ارتقا کا اگلا قدم۔۔۔ ادریس آزاد

میرے پچھلے مضمون عید کا عنوان تھا، ’’نظریۂ ارتقأ، نیچرل سیلکشن اور انسانیت کا مستقبل‘‘۔ اس مضمون کا مرکزی مقدمہ یہی تھا یعنی ’’ارتقأ کا اگلا قدم انسان کا اخلاقی طور پر بہترہوجانا ہوگا‘‘ ۔ میرے مقدمہ پر بہت سے دوستوں نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور بعض نکتہ ہائے اعتراض اُٹھائے۔ ان نکات میں چند ایک قابلِ ذکر اور اہم بھی تھے۔ چنانچہ میں نے دوستوں کو کمنٹس میں اپنے مؤقف کی مزید وضاحتیں پیش کیں لیکن بات طے ہونے میں مسائل پیدا ہورہے تھے۔مجھے لگا کہ جب تک میں اس مقدمہ کو قضیہ در قضیہ پیش نہ کرونگا یہ تحفظات اور یہ اعتراضات جاری رہیں گے۔ اس سے پہلے کہ میں اپنے قضیات پیش کرنا شروع کروں، اتنی وضاحت کرناچاہونگا کہ دنیا بھر میں منطق کے ماہرین، استخراج (Deduction) کو اس وقت تک تسلیم نہیں کرتے جب تک وہ سو فیصد درست نہ ہو۔جبکہ استقرأ(Induction) کو پچاس فیصد سے زیادہ درست ہونے پر تسلیم کرلیتے ہیں۔ درست استقرائی نتیجہ پچاس فیصد سے جتنا زیادہ درست ہوگا، اتنا ہی مضبوط نتیجہ کہلائےگا۔ یہاں تک کہ ایک وقت آئے گا جب ’’موردین پرابیبل‘‘ مقدار میں اتنا زیادہ ہوجائے گا کہ سینٹر لمٹ تھیوری کے اُصول پر ہم اُسے ’’تقریباً مطلق‘‘ (Approximately Absolute) سچائی کہیں گے۔اتنی زیادہ مقدار یقیناً نوّے فیصد سے زیادہ مقدار ہی ہوسکتی ہے۔اس کی ایک مثال بھی دیکھ لیتے ہیں، مثلاً چونکہ ہم جانتے ہیں کہ دنیا بھر میں کوّے کالے ہوتے ہیں اور یہ اتنی زیادہ مقدار ہے کہ یقیناً نوّے فیصد سے زیادہ ہے چنانچہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ’’کوّے کالے ہوتے ہیں‘‘ ایک ’’تقریباً مطلق‘‘ یعنی ایپراکسی میٹلی ایبسولیوٹ سچائی ہے۔

 استخراج اور استقرأ میں یہی فرق ہے۔ منطق میں استقرأپچاس فیصد سے زیادہ درست ہو تو اُسے درست تسلیم کیا جاتاہے لیکن استخراج (ڈی ڈَکشن) کے لیے ضروری ہے کہ وہ سوکا سو فیصد درست ہو۔مثال کے طور پر ’’دوجمع دوچار ہوتے ہیں‘‘ یہ استخراج ہے اور ہم سب جانتے ہیں کہ یہ بات سوفیصد درست ہے۔استخراج کی کئی قسمیں ہیں اور تمام کی تمام ہی سوفیصد درست ہونا ضروری ہوتی ہیں۔مثال کے طور پر استخراجی مقدمہ کی ایک قسم ہائپوتھیٹکل سلّوجزم (Hypothetical syllogism) ہے۔ اس میں ’’اگر اور تو‘‘ یعنی ’’اِف دَین‘‘(If-Then) سٹیٹمنٹ استعمال کی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر، اگر کراچی سندھ میں واقع ہے تو پھر کراچی پنجاب میں واقع نہیں ہے، کراچی سندھ میں واقع ہے،چنانچہ ثابت ہوا کہ کراچی پنجاب میں واقعی نہیں ہے۔ یہ سوفیصد درست نتیجہ ہے۔ہائپوتھیٹکل سلوجزم میں ایک شدید قسم کا فارمل مغالطہ بھی ہوتاہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی کہےکہ، اگر بارش آئے گی تو میدان گیلاہوگا۔ بارش آئی اس لیے میدان گیلا ہوا۔ یہ درست نتیجہ ہے۔ بارش نہیں آئی اس لیے میدان گیلا نہیں ہوا، یہ فارمل مغالطہ ہے، کیونکہ میدان کو دانستہ بھی گیلا کیا جاسکتاہے۔یہاں میں فارمل مغالطہ کی تفصیل میں نہیں جاناچاہتا۔ یہی مقدمہ ہم یوں بھی قائم کرسکتے ہیں کہ انسان آپس میں ایک دوسرے کو قتل کرتے ہیں۔ اگر انسانوں نے آپس میں ایک دوسرے کا قتل بند نہ کیا تو انسان ایک دوسرے کو ختم کرلیں گے۔ انسانوں نے ایک دوسرے کو قتل کرنا بتدریج کم کیا ہے لہذا انسانوں کے ختم ہوجانے کے امکانات بھی کم ہوگئے ہیں۔یہ درست نتیجہ ہے۔انسانوں نے آپس میں ایک دوسرے کو قتل کرنا بند نہیں کیا اس لیے انسان لازمی طور پر ختم ہوجائیں گے۔یہ مغالطہ آمیز نتیجہ ہے۔

 کالے کوّوں والا نتیجہ استقرائی عمل تھا جبکہ کراچی کا سندھ میں ہونے والا نتیجہ، بارش سے میدان کے گیلا ہونے والا نتیجہ اور انسانوں کے قتل کم کرنے سے فنا ہوجانے کے امکانات کم ہوجانے والا نتیجہ استخراجی عمل ہے۔ میں اپنے قضیات میں استخراج اور استقرأ دونوں طریقے استعمال کرتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کرتاہوں کہ بالآخر ’’ارتقأ کا اگلا قدم انسان کا اخلاقی طور پر بہترہوجاناہوگا‘‘ ۔ میں اپنے قضیات سے یہ سمجھ پاتاہوں کہ یہی ’’تقریباً مطلق‘‘ یعنی ایپراکسی میٹلی ایبسولیوٹ سچائی ہے۔

لیکن پہلے ہم مِل کر ایک تھاٹ ایکسپری منٹ کرتے ہیں۔ فرض کریں ہم ایک مثالی گاؤں بنانا چاہتے ہیں جہاں سب انسان امن و سلامتی سے رہتے ہوں اور ایک دوسرے کی عزت کرتے ہوں۔ فرض کریں کہ ہم نے اس گاؤں کو بنانے کےلیے بہت اعلیٰ انتظامات کیے ہیں اور جن لوگوں کووہاں رکھاجاناہے انہیں باقاعدہ منتخب کرناہے۔ فرض کریں ہم نے چارسو لوگوں کو سیٹل کرنا ہے لیکن دس ہزار درخواستیں آگئی ہیں۔اب ہم ماڈل وِلیج کے رہائشیوں کا چناؤ کیسے کریں گے؟ پرانہ طریقہ یہ ہے کہ ہم ان کا امتحان لیں گے۔ ان کی عادات کا مشاہدہ کریں گے۔ ان کے مزاج کی گرمی سردی کا اندازہ لگائیں گے اور وہ لوگ جن میں صبروتحمل اور رواداری کا عنصر زیادہ ہوگا ہم انہیں منتخب کرلیں گے۔ جدید طریقہ یہ ہے کہ ہم ان دس ہزار اُمید واروں کا ڈی این اے ٹیسٹ کروائیں گے۔ اور جن لوگوں کے جِین’’ ڈارپ بتیس‘‘ (DARPP-32) کی وجہ سے اُن میں ٹیمپرامنٹ لیول مضبوط ہوگا یعنی غصہ اور شدت پسندی کا عنصر کم ہوگا، ہم انہیں منتخب کرلیں گے۔ ڈارپ بتیس ڈوپا مِین کی سطح کو متاثر کرنے والا جِین ہے۔جبکہ ڈوپامِین ایک کیمیائی مادہ ہے جو دماغ کے ساتھ منسلک ہے۔یہ کیمیائی مادہ دماغ میں انسانی ٹیمپرامنٹ لیول کو کنٹرول کرتاہے۔یہی جِین غصہ اور شدت پسندی کا باعث بنتاہے۔ڈارپ بتیس (DARPP-32) کی تین قسمیں ہیں۔

ٹی ٹی(TT)  

ٹی سی(TC) 

سی سی (CC)

سائنسدانوں نے لیبارٹری میں آٹھ سو انسانوں پر تجربات کیے۔جن لوگوں میں ٹی ٹی(TT) اور ٹی سی(TC) قسم کے جینز تھے وہ لوگ بہت جلد ٹیمپرامنٹ لُوز کربیٹھتے تھے یعنی زیادہ غصہ ور اور شدت پسند تھے۔ جبکہ جن لوگوں میں سی سی(CC) قسم کے جینز تھے وہ کم غصہ ور تھے۔یونیورسٹی آف بون (BONN) کے ریسرچرز نے مزید یہ بتایا کہ ٹیمپرامنٹ لُوز کرنے والے لوگوں کے امگڈالا (Amygdala)کا گرے میٹر (Gray Matter)بھی کم تھا۔ یاد رہے کہ اَمگڈالا ہمارے دماغ کا وہ حصہ ہے جو ہمارے جذبات کو کنٹرول کرتاہے۔تب یہ اندازہ لگایا گیا کہ کم سے کم ایک ٹی (T) جِین ہوگا تو ڈوپا مِین کی سطح بوقتِ ضرورت بڑھتی رہیگی اور انسان ٹیمپرامنٹ لُوز کرے گا۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ ڈارپ بتیس فقط ایک جین نہیں جو ٹیمپرامنٹ لُوز کرنے کا باعث بنتاہے۔ انسانی جذبات کا تعلق کیمیلز کے ساتھ ہے اور تمام جذبات کے لیے انسانی ڈی این اے میں جینز پائے جاتے ہیں۔

خیر ! ہم اپنی کہانی کی طرف واپس پلٹتے ہیں۔جب ہم کیمیائی طور پر ٹیسٹ کرکے ماڈل وِلج کے باشندوں کو منتخب کریں گے تو کیا ہوگا کہ کچھ سالوں کے بعد جب وہ لوگ آپس میں شادیاں کریں گے تو اُن کے بچوں میں غالب جِینز وہی ہونگے جن میں ڈوپا مِین کی سطح معتدل ہوگی اور اسی طرح دیگر جذبات کی سطح بھی معتدل ہوگی۔ تب ہم سیلیکٹو برِیڈ (Selective Breed)کے طریقہ پر اگر آئندہ نسلوں میں سےوہ بچے نکال کر الگ کردیں گے جن میں ٹی ٹی(TT) اور ٹی سی(TC) قسم کے ڈارپ بتیس جینز ہیں یا اسی طرح کے کئی دیگر جینز ہیں جو منفی جذبات اُبھارنے کا باعث بنتے ہیں تو آخر ایک دن آئے گا جب ہم اُس گاؤں میں فقط ان لوگوں کو دیکھیں گے جو جینیاتی طور پر متعدل طبیعت کے لوگ ہونگے۔ یہ عمل اگر ہم کئی عشروں تک جاری رکھیں تو ایک وقت وہ بھی آئے گا جب اس گاؤں کا کوئی شہری کبھی بھی ٹیمپرامنٹ لوز نہیں کرے گا۔

یہ تو تھا تھاٹ ایکسپری منٹ ۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ سب سچ اور ممکن ہونے کے باوجود ایسا عملی طور پر ہونے میں دیگر کئی مسائل حائل ہیں۔ جن میں سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ انسان اپنا ٹیمپرامنٹ فقط اِن جینز کی وجہ سے ہی لُوز نہیں کرتا۔وہ معروضی حالات کی وجہ سے بھی غصہ میں آسکتاہے۔بچپن کی محرومیاں اور دیگر نفسیاتی مسائل بھی اُسے ایک ناراض کردار بناسکتے ہیں۔ اس مسئلہ کے علاوہ ایک اور اہم سوال بھی پیدا ہوتاہے۔ وہ یہ کہ جب انسانوں میں سے غصہ ختم ہوگیا تو ان میں مسابقت کا جذبہ بھی ختم ہوجائے گا۔ یعنی وہ کھیل کے میدان میں بھی جذبے اور مخالف ٹیم کے ساتھ عناد کی کیفیت میں نہ کھیل پائیں گے۔

لیکن اِن اعتراضات کے باوجود میرا مدعا صرف ایک نُکاتی ہے اور وہ یہ کہ، 

’’فی الواقعہ انسانی ڈی این اے میں ایسے جینز موجود ہیں جو بقول ریسرچرز، Anger اور Aggression کا باعث ہوتے ہیں‘‘

صرف یہی نہیں ہزاروں اور طرح کے جینز بھی ایسے ہیں جن میں سیلیکٹو بریڈ(Selective Breed) کے ماڈل وِلج والے طریقہ پر کئی طرح کے انسانی قبائل پیدا کیے جاسکتے ہیں۔ زیادہ غصے والے، کم غصے والے، شدت پسند، امن پسند، محبت کرنے والے، نفرت کرنے والے وغیرہ وغیرہ۔ یعنی ہم اگر مصنوعی طور پر انسانوں میں ارتقأ کا مظاہرہ دیکھنا چاہیں تو ہم ایسا کرسکتے ہیں۔ یہ نظری طور پر ممکن ہے۔

ہمارا مجموعی مدعا نہ تو نظری طور پر ایسا ثابت کرناہے کہ انسان ایک امن پسند گاؤں تخلیق کرسکتے ہیں اور نہ ہی جینز کا گہرا مطالعہ ہے۔ ہمارا مجموعی مدعا یہ ہے کہ موجودہ انسانی حالات کو دیکھتے ہوئے کیا ہم کوئی پیش گوئی کرنے کے اہل ہیں کہ انسان مستقبل میں کیسا ہوگا؟ ہم زمین کے ماحول، انسانی آبادیوں اور دیگر حقائق کو پیش ِ نظر رکھتے ہوئے کئی قسم کی پیش گوئیاں کرسکتے ہیں۔ مثلاً اگر ہم ماحولیات کو دیکھیں تو دریا، سمندر، جنگلات، برفیں، زمین کے نیچے موجود پانی اور ہماری سانس لینے والی فضا تک ، سب بُری طرح خراب ہوچکے ہیں اوران تبدیلیوں کی وجہ سے زمین کے اندر عرصہ سے خلفشار کی حد تک تبدیلیاں پیدا ہوچکی ہیں جو زمین کے مقناطیسی فیلڈ سمیت ، زمین کی گردش اور جغرافیائی ساخت تک کو کسی بھی وقت تہ و بالا کرسکتے ہیں۔ چنانچہ ایک پیش گوئی تو یہ کی جاسکتی ہے کہ انسان ایک دو صدیوں میں ہی زمین کو تباہ کرلے گا اور اس لیے انسانوں سے کوئی لمبی چوڑی اُمیدیں باندھنا فضول ہے۔ اسی طرح ایک پیش گوئی یہ بھی کی جاسکتی ہے کہ انسان زمین کو تباہ تو کرلے گا لیکن اس سے پہلے وہ سیّارہ زمین کو چھوڑ کر کسی اور سیّارے پر منتقل ہوجائے گا۔

آپ سوچتے چلے جائیں، ہم ایک سے ایک پیش گوئی کرسکتے ہیں۔پیش گوئی کا تعلق ہماری قیافہ آرائی کی قابلیت سے ہے۔لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اِن میں کون سی پیش گوئی زیادہ سے زیادہ قرینِ قیاس ہے۔میں اپنی تحریرات میں یہ پیش گوئی کیا کرتاہوں کہ ’’انسان لازمی طور پر اخلاقی لحاظ سے بہتر ہوجائےگا‘‘ ۔ جس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ تمام انسان مل کر سیّارۂ زمین کو درپیش مسائل سے نمٹ لیں گے اور سیّارۂ زمین تباہ نہیں ہوگا۔میں سمجھتاہوں یہ پیش گوئی سب سے زیادہ قرین ِ قیاس ہے۔ میرے دلائل مندرجہ ذیل ہیں؛

فطرت میں ہم دیکھتے ہیں کہ تمام انواع کو اپنی بقا کے لیے مختلف ہتھیار دیے گئے ہیں۔اگرچہ یہ اینالوجی پودوں سے شروع ہوتی ہے لیکن میں قصہ مختصر رکھنے کے لیے صرف جانوروں کی بات کرتاہوں۔ فطرت میں دوسرے جانوروں کو سینگ، دانت، پنجے، موٹی کھال، خود کو چھپا لینے کی صلاحیت، گھات لگانے کی صلاحیت، وغیرہ وغیرہ جیسی لاکھوں جبلتیں عطا کی گئی ہیں جن کی مدد سے وہ اپنی نوع کو باقی رکھنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ جانوروں کے مقابلے میں انسان کو ’’اخلاقیات‘‘ کا ہتھیارملا ہے۔

’’اخلاقیات ایک ہتھیار ہے جس کا استعمال ہم فقط اپنے آپ کو دشمن کے حملے سے محفوظ رکھنے کے لیے کرتے ہیں‘‘۔ جب ہمارے ہاتھ اور ہماری زبان سے کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا تو اُن کے ہاتھ او رزبان سے بھی ہم محفوظ رہ پاتے ہیں۔’’اخلاقیات کا ہتھیار فطرت کی عطا ہے‘‘ اس بات کے ثبوت آرکیالوجی اور اینتھروپولوجی کے پاس اَن گِنت ہیں۔غاروں میں رہنے والا انسان جو بول بھی نہیں سکتا تھا، وقت کے ساتھ ساتھ یہ سیکھ گیا کہ دوسرے قبیلے کی عورت پر ہاتھ ڈالنے سے بہت نقصان ہوتاہے۔صرف وہ انسان زندہ رہے جو دوسرے قبیلے کی عورتوں کو چھیڑنے سے ڈرنا سیکھ گئے اور باقی فنا ہوگئے۔یہ تھی غاروں میں رہنے والے انسانوں کی اخلاقیات۔ یہ اخلاقیات کی ابتدائی شکل تھی۔ اس قدر اخلاقیات ، ہمیں جانوروں کی کمیونٹیز میں بھی نظر آتی ہے۔ایسی اخلاقیات فطرت کی طرف سے نازل ہونے والی ’’وحی‘‘ جیسی شئے ہے۔ یعنی بیگانگیِ ذات کا شکار افرادِ نوع بھی جس اخلاقیات کا پاس رکھتے ہیں، یہ وہ اخلاقیات ہے۔بہرحال آرکیالوجی اور اینتھروپولوجی کے اکیڈمکس کافی ہیں اس بحث کا فیصلہ کرنے کے لیے کہ آیا اخلاقیات نیچرل سیلکشن کے ذریعے ملی ہے یا نہیں؟

یہاں ’’مذہب کی طرف سے ملنے والے اخلاقیات کے نظام‘‘ کی وجہ سے بعض اذہان میں طرح طرح کے سوالات جنم لے سکتے ہیں، جن میں ایک اہم اور بڑا سوال یہ ہوگا۔اگر اخلاقیات فطرت کی وحی ہے تو پھر مذہبی اخلاقیات کی کیا حیثیت ہوگی؟ آپ غور سے دیکھیں تو مذہبی اخلاقیات بھی فطرت کی طرف سے نازل ہونے والی ’’وحی‘‘ ہی ہے۔ جہاں، جس جگہ، جس زمانے میں جیسی مذہبی اخلاقیات نازل ہوتی رہی ارتقائی نظر سے دیکھنے والوں کے بقول بھی بالکل ویسی ہی اخلاقیات وہاں وارد ہونا چاہیے تھیں۔اقبال کے بقول، ’’عالم فطرت کی آنکھ اپنی ضروریات کا مشاہدہ کرلیتی ہے‘‘ یہ اقبال نے اس وقت کہا جب انہوں نے رسولِ اطہر صلی اللہ علیہ وسلم کی حجاز میں آمد پر ایک مغربی فلسفی کی حیرت کا جواب لکھا۔ 

اخلاقیات ِ مذہبی کا نہایت گہرا تعلق عقائد ِ مذہبی کے نظام کے ساتھ ہے۔فطرت کے طالب علم کو صاف دکھائی دیتا ہے کہ عقائد ضرورت کی ایجاد ہوتے ہیں۔سائبیریا کے مذاہب میں جنت کا منظر ایسا ہے جس میں ہرطرف آگ ہی آگ ہوگی۔ فقط اس لیے کہ سائبیریا میں برف ہی برف ہے۔ ’’عقائدفقط ضرورت کی ایجاد ہوتے ہیں‘‘۔ جس جنت سے انسان کو نکالا گیا اس جنت سے لے کر ’’ممتاز قادری کے مزار تک‘‘ ہمیشہ عقائد وقت اور ضرورت کے ہی بطن سے نمودار ہوتے ہیں اور نئی نئی تشریحات کے ساتھ نئی نئی شکلیں اختیار کرتے رہتے ہیں۔ چنانچہ عقائد کے نظام کا تعلق مذہب کے ساتھ کم جبکہ کلچر کے ساتھ زیادہ ہے۔وقت کے ساتھ جن عقائد کی ضرورت نہیں رہتی، وہ کسی بھی کلچر سے خود بخود مفقود ہوتے چلےجاتے ہیں۔عقائد کی آمدورفت کا تعلق بھی نئے نئے علوم کی دریافت اور ایجادات کے ساتھ بہت گہرا ہے۔ وقت کے ساتھ انسان اپنے پرانے عقائد کو نئے عقائد کے ساتھ بدل لیتے ہیں یا کسی عقیدہ کو بالکل ہی ترک کردیتے ہیں ۔مثلا پچھلی صدی تک سامی مذاہب کے پیروکاروں کا عقیدہ تھا کہ ماں کے پیٹ میں بچے کی جنس کا پتہ خدا کے سوا کسی کو نہیں ۔ لیکن وقت کے ساتھ یہ عقیدہ تو مفقود ہوگیا البتہ اس عقیدے کے حامل مذاہب بدستورموجود رہے جنہوں نے طوھاً کرھاً اس تبدیلی کو اپنے مدلولات میں اس طرح جگہ دی کہ عقیدے کی تشریح کے ذریعے پرانے عقیدے کو ایک نئے عقیدے کے ساتھ بدل دیا ۔ بارش کب آئے گی ، صرف خدا جانتاہے۔خدا آسمانوں پر رہتاہے۔ آسمانوں پر ایک عرش ہے جو یاقوت کا بنا ہوا ہے اور پانی کے فرش پر ہے، جسے فرشتوں نے اپنے کاندھوں پر اُٹھا رکھاہے۔ جوں جوں علمِ فلکیات ترقی پاتا چلاگیا، ان سب عقائد کی نئے رنگ میں تشریح کی جانے لگی ۔جب یہ خیال پایا جاتا تھا کہ زمین چپٹی ہے اور آسمان کے نیچے کسی چٹائی کی طرح بچھی ہوئی ہے تو ایک سامی عقیدہ یہ بھی تھا، کہ قیامت کے دن زمین کسی صف کی طرح لپیٹ دی جائے گی۔اسی طرح قیامت کے دن سُورج زمین سے سوانیزہ قریب آجائےگا۔یاقبر میں دفن ہونے کےبعد انسان دوبارہ زندہ ہوجاتاہے۔یا ساری دنیا کے انسان صرف آدم ؑ اور حوّاؑ کی اولاد ہیں ۔اپنی اپنی ذہنی سطح پر مختلف درجات میں اب بھی ان عقائد کے مختلف مفاہیم پائے جاتے ہیں۔ عقیدہ اضافی ہے اس لیے بدلتا رہتاہے۔ دنیا میں زیادہ تر انسانوں کا عقائد پر ایمان رسمی سا ہوتاہے۔سو کسی بھی مذہب کی’’ اصل روُح‘‘ عقائد کا نظام نہیں بلکہ اس کی اخلاقیات کا نظام ہے۔مذاہب باتُونی نہیں ہوتے۔ عقلی جنگیں لڑنے کے لیے وارد نہیں ہوتے۔یہ ارتقائی عمل میں سامنے آنے والی اجتماعی عملی تحریکیں ہوتی ہیں۔تمام مذاہب اس دعوے کے ساتھ اپنے ادوار میں وارد ہوئے ہیں کہ وہ آسمانوں سے اُترے ہیں۔ بالفاظِ دگر تمام مذاہب خود کو خود فطرت کے شاہکار کے طور پر پیش کرتے آئے ہیں۔

فطرت، مذہبی اخلاقیات کو کیسے نازل کرتی ہے؟ یا مذہبی اخلاقیات، ارتقأ کے ذریعے کیسے وراد ہوئی ہے؟ یہ بڑا دلچسپ سوال ہے۔ دراصل تمدن ایک ڈائنامک عمل ہے۔ کسی بھی معاشرے میں ریفارمیشن کا عمل خودکار طریقے سے جاری رہتاہے۔دونسلوں کے مابین کرائیسس ہی تمدن کو زندہ رکھتاہے۔ ایک پرانی نسل اور دوسری نئی نسل۔ اگر ان دونوں طبقات میں تصادم باقی نہ رہے تو معاشرے کی نشوونما رُک جاتی ہے اور معاشرے فنا ہوجاتے ہیں۔ معاشروں میں ارتقأ دو صورتوں میں ظاہر ہوتاہے۔ اجتہاد اور افترأ۔ اگر کسی معاشرے کے افراد کی اکثریت، متفقہ فیصلے کے طور پر کسی نئی رسم، رواج، قانون یا دستور کو اچھا سمجھ کر جاری کردے تو ہم کہیں گے اجتہاد کا عمل پیش آیا ہے اور اگر ایسا نہ ہو اور افراد کی مشترکہ رائے جیسا خالص شعوری عمل ان کے حصے میں نہ آئے تو افترأ کا عمل وقوع پذیر ہوتاہے۔ افترأ یہ ہے کہ معاشرے میں نت نئی رسموں کا آغاز اور اجرأ تو ہو لیکن ان پر کوئی نگہبان آنکھ یہ دیکھنے کے لیے موجود نہ ہو کہ آیا وہ نئی رسمیں اور دستور ان کی سوسائٹی کی بہبود کا باعث ہیں یا بربادی کا؟ افترأ کا کوئی نگہبان نہیں ہوتا۔ افترأ میں نئی نئی رسمیں یعنی کہ بدعتیں خود بخود پیدا ہوتی ہیں۔ افترأ کسی کلچر کی عمارت کے ارتقائی مراحل میں جھاڑ جھنکاڑاور خود رو جھاڑیوں کی طرح اُگ آنے والے زہریلے پودے کی طرح ہوتاہے۔ 

کوئی رسم کسی معاشرے کے لیے بہبود کا یا بربادی کا باعث کیونکر ہوتی ہے؟ بالفاظ دگر کوئی رسم کسی معاشرے کے لیے اچھی یا بری کیسے ہوتی ہے؟ ہم کیسے جان سکتے ہیں کہ کوئی چیز اچھی ہے یا بُری ہے؟ ہم کون ہوتےہیں کسی چیز کو اچھا یا بُرا کہنے والے۔ ارتقا کے قانون میں اچھی اور بری کی اصطلاحات نہیں ہیں تو پھر ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ کسی معاشرے کی کوئی نئی رسم، بدعت ہے یعنی کہ بری ہے اور اسی طرح کوئی نئی رسم جو چاہے لوگوں کی اکثریت نے منظور کی ہو ، اچھی ہے؟ ہم کیسے فیصلہ کرسکتے ہیں؟

دراصل کسی بھی اچھی (معاشرے کی بہبود کا باعث)یا بری (معاشرے کی تباہی کا باعث) رسم کا فیصلہ ایک فارمولے کی مدد سے کیا جاسکتاہے۔ ہم سب کسی نہ کسی معاشرے کے افراد ہیں۔ اگرہمیں اپنے معاشرے کی ایک رسم اپنے دِل میں اچھی نہیں لگتی اور ہم مجبور ہیں کہ اس پر عمل کریں تو وہ بُری اور تباہ کُن رسم ہے۔ اسکے برعکس اگر ایک رسم ہمیں اپنے دل میں اچھی لگتی ہے اور ہم مجبور بھی نہیں ہیں کہ اس پر عمل کریں تو وہ اچھی اورفلاح بخش رسم ہے۔اسے کلاسیکی زبان میں ’’معروف‘‘ کہا جاتاہے۔ یعنی وہ جسے لوگوں کی اکثریتی رائے کا اتفاق بھی حاصل ہو اور جس کے بارے میں لوگ دل سے اچھا جانیں اور عمل کرنے پر مجبور نہ ہوں۔مکروہ یا کراہت انگیز رسم ہم اُس رسم کو سمجھتے ہیں جسے ہم دِل سے بُرا جانتے ہوں اور اُس پر عمل کرنے پر خود کو مجبور پائیں۔ 

سادہ مثال لے لیتے ہیں۔ آپ جس کسی سے پوچھیں ، جہیز کیسی رسم ہے؟ سب کہیں گے بُری رسم ہے۔ جہیز ایک لعنت ہے۔ اپنے دل میں بھی اُسے بُرا جانیں گے لیکن جب وقت آئے گا تو اس پر عمل کے لیے مجبور ہونگے۔ یہ ہوتی ہے بُری رسم۔ اس کے برعکس اچھی رسموں کی بھی ہزاروں مثالیں ہیں۔ مثلاً دوستوں میں ضیافت کا رواج ایک ایسی رسم ہے کہ لوگوں کی اکثریت اسے دل سے اچھا بھی جانتی ہےاور خود کو مجبور بھی نہیں پاتی کہ اس پر عمل کرے۔

ہم جتنا غور کرتے چلے جائیں ہمیں نظر آتا جائے گا کہ معاشرے ارتقائی عمل سے ہی گزر رہے ہوتے ہیں۔ کبھی جب کچھ معاشروں میں نئی نسل کی جانب سے مزاحمت بہت کم ہوجاتی ہے تو معاشرے جمود کا شکار ہوجاتے ہیں۔ یہ مزاحمت اگر بالکل ختم ہوجائے تو معاشرے فنا ہوجاتے ہیں۔ نئی نسل میں موجود مزاحمت معاشرے کی بقا کی ضامن ہے۔ نئی نسل ہمیشہ پرانے اصولوں کی باغی ہوتی ہے۔ پرانے اصول زیادہ تر بوسیدہ ہوجانے کی وجہ سے بُری رسموں میں بدل چکے ہوتے ہیں۔ جب وہ پرانے اُصول اپنے وقتوں میں کبھی وارد ہوئے تھے تو اپنے وقت کی کسی نئی نسل میں پیدا ہونے والے کسی ریفارمر کی کوششوں سے جاری ہوئے تھے۔ لیکن بوسیدہ ہوگئے ، اس لیے کہ اُنہیں آباؤاجداد کامقدس ترکہ سمجھ کر تنقید سے مستثنیٰ قرار دے دیا گیا۔آباؤاجداد کے مقدس ترکوں کے طور پر ملنے والی بوسیدہ رسموں کے خلاف پھر سے ریفارمر آتاہے اور یوں معاشروں کی فعال حرکت جاری رہتی ہے۔

کوئی ریفارمر زیادہ مضبوط ہوتاہے اور زیادہ بڑے پیمانے پر ، زیادہ بڑے علاقے میں پرانے اُصولوں کی بیخ کنی کرنے میں کامیاب ہوجاتاہے ۔ کوئی ریفارمر قدرے کم مضبوط ہوتاہے تو چھوٹے علاقوں میں تھوڑے لوگوں کے درمیان ریفارمیشن کی جنگ جیتتا ہے۔ ایسے ریفارمرز بھی ہوتے ہیں جو ریفارمیشن کی جنگ ہار جاتے ہیں لیکن یہ طے ہے کہ تمام کے تمام ریفارمرز ہمیشہ نئی نسل کے نمائندے ہوتےہیں، چاہے ان کی عمر کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو۔ وہ ہمیشہ اپنے ساتھ نئی نسل کو مِلاتے ہیں اور ان کی جنگ، پرانے لوگوں اورپرانے لوگوں کی بوسیدہ رسموں کے خلاف ہوتی ہے۔ ان کا نعرہ ہی یہی ہوتاہے کہ ’’آباؤ اجداد کے طریقے چھوڑ دو!‘‘۔

ثابت ہوتاہے کہ مذہب کی طرف سے ملنے والی اخلاقیات بھی فطرت کی جانب سے نازل ہوتی ہے۔یہ معاشروں کی ریفارمیشن کا خودکار عمل ہے جو کلچر کے بطن سے نمودار ہونے والی کسی تحریک کی شکل اختیار کرکے انسانی معاشروں کے ارتقائی تقاضے پورےکرتاہے۔نئی نسلوں کو بغاوت کا راستہ دکھانے میں ہمیشہ اپنے وقت کے علوم و حکمت نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔ جدید علوم اور ایجادات کو ہمیشہ نئی نسلیں پرجوش ویلکم کہتی ہیں اور پرانی نسلیں مزاحمت کرتی ہیں۔ نئی نسلوں کو منظم رکھنے کے لیے اگر کسی عہد میں کوئی ریفارمرموجود ہو تو اپنے وقت کے علوم و حکمت میں تیزی سے اضافہ ہونے لگتاہے۔

غرض اخلاقیات کی کوئی قسم ہو، فقط ارتقائے حیات کے خودکار نظام کے تحت انسانوں کو ملی ہے۔یہ شہد کی مکھیوں میں پائی جانے والی خودکار اخلاقیات ہو، غاروں میں بسنے والے ننگے انسانوں کی خودکار اخلاقیات ہو یا کلچر کے فیبرک میں بُن جانے والی نئی رسموں کے آغاز کی مذہبی، بایں ہمہ خودکار اخلاقیات ہو، یہ چھوٹے پیمانے کی اخلاقیات ہو یا کسی بہت ہی بڑے پیمانے کی بہت ہی عظیم اخلاقیات۔ اخلاقیات کی ساری قسمیں ہی ارتقائی عمل کا حصہ ہیں۔بایں ہمہ ’’اخلاقیات انسانوں کے پاس وہ واحد ہتھیار ہے جو بقائے انسانیت کا ضامن ہے‘‘۔انسان کو جینٹک(مورو ثی)قابلیت کی بنیاد پر یا مشق کے ذریعے، بہرحال اپنے ہاتھ اور زبان سے دوسروں کو محفوظ رکھ کر ہی اندازہ ہوتاہے کہ وہ خود اَمن اور سکون سے کیسے رہ سکتاہے۔

اخلاقیات مذہبی ہو یا غیر مذہبی، دونوں طرح کی اخلاقیات ارتقائی عمل کے نتیجہ میں انسانوں تک پہنچی ہے۔وہ انسانی جِین پولز جو کلیۃً شدت پسند تھے آہستہ آہستہ معدوم ہوگئے۔پہلے جنّاتی صفات کے حامل نینڈرتھل، آسٹریلو پتھی کس، کرومیگنانز اور ہوموہبی لس جو زمین میں خون بہاتے اور دنگا فساد کرتے تھے معدوم ہوئے پھرزمانہ قبل ازتاریخ کے خانہ بدوش قبائل معدوم ہوگئے جو لُوٹ مار کرتے تھے۔انسان ایک زمانے تک فوج درفوج قتال کرتے رہے۔ قدیم ادوار کی بڑی جنگوں میں لاکھ لاکھ جنگی قیدیوں کو ایک ساتھ تہِ تیغ کردینے کے کتنے ہی واقعات ہیروڈوٹس نے نقل کیے ہیں۔

انسانی تاریخ شاہد ہے کہ انسان بتدریج اخلاقی طور پر بہتر ہواہے۔یورپ کے وہ جِین پولزجو جنگلی قبائل ہوا کرتے تھے ارتقاکرکے مہذب معاشروں میں تبدیل ہوگئے۔پچھلی صدی کے آخری ربع میں کتنی ہی اقوام نے اپنے فاتحین سے آزادی حاصل کی۔یورپ نے ہر اُس نظام کو ترک کردیا جو بالآخر یورپ میں امن کے لیے نقصان دہ تھا۔ان میں خاص الخاص عقائد کا نظام تھاجسے سب سےپہلے کانٹ نے یورپ کے مذاہب سے نکال باہر کیا۔وہاں ایک نیا جین پول تیار ہونے لگا۔انہوں نے علی الاعلان غلامی کو ختم کیا۔ گورے کالے کا فرق مِٹایا۔اور اخلاقی لحاظ سے خود کو دنیا کی بہترین اقوام بنالیا۔

نظریہ ٔ ارتقأ میں ایک بہت مشترک مظہر ہمیشہ یہ رہا ہے کہ جب بھی کسی نوع کے راستے میں کوئی رکاوٹ آئی ہے، اس نوع نے اپنے مناسب جینز آگے بھیج کر اس رکاوٹ کو عبور کیاہے اور اگر کوئی نوع اپنے مناسب جینز آگے بھیجنے میں ناکام رہی تو فنا ہوگئی۔اسی کو نیچرل سیلکشن کا قانون کہتے ہیں۔یورپ میں اب جرنل کرنل کے شولڈر سٹارز والے لوگ ڈھونڈے سے نہیں ملتے۔ یہ وہی یورپ ہے جس میں ہرگھر کے تمام مرد فوجی ہوا کرتے تھے۔  اب انسانوں کے سامنے کیا کیا رکاوٹیں موجود ہیں؟  اصل اکیڈمک جملہ تو یوں لکھا جائے گا،

’’موجودہ دور میں نوعِ انسانی کے لیے بیرونی ماحول کس طرح اور کس قدر بدل چکاہے؟‘‘

پہلے نمبر پر ،جیسا کہ میں پہلے بھی عرض کرآیا ہوں، ماحولیات کی تبدیلی انسانی بقا کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔اب زمین کی تقریباً تمام جھیلیں، دریا حتیٰ کہ سمندر تک بُری طرح زہریے مادوں سے آلودہ ہوچکے ہیں۔اور یہ آلودگی خود انسانوں نے پھیلائی ہے۔فصلیں کیمیکل والی کھادوں اورٹرانس جینک بیجوں کی وجہ سے بدل چکی ہیں۔ درخت کٹ گئے ہیں۔ جنگلات ختم ہوگئےہیں۔ جنگلی حیات ختم ہونے کے قریب ہے۔ فضا میں بے پناہ آلودگی ہے یہاں تک کہ زمین کی مقناطیسی فیلڈ، جغرافیہ اور گردش تک کو تباہ ہوجانے کے خدشات درپیش ہیں۔

دوسرے نمبر پرانسانی بقا کے راستے میں توانائی کا مسئلہ ہے۔ فرد سے لے کر اقوام تک سب کو زیادہ سے زیادہ توانائی چاہیے۔زمین کے ذرائع محدود ہیں۔ سب کو ذرائع ختم ہوجانے کا ڈرہے۔ ذرائع جن کے قبضے میں ہیں، وہ ایک فرد ہو یا پوری قوم، اُن کو ذرائع چھن جانے کا ڈرہے ۔بدلے ہوئے بیرونی ماحول میں توانائی کے لیے مدت سے جاری شدید لڑائی ایک بہت بڑی تبدیلی ہے ۔

تیسرے نمبر پر مشینیں ہیں۔ مشینیں انسانی مشقت کم کرنے کے لیے ہوتی ہیں۔مشینوں کی وجہ سے انسان نے گزشتہ صدیوں میں اپنی جسمانی مشقت بے پناہ کم کرلی ہے۔انسانی جسم ہزاروں سال میں پہلی بار ہارمونزمیں تبدیلیوں اور کولیسٹرول کی زیادتی کا شکار ہوگیاہے۔اسی طرح انسان نے جسمانی مسائل سے نمٹنے کے لیے ادویات کا بہت بڑا اور بالکل نیا نظام تعمیر کرلیا ہے۔

چوتھے نمبر پر انفارمیشن کا مسئلہ ہے۔ پہلی جنگِ عظیم میں ڈیڑ کروڑ انسان قتل ہوئے۔ دوسری جنگِ عظیم میں چھ کروڑ انسان قتل ہوئےلیکن اس تعداد کا علم پہلی اور دوسری جنگِ عظیم کے دور میں لوگوں کو نہیں تھا۔پہلی اور دوسری جنگِ عظیم میں قتل ہونے والوں کی تعداد کا علم انفارمیشن کے انقلاب کی وجہ سے موجودہ دور میں ممکن ہوا۔میڈیا دنیا بھر میں ہونے والے واقعات دکھاتاہے۔ دنیا بھر میں واقعات پہلے بھی ہوتے تھے لیکن پہلے لوگوں کو علم نہیں ہوتا تھا۔موبائل ، نیٹ اور میڈیا کی بدولت انسان انفارمیشن کے سیلاب میں بہتاچلاجارہاہے۔کان کو موبائل کے ساتھ لگانے سے لے کر ٹی وی دیکھنے تک انسان کے لیے ہرپل ’’اَن وانٹڈ انفارمیشن‘‘ کی صورت ذہنی دباؤ کا کبھی نہ ختم ہونے والاسامان موجود ہے۔

اِسی طرح گزشتہ ساڑھے تین صدیوں میں دھیرے دھیرے انسانوں نے اپنے آفاق کا تناظر بدل لیا ہے۔آج کا انسان زمین کو چپٹا نہیں سمجھتا اورسیاروں ستاروں اور کائنات کو بے پناہ وسیع تصور کرتاہے۔ وسیع وژن نے قدیم عقائدپر بُری طرح ضرب لگائی ہے۔اب انسان جانتاہے کہ زمین کے اُوپر سات آسمان کسی چھت کی طرح سے نہیں ہیں۔آسمان کے تصور نے عرش، خدا، جنت جہنم اور آخرت سے متعلق عقائد کو متاثر کیا ہے۔جدید سائنس اور فلسفہ نے ’’کے اوس‘‘ اور ’’مہابیانیے کے خاتمے کا اعلان کردیا ہے۔عقائد اور وسیع ہوتے ہوئے آفاق کے وژن نے انسان کوذہنی طور پر اَدھ مُوا کرکے رکھ چھوڑا ہے۔

تنقیدی عقل کی بیداری کا زمانہ ہے۔ ٹیکنالوجی نے مذہبی اداروں میں اپنی جگہ پالی ہے۔لوگوں میں مذہبی پیشواؤں کے قول و فعل کا تضاد زیادہ ہائی لائیٹ ہوکر نشرہورہاہے۔ہرانسان کی تنقیدی عقل گزشتہ ساڑھے تین صدیوں میں کسی نہ کسی درجے میں بیدار ہوئی ہے۔انسانوں کی طرف سے عقائد کی صداقت پر پہلے سے زیادہ سوال اُٹھائے جاتے ہیں۔ مذہبی پیشوا کو اب کسی بھی طور، کہیں بھی خدا کا نمائندہ نہیں سمجھا جاتا اور یہ ایک بہت ہی بڑی تبدیلی ہے۔ان سب پر مستزاد عقیدے کی موت واقع ہوچکی ہے۔

یہ ہے بیرونی ماحول میں آجانے والی تبدیلیوں میں سے چند ایک کا ذکرجن کی موجودگی میں انسانی بقا کا مسئلہ زیادہ واضح ہوکر نظر آتاہے اور مختلف قیافوں اور پیش گوئیوں کے لیے راستے ہموار ہوتےہیں۔لیکن اگر ہم مختلف پیش گوئیوں کو ایک ایک کرکے ڈی کنسٹرکٹ کرتے جائیں تو ہم ایک ایسے نتیجے پر خود بخود جاپہنچتے ہیں جو انسان کے بالآخر اخلاقی طور پر بہترہوجانے کی اُمید پر ختم ہوتاہے۔

مثلاً ایک امکان یہ بھی ہے کہ انسان کسی تیز رفتار بیماری کا شکار ہوکر فناہوجائیں۔ لیکن کسی تیزرفتاربیماری کاا مکان کتنا ہے؟اینالوجی کے مطابق بہت کم۔

ایک یہ امکان ہے کہ ایک آخری ایٹمی جنگ ہوگی اور زمین تابکار عناصر کا گھر بن کر رہ جائےگی۔ زندگی کی ہر شکل زمین سے نابُود ہوجائے گی۔لیکن اس کے امکانات بھی پچاس فیصد سے بہت کم ہیں۔

ایک امکان یہ ہے کہ دنیا پر اسلام کا غلبہ ہوجائے گا؟ کیسے؟ کوئی امکان نہیں۔ خود اسلام کا اسلامیوں پر بھی غلبہ اب قائم نہیں ہوسکتا دنیا تو بہت دور کی بات ہے۔ لیکن اگر اسلام کی تشریح کا ازسرنو جائزہ لیا جائے تو یوں بھی کہا جاسکتاہے کہ اسلام تو پوری دنیا میں نافذ ہوچکا۔اسلام تو سلامتی کے اُصولوں کا نام ہے جو میڈیا کے اس دور میں اب سب کو قبول ہیں۔

ایک امکان یہ ہے کہ چین اور امریکہ کے درمیان جنگ ہوگی۔ بحراکاہل میں۔یہ تہذیبوں کے تصادم کا عروج ہوگا۔ دونوں اپنی طاقتیں زائل کردینگے۔ انڈیا اور انڈونیشیا دنیا میں سپر پاورز بن کر اُبھریں گے۔ انڈیا میں مسلمان مشرقی تہذیب کے جب کہ ہندو مغربی تہذیب کے نمائندہ ہونگے۔ سعودی عرب ہندوستانی مسلمانوں کی مدد کریگا اور انڈیا پر پھر سے مسلمانوں کی حکومت قائم ہوجائےگی۔(سیموئل پی ہنٹگٹن)

حقائق یہ ہیں کہ چین امریکہ کے ساتھ لڑنے کا بالکل اہل نہیں۔ انڈیا کے مسلمان اور سعودی عرب دونوں ہی اتنے کمزور ہیں کہ آنے والی کئی صدیوں تک دنیا کی رہنمائی کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتے۔

آپ ایک سے ایک پیش گوئی قائم کرتے جائیں۔سب میں آپ کو نقص ہی نقص نظر آئیں گے۔ لیکن جونہی آپ یوں سوچنا شروع کردیں گے کہ جب بھی کسی نوع کا بیرونی ماحول بدلتاہے اور اسے اپنے بقا میں رکاوٹ محسوس ہوتی ہے تو وہ اپنے مناسب جینز آگے بھیجتی ہے۔فلہذا ماحولیات کو درپیش چیلنج کے دوران صرف وہی انسانی جینز باقی رہیں گے جو یا تو کسی قسم کےمصنوعی ماحول میں سانس لے رہے ہوں گے اور یا ہرقسم کی ماحولیاتی تبدیلی کو جھیل سکیں گے۔ایسے انسان شاید اربوں انسانوں کی موت کے بعد نِتر کر سامنے آئیں گے لیکن وہ تعداد میں جتنے بھی ہونگے ایک بات اچھی طرح جانتے ہونگے کہ اب بیرونی ماحول خراب نہیں کرنا۔

اِسی طرح صرف وہی جینز نکل کر آگے آئیں گے جو انفارمیشن کی بمباٹمنٹ سے کامیابی کے ساتھ صحیح سالم بچ گئے ہوں گے۔کمپیوٹر سکرین، ٹی وی سکرین، موبائل ڈسپلے جیسی چیزوں کی وجہ سے انسانی آنکھوں اور دماغ کی ساخت پر شدید حملے ہوئے ہیں۔ ایسے انسانی جینز جو اِن حملوں کے دوران کامیابی سے سروائیو کرجائیں گے زندہ رہیں گے۔جو بھی اور جتنے بھی نکل کر آگے آئے وہ تمام جینز انفارمیشن کے اتنے زیادہ ڈیٹا کو پراسیس کرنے کے اہل ہونگے بایں ہمہ ایک نئی نوع کی صورت تشکیل پاجائیں گے جو تمام انفارمیشن سے آگاہ ہونے کی بدولت زیادہ قابلِ اعتماد منطقی فہم کی حامل ہوگی۔

اِسی طرح مذہبی عقائد کےفنا ہوجانے کی وجہ سے توھم پرست عقل گمرہی کا شکار ہوجائے گی اورسائنسی توھمات کی نئی قسم جنم لے گی جن میں ایلیَنز کے خوف سے لے کر خوفناک بیماریوں کے خوف تک اور ٹرانس جینک تبدیلیوں کے خوف سے لے کر پوسٹ ماڈرن فکر کی وجہ سے خاندانوں کو کھو دینے کے خوف تک ، سب خوف انسان کو دامن گیر ہوجائیں گے۔ خوف کی اِن نئی قسموں کا مقابلہ کرسکنے کے اہل جینز زندہ بچ جائیں گے باقی لوگ مر جائیں گے اور خوف کی اِن قسموں کا مقابلہ فقط شعوری طورپر بالغ لوگ ہی کرپائیں گے۔

اصل میں انسانی ارتقأ کو دیکھنے کا طریقہ جانوروں سے بے پناہ مختلف ہے۔اب انسانوں کو جسمانی مسائل کا اتنا سامنا نہیں ہے جتنا ماضی میں ہوا کرتا تھا۔ اب انسان نے گرمی کے لیے بندوبست کرلیا اور سردی کے لیے بھی۔مشینوں نے علاج معالجے آسان کردیے ہیں اسی طرح مشینوں نے ضرررساں کاموں سے انسان کو بچا لیا ہے۔غرض جسمانی طور انسان پہلے سے بہت ہی کم مسائل کا شکار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسانی آبادی گزشتہ ایک صدی میں اچانک اتنی زیادہ بڑھی ہے کہ زمین کا سینہ کانپنے لگ گیا ہے۔ جسمانی طور پر مسائل سے کامیابی کے ساتھ نمٹ لینے والی انسانیت ذہنی طور شدید قسم کے اجتماعی دباؤ کا شکار ہوگئی ہے۔ اوپرخوف کی جن قسموں کا ذکر میں نے کیا ہے یہ یورپ میں ابھی بھی موجود ہیں۔ ہمارے ہاں ذہنی دباؤ کی دیگر کئی قسموں کا راج ہے۔ ارتقأ کا یہ اُصول ہے کہ جو رکاوٹ راستے میں آئے ، نوع میں سے کچھ جینز اس کی سختیاں کامیابی کے ساتھ جھیل لیں۔ اگر ذہنی دباؤ کو کامیابی کے ساتھ جھیلنے والے کوئی جینز ہونگے تویہ وہی جینز ہونگے جو کم سے کم وائیلنٹ ہوں۔ شانت ہوں۔ اور امن پسند ہوں۔یہ یقیناً ایسے لوگ ہونگے جن میں ’’ڈارپ بتیس ‘‘ کے ٹی ٹی (TT)اور سی ٹی (CT) جینز کی مقدار بہت کم ہوگی۔کیونکہ جب تک وائیلنس کا راج رہے گا انسانیت ذہنی دباؤ کے عذا ب سے نہ نکل پائے گی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آخرالامر ایک ایسا انسانی جین پول خود بخود تیار ہوجائے گاجو کم سے کم وائیلنٹ اور زیادہ سے زیادہ اخلاقی لحاظ سے بہتر ہوگا۔ یہ جین پول تیار ضرور ہوگا لیکن یہ کہنا بعید از قیاس ہے کہ جو انسان ان سب مشکلات میں سروائیو نہیں کرپائینگے وہ کتنے ہونگے؟ یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی نقصان نہ ہو اور یہ بھی ممکن ہے ک بھاری قیمت چکا کر یوم الدین تک پہنچنا پڑے۔ 

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply