہائی اور لوشوگر کا حملہ عموماً دو صورتوں میں ہوتا ہے۔گر پتہ چلے کہ مخالف آپ کے دھڑا دھڑ ووٹ خرید رہا ہے۔یا پہلے پولنگ بوتھ پر اپنی جیت ڈھول کی تھاپ کے ساتھ ہائی شوگر کا حملہ شدت اختیار کر جاتا ہے۔جبکہ ہارنے والے سیاست دان کی شوگر لو ہو جاتی ہے۔دونوں سیاست دانوں کی تکلیف ایک ہے۔ایک کی شوگر ہائی اور دوسرے کی شوگر لو ۔ان دونوں صورتوں میں وہ چت لیٹے منہ میں زبان گھماتے ،خالی آنکھوں سے تیمار داروں اور آسمان کی جانب ٹکٹکی لگائے ہوتے ہیں۔ایک منہ میں ٹافی گھما رہا ہے اور دوسرا انسولین لے رہا ہے۔

دل کی بیماریاں!
سیاست چونکہ ایک پر خطر شاہراہ کا سفر ہے۔اس شاہراہ پر قدم قدم پر دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہوتی ہیں۔اس لئے سیاست دانوں میں دل کی بیماریا ں ایک عام مسئلہ ہیں۔چونکہ الیکشن سے لے کر حکومت کی جبری برخاستگی تک وہ مسلسل ذہنی دباؤ کا شکار رہتے ہیں۔ایک آمر کا خوف انہیں کسی پل پھولوں  کی سیج پر سونے نہیں دیتا۔حیرت کی بات ہے اس ذہنی تناؤ میں اعلی پائے کے سیاست دانوں سے لے کونسلر لیول کے سیاست دان بھی شامل ہیں۔اس دباؤ میں حکومتی سیاست دانوں کا پریشان ہونا تو سمجھ میں آتا ہے۔اس تناؤ کا شکار اپوزیشن کے سیاست دان بھی ہو جاتے ہیں۔اربوں روپوں سے الیکشن کھیل سے ان کی ’’لاگت ‘‘بھی پوری ہونے سے قبل ہی اگر ان کی بساط لپیٹ دی جائے تو اس خوف سے ہائی بلڈ پریشر ،لو بلڈ پریشر ،سانس کا پھولنا، دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہو کر بڑبڑاتی ہیں۔پھر نہ جانے دل کی کون کونسی بیماریاں اپنا گھر کر لیتی ہیں۔اس صورت میں مولانا فضل الرحمن کی طرح یا تو ’’سٹنٹ‘‘سے کام چل جاتا ہے۔اگر آمر کی وجہ سے طبیعت بگڑ جائے تو پھر لمبے چیر پھاڑ کی ضرورت پیش آ سکتی ہے۔

اسہال،دست ،پیچش،ہیضہ!
گھٹیا قسم کی یہ بیماریاں عوامی ہیں۔ان بیماریوں کا براہ راست تعلق عوام سے ہے۔واسا کی ایک ہی لائن سے  دونوں کام فراہمی آب،نکاسی آب بیک وقت لئے جاتے ہیں۔نکاسی آب کی سہولت سے تو سیاست دان مستفید ہو سکتے ہیں۔ان کا بس چلے تو اس کام کے لئے بھی کوئی سپیشل طیارہ ہوتا جو آواز کی رفتار سے سفر کرتا اور وہ چند ہی منٹوں کسی یورپین ملک میں ’’فارغ‘‘ ہو کر واپس آ جاتے۔۔چولستان کے جوہڑ ہوں یا گاؤں کے گندے تالاب جن میں عوامی انسان نما جانور اور جانورایک ہی گھاٹ اور گھونٹ، گھونٹ پانی پیتے ہیں۔اس لئے انسان نما عوامی جانوروں میں ان بیماریوں کی بہتات ہے۔جبکہ سیاست دانوں کا تعلق خواص سے ہوتا ہے ۔وہ فرانس کا پانی یا منرل واٹر پیتے ہیں۔اس لئے   گھٹیا قسم کی یہ بیماریاں ان کو گود نہیں لے سکتیں۔

ہیپا ٹائیٹس۔اے،بی،سی تا زیڈ!
عوام کا تعلق چونکہ براہ راست غلاظت سے ہوتا ہے۔اسی وجہ سے یہ بیماریاں بھی عوامی ہیں۔ان بیماریوں کے وقوع پذیر ہونے کی  زیادہ تر وجوہات میں ناقص غذا،عوام کھاتے ہیں۔ناقص ماحول،عوام کا ہے۔ناقص پانی ،عوام کے لئے ہے۔فٹ پاتھی نائیوں سے شیو،عوام بنواتے ہیں۔فٹ پاتھی دندان سازوں سے دانت ،عوام نکلواتے ہیں۔زیادہ تر سیاستدان چونکہ   باہر کے ممالک میں پاکستان کے لئے زرمبادلہ کے حصول کے لئے دن رات انتھک محنت کرتے ہیں۔یہ عوام جن کا کام صرف اور صرف شک ہے۔ان دوروں کو نہ جانے کیوں شک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔چونکہ قوم کا درد سیاستدانوں کی گھٹی میں پڑا ہے۔اس لئے ان کا زیادہ تر وقت باہر ہی گزرتا ہے۔اس لئے یہ فٹ پاتھی بیماریاں ان سے اتنی ہی دور ہیں جتنی دور الیکشن کے بعد ان سے موجو مصلی ہو جاتا ہے۔

دماغی امراض!
دماغی امراض تقریباً سارے سیاست دانوں میں پائے جاتے ہیں۔حتی کہ کونسلر کا الیکشن لڑنے والا بھی مستقبل میں وزیر اعظم کے خواب دیکھتا ہے۔دماغی امراض کی بہت سی شاخیں ہیں جن میں سب سے گھٹیا شاخ یہ ہے کہ تقریباً ہر سیاست دان کی خواہش ہوتی ہے کہ موت آنے سے قبل اس سے کوئی کام لے لیا جائے تا کہ جنازہ تو ذرا دھوم دھام سے نکلے۔اس سلسلے میں بہت سے سیاست دان درپردہ نہ جانے کن کن سے سے رابطے میں رہتے ہیں۔ان کی خواہش ہوتی ہے کہ کوئی ان سے چاہے خالی اشٹام پر انگوٹھا لگوا لے قبل اس کے کوئی اور انگوٹھا لگاّ جائے۔

آنکھوں کی بیماریاں!
دور وزارت میں موجو مصلی کی شکل دھندلا جاتی ہے اور اگر صاحب کبھی رستے میں مل جائے تو موجو مصلی کو گاڑی کے ٹائروں سے اٹھنے والی مٹی کی دھول ہی ملتی ہے۔صاحب تو زن سے گزر جاتے ہیں۔ جیتنے والے سیاستدان کو ووٹروں کی شکلیں بھولنے اور ہارنے والے سیاستدان کو آہستہ آہستہ سبھی دھندلائی ہوئی ووٹروں کی شکلیں یاد آنے لگتی ہیں۔ دوبارہ الیکشن کے دوران اپنے حلقہ میں آمد پر حلقے کے لوگ ایک دوسرے سے حیران ہو کر بے ساختہ پوچھتے ہیں۔’’صاحب !’’شعاعیں ‘‘لگوا آئے‘‘۔ان بیماریوں میں زیادہ تر ہارنے والے سیاست دان مبتلا ہوتے ہیں۔ ہارنے والا سیاست دان دوبارہ عوام کے بہت زیادہ قریب ہو جاتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

نفسیاتی بیماریاں!
تقریباً سو فی صد سیاستدان نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں ان میں سب سے چھوٹی بیماری عوام میں گھل مل جانے کے بعد گھر جا کر  جراثیم کش صابن کے ساتھ غسل کے علاوہ انواع وا قسام کے سپرے کا چھڑکاؤ کیا جاتا ہے حالانکہ یہ حفاظتی انتطامات گھر سے نکلتے ہوئے بھی دہرائے جاتے ہیں لیکن اس کے باوجود خدشہ یہی ہوتا ہے کہ کوئی عوامی بیماری نہ گھر کر جائے ۔نفسیاتی بیماریوں میں ایک بیماری سیاستدان کا یہ وہم بھی ہوتا ہے کہ ووٹر کہیں بدل نہ جائے کہیں اس کے ووٹ کا رخ تبدیل نہ ہوجائے جبکہ سیاستدان چاہے خود کتنی مرتبہ لوٹا بن جائے مگر اس کی شدید خواہش ہوتی ہے کہ ووٹر کہیں لوٹا نہ ہو جائے اس مقصد کے لئے سیاسی لوگ  خود اپنے حلقہ میں جائیں نہ جائیں لیکن انہوں نے  اپنے ووٹروں پر نظر رکھنے کے لئے بہت سے اپنے بندے رکھے ہوئے ہیں جو ووٹروں کی ہر نقل و حرکت کی خبر ان تک پہنچاتے رہتے ہیں ۔سیاستدان کے گھر عموماً ننانوے فی صد سیاستدان ہی پیدا ہوتے ہیں اور سیاستدان ان کی تربیت مستقبل کو مدنظر رکھ کر کرتے ہیں سیاستدان کی عوام کی نفسیات پر گہری نظر ہوتی ہے کہ وہ کون سا نعرہ پسند کرتے ہیں اسی نعرے کو مدنظر رکھتے ہوئے سیاستدان اپنے بچوں کے ناموں میں تبدیلی کرتے رہتے ہیں جیسے بلاول زرداری سے بلاول بھٹو زرداری اور مریم صفدر سے مریم نواز۔جن سیاسی گھرانوں میں بچوں کی سیاسی تربیت نہ کی جائے تو پھر ان ایک فی صد گھرانوں میں’’ بھٹو جونیئر‘‘ جیسا نفسیاتی سیاستدان بھی جنم لے سکتا ہے ۔جو اپنا سیاسی مستقبل تیاگ کر اپنی ’’جوگ ‘‘ پانے کی جستجو میں نکل سکتا ہے ۔

Facebook Comments

کے ایم خالد
کے ایم خالد کا شمار ملک کے معروف مزاح نگاروں اور فکاہیہ کالم نویسوں میں ہوتا ہے ،قومی اخبارارات ’’امن‘‘ ،’’جناح‘‘ ’’پاکستان ‘‘،خبریں،الشرق انٹرنیشنل ، ’’نئی بات ‘‘،’’’’ سرکار ‘‘ ’’ اوصاف ‘‘، ’’اساس ‘‘ سمیت روزنامہ ’’جنگ ‘‘ میں بھی ان کے کالم شائع ہو چکے ہیں روزنامہ ’’طاقت ‘‘ میں ہفتہ وار فکاہیہ کالم ’’مزاح مت ‘‘ شائع ہوتا ہے۔ایکسپریس نیوز ،اردو پوائنٹ کی ویب سائٹس سمیت بہت سی دیگر ویب سائٹ پران کے کالم باقاعدگی سے شائع ہوتے ہیں۔پی ٹی وی سمیت نجی چینلز پر ان کے کامیڈی ڈارمے آن ائیر ہو چکے ہیں ۔روزنامہ ’’جہان پاکستان ‘‘ میں ان کی سو لفظی کہانی روزانہ شائع ہو رہی ہے ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply