مجھے اور میرے بچوں کو ہالی ڈے کے لیے ریزارٹ تو پسند ہیں ہی مگر اس سے زیادہ ہم شہر کی ہالی ڈے کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ ہمیں تاریخی مقامات دیکھنے اور ان کی تاریخ جاننے کا بہت شوق ہے۔ لہٰذا ان گرمیوں کی چھٹیوں میں ہم نے سپین کے شہر ایلی کانٹے کا انتخاب کیا اور ایک ہفتے کا ہالیڈے پیکج بک کیا۔
ایلی کانٹے شہر سپین کے مشرقی حصے میں باہر روم کے کنارے واقع ہے جو سپین کے دارالخلافہ مادرید کے لیے تجارتی بندرگاہ یا پورٹ کا کام دیتا ہے اور اس میں سڑک ، ریل اور ہوائی نقل و حمل کی بہترین سہولیات موجود ہیں۔ ایلیکانٹے ایک بہت مقبول سیاحی مقام ہے جہاں پر یورپ بھر سے اور دنیا کے باقی ممالک سے لوگ جوق در جوق آتے ہیں۔
پہلا دن: کسی دوسری جگہ جانے کے لیے فلائٹ اگر صبح کی ہو تو بہت آئیڈیل رہتا ہے کیونکہ آپ دن کی روشنی میں وہاں پہنچ جاتے ہیں اور آپ کو دن کا پورا حصہ انجوائے کرنے کے لیے مل جاتا ہے ۔ ہم صبح کی فلائٹ لے کر ساڑھےگیارہ بجے ایلی کانٹے ایئرپورٹ پر لینڈ ہو گئے۔ سکیورٹی سسٹم بھی کافی تیز رفتار تھا لہٰذا چند منٹوں میں ہی نکل کر بیگیج اٹھایا اور ایئرپورٹ سے باہر نکل آئے۔ ایلی کانٹے جانے کے لیے آپ کو ٹرانسفرز بک کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی کیونکہ ایئرپورٹ شہر سے صرف 20 منٹ کی ڈرائیو پر ہے۔ اور ٹرمینل کے دروازے سے نکلتے ہی ٹیکسیاں قطار میں کھڑی ہوتی ہیں۔ ہم نے ٹیکسی لی اور اپنے ہوٹل پہنچ گئے۔ مانچسٹر کے بھیگے دھندلے موسم سے نکل کر سپین کا سورج دیکھا جو پوری آب و تاب اور شان سے روشن تھا، ٹیکسی سے اترے تو تیز دھوپ نے ہمارا استقبال کیا۔ فوراً ہی ہوٹل کے اندر گئے اور چیک اِن کر کے اپنے کمرے میں پہنچ کر سب سے پہلے ایئر کنڈیشنر آن کیا اور سکھ کا سانس لیا۔ یہ ہوٹل ایلی کانٹے کی تیسری بلند ترین عمارت ہے۔ 31 فلورز پر مبنی اس بلڈنگ کی جس کی بلندی 97 میٹرز ہے ۔ ہم نے اپنے روم کو سی ویو اور بالکنی کے لیے پہلے سے ہی اپگریڈ کروایا تھا۔ ہر فلور پر اس طرح کا ایک ہی کمرہ ہے۔ ہماری بالکنی کمرے کے اطراف ایل شیپ میں تھی۔ جس سے ہمیں ایک طرف شہر کی عمارتیں اور سانتا باربرا قلعہ دکھائی دیتا تھا اور دائیں طرف نظر گھماتے تو ساحل سمندر کا منظر آنکھوں کو راحت بخشتا تھا ۔ جہاں پر چھوٹی بڑی کشتیاں بہت ترتیب سے پارک ہوئی ہوتی تھیں۔ بالکنی میں دو عدد کرسیاں اور ایک میز بھی رکھے ہوئے تھے۔ جس پر ہم شام کو بیٹھ کر چائے پیتے ، شہر کا نظارہ کرتے اور خوشگوار فضا کو محسوس کرتے۔
خیر پہلے دن کی روداد کے مطابق ہم تھوڑا ریسٹ کرنے کے بعد تازہ دم ہو کر اور کپڑے بدل کر ہوٹل سے باہر نکلے تاکہ کچھ لنچ کیا جائے اور اس جگہ کے جغرافیے کا اندازہ کیا جائے۔ ہوٹل سے نکلتے ہی ایک لمبی خوبصورت شاہراہ ہے جو صرف پیدل چلنے والوں کے لیے ہے سڑک ایک سائیڈ پر علیحدہ ہے جس کے ساتھ ساحل سمندر ہے۔ اس شاہراہ یا پرومینارڈ کا نام ایکسپلاناڈا ڈی ایلیکانٹے ہے ۔ کھجور کے درختوں سے گھری ہوئی یہ شاہراہ اپنی موزویک ٹائلوں کے زگ زیگ ڈیزائن کی وجہ سے بہت مشہور ہے اس کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ ٹائلیں اوپر نیچے ابھار کی صورت میں لگی ہیں اور ایک نظر میں یوں محسوس ہوتا ہے کہ شاید آپ اپنا توازن نہ کھو بیٹھیں۔ میں نے دیکھا کہ پام ٹریز ایک ڈیزائن کے تحت باقاعدہ ترتیب میں دائیں بائیں لگے ہوئے ہیں۔ اس پوری روڈ پر بے شمار ریسٹورنٹس اور ڈیزرٹ شاپس ہیں ۔ جو تمام کے تمام سیاحوں کے رش سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں ۔ ہم نے ایک ریسٹورنٹ میں بیٹھ کر پیزا آرڈر کیے جو آدھے کھائے اور آدھے چھوڑے ۔ چونکہ پہلا دن تھا اور سفر کی تھکاوٹ بھی تھی تو ہم نے سارا دن ہوٹل کے قریب ہی ایکسپلاناڈا ڈی ایلیکانٹے پر چہل قدمی کی۔ روڈ کراس کر کے سمندر کے کنارے چلے گئے۔ وہاں بیٹھ کر آئس کریم وغیرہ کھائی۔ آتے جاتے لوگوں کا جائزہ لیا۔ گورے تو سی سائیڈ پر بہت انجوائے کر رہے تھے۔ ایک نوجوان جمناسٹک کے فن کا مظاہرہ کر رہا تھا۔ ایک سکول ٹرپ کے بچے آئے ہوئے تھے جو اس کو دیکھ کر بہت محظوظ ہو رہے تھے اور انہوں نے اس کے ساتھ فوٹو بھی بنوائی۔ چند پولیس مرد اور خواتین آفیسرز بھی آتے جاتے ہوئے دکھائی دیئے۔ کچھ دیر میں ہم وہاں سے اٹھ کھڑے ہوئے اور مارکیٹ کا رخ کیا جو ہمیں وہاں بیٹھے ہوئے سٹالز دکھائی دے رہے تھے۔ یہ ہماری کرسمس جرمن مارکیٹ کی طرز کے سٹالز تھے۔ جس میں سمندری پتھروں کی جیولری، شوز ،بیگز سوئمنگ کے کپڑے اور تولیے ، سووینیئرز اور کھانے پینے کی دکانیں تھیں۔ اس کے بعد ہم مرینا کی طرف بیٹھ گئے جہاں پر بہت سی کشتیاں پارک تھیں اور کچھ لوگ بوٹ رائڈ کرتے ہوئے بھی نظر آئے۔ ایلیکانٹے شہر کا یہ حصہ اس قدر خوبصورت اور پُر رونق ہے کہ آپ کہیں اور نہ بھی جائیں اور یہیں پر ادھر ادھر وقت گزاریں تو بہت اچھا محسوس ہوتا ہے۔ ہم نے بھی کچھ ایسا ہی پہلے دن کیا اس کی ایک اور وجہ اپنے ارد گرد کے علاقے سے واقفیت حاصل کرنا بھی تھی۔ سہ پہر گزار کر ہم پھر ہوٹل گئے تھوڑا ریسٹ کرنے کے بعد اور شام کا لباس زیب تن کر تیار ہو کر ڈنر کے لیے باہر آئے۔ رات کا کھانا ہم نے ہوٹل کے بالکل سامنے ایک لبنانی ریسٹورنٹ میں کھایا جو حلال تھا۔ بعد میں بھی ہم نے کئی بار اس لبنانی ریسٹورنٹ میں کھانا کھایا۔ گرم ملکوں میں شامیں بہت حسین ہوتی ہیں ۔ جو گورے اور گوریاں صبح سے لیکر شام تک سی سائیڈ پر تیراکی کر کے اسی لباس میں گھوم رہے تھے، اب ڈنر کے لیے جب تیار ہو کر نکلے تو وہ پہچانے نہیں جا رہے تھے۔ کچھ لوگ جوڑوں کی شکل میں تھے کچھ سہیلیاں مل کر آئی ہوئی تھی اور بہت سی فیملیز چھوٹے بچوں کے ساتھ ہالیڈے منا رہی تھیں۔ گوروں کی خاصیت یہ ہے کہ وہ اپنے کام سے کام رکھتے ہیں کسی نے کیسے کپڑے پہنے ، کوئی کیسا دکھائی دے رہا ہے کوئی کسی کو جج نہیں کرتا وہ کسی دوسرے کے بارے میں ایسا کچھ سوچتے ہی نہیں۔ نہ ہی کسی کو غلط نظر سے دیکھتے ہیں۔ جہاں اسلام میں عورت کو خود کو ڈھانپنے کا حکم ہے وہاں پر مردوں کو بھی نظریں نیچی رکھنے کا حکم ہے۔ مغرب میں عورتوں پر لباس کی کوئی قید نہیں، مگر مردوں کی نظریں نیچی اور نیت صاف کی مثال ان غیر مسلموں سے بڑھ کر نہیں ملتی۔
( جاری ہے)
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں