23 مارچ، قائد کا خواب اور موجودہ پاکستان۔۔ارشاد حسین ناصر

قیام پاکستان کی تحریک اگرچہ اس دن سے بہت پہلے شروع ہوچکی تھی، مگر اس حقیقت سے کسی کو بھی انکار نہیں کہ 23 مارچ 1940ء کے تاریخ ساز دن ہی پہلی بار اتنے بڑے اجتماع میں ہندوستان میں مسلمانان ہند کے علیحدہ وطن کا باقاعدہ مطالبہ سامنے آیا، جسے بانیان پاکستان نے لاہور کے تاریخی منٹو پارک موجودہ مینار پاکستان گرائونڈ میں پوری شدت اور جذبہ و تحریک سے پیش کیا۔ منٹو پارک میں ہونے والا اجتماع دراصل آل انڈیا مسلم لیگ کا چونتیسواں سالانہ اجلاس تھا، جو 22 سے 24 مارچ 1940ء کو منٹو پارک میں منعقد ہوا، جسے آج کل اقبال پارک کہا جاتا ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح نے اجلاس کی صدارت کی، جس میں نواب سر شاہ نواز ممدوٹ نے استقبالیہ خطبہ دیا اور اے کے فضل الحق نے تاریخ ساز قرارداد لاہور پیش کی۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم نے کہا کہ “ہندوستان کا مسئلہ فرقہ وارانہ نوعیت کا نہیں بلکہ بین الاقوامی ہے اور اس کو اسی لحاظ سے حل کرنا چاہیے، جب تک اس اساسی اور بنیادی حقیقت کو پیش نظر نہیں رکھا جائے گا، جو دستور بھی بنایا جائے گا، وہ چل نہیں سکے گا اور نہ صرف مسلمانوں بلکہ انگریزوں اور ہندووں کے لئے بھی تباہ کن اور مضر ثابت ہوگا۔۔!

23 مارچ 1940ء کو لاہور کے وسیع میدان منٹو پارک میں ایک لاکھ انسانوں کے سامنے اور قائد اعظم کی صدارت میں آل انڈیا مسلم لیگ نے تقسیم ہند کی وہ معروف و مشہور قرارداد منظور کی تھی، اس قرارداد نے بعد میں قرارداد پاکستان کا نام پایا تھا۔ اسی قرارداد کی رو سے پاکستان کی مملکت وجود میں آئی۔ آج جب ہم اس تقریب کی سالگرہ منا رہے ہیں، آیئے اس مبارک دن کی یاد تازہ کریں، جب اسلامیان ہند کے نمائندوں نے ایک ساتھ اور جمع ہو کر یہ مصمم، عزم عالیشان باندھا تھا کہ وہ برصغیر میں ایک آزاد و مقتدر سلطنت قائم کرکے رہیں گے۔ 21 مارچ کی صبح قائداعظم لاہور تشریف لائے، اسی شام غروب آفتاب کے بعد لیگ کونسل کا اجلاس ہوا، جس میں جنرل سیکرٹری کی رسمی رپورٹ کے بعد ضابطے کے مطابق مجلس انتخابِ مضامین (سبجیکٹس کمیٹی) کے چند ارکان نامزد کئے گئے، ان میں پنجاب سے ڈاکٹر محمد عالم اور میاں فیروزالدین احمد کو جگہ ملی، سر سکندر مرحوم اس جلسے میں شریک تو ہوئے لیکن خلاف معمول بہت پیچھے بیٹھے تھے۔ ان کی وجہ سے یونینسٹ پارٹی کے تمام ارکان بھی ان کے ساتھ پچھلی کرسیوں پر تشریف فرما تھے۔ قائد اعظم نے لاہور پہنچتے ہی اخباری نمائندوں کو بیان دیا تھا کہ لیگ اس اجلاس میں ایک انقلاب آفرین اقدام کرے گی، ان کے اس ارشاد پر طرح طرح کی چہ مگوئیاں اور قیاس آرائیاں ہونے لگیں، ہندو اخباروں نے بھی بڑے بڑے حاشیے چڑھائے، لیکن بات کی تہہ تک کوئی نہ پہنچ سکا۔

قارئین ہم میں سے کون نہیں جانتا کہ ’’23 مارچ‘‘ کی تاریخ وطن عزیز کی تاریخ میں کیا اہمیت رکھتی ہے؟ یہ اہم ترین تاریخ، دراصل وطن عزیز کے دنیا کے نقشے پر ابھرنے کے خدوخال ترتیب دینے کی تاریخ ہے، یہ تاریخ اس قرار داد کے منظور ہو جانے کی تاریخ ہے، جس کے چند سال بعد ہی برصغیر کے مسلمانوں نے عملاً ہندوئوں اور انگریزوں کی تکالیف اور ظلم و زیادتیوں سے نجات حاصل کر لی۔ آج کے دن ضرورت اس امر کی ہے کہ اکابرین قوم نئی نسل کو بتائیں، سمجھائیں کہ اس قرارداد کا مآخذ کیا تھا؟ مفہوم اور مقاصد کیا تھے؟ تاکہ وہ صحیح معنوں میں تاریخ پاکستان کی تفصیل سے آگاہ ہوسکے اور وطن عزیز کو قائد کے اقوال اور اقبال کے افکار میں ڈھالنے کا چارہ کرے، انہی نوجوانوں کے لئے اقبالؒ نے کہا تھا کہ فکر و تدبر کیا کرو اور یاد کرو کہ…؎
وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارہ
شاعر مشرق حضرت علامہ اقبال (رہ) نے اس خطے کے نوجوانوں میں عقابی روح بیدار کر دی تھی، جس کے نتیجہ میں انہوں نے غلامی کی زنجیروں کو توڑ دیا تھا اور وہ استکبار جہاں بالخصوص بوڑھے استعمار برطانیہ سمیت متعصب ہندوئوں سے آزادی چھین لینے کیلئے کسی بھی قربانی کیلئے تیار تھے۔ قائد اعظم محمد علی جناح (رہ) کی انتھک اور مخلص قیادت میں اپنے تاریخی مطالبہ کی منظوری کیلئے منٹو پارک سے شروع ہونے والی تحریک صرف سات برس کی قلیل مدت میں اپنے مطالبہ کو تسلیم کروانے میں کامیاب ٹھہری اور پاکستان کی شکل میں ایک عظیم اسلامی مملکت دنیا کے نقشہ پر منصہ شہود پر دیکھی گئی۔

ہمارے تاریخ دانوں کو بنا کسی تعصب اور حقیقت کو پس پشت ڈالے ان حالات و واقعات کو سپرد قلم کرکے ملت کے نوجوانوں کو درست رہنمائی فراہم کرنی چاہیئے کہ کن حالات و واقعات کی بنا پر نوبت یہاں تک پہنچی کہ قیام پاکستان اور دو قومی نظریہ کو پیش کرنا پڑا، ہندو اس دور میں کتنے متعصب ہونگے، اگر ان کی آج کی حالت کو دیکھیں تو بخوبی اندازہ ہوتا ہے، جو آج کے دور میں مسلمانان ہند جو ان کے اپنے شہری ہیں اور اپنی دھرتی سے وفا کرنے والے ہیں، کو کن حالات کا سامنا ہے، کن مشکلات سے گزر رہے ہیں، بالخصوص آج کی مودی حکومت نے تعصبات اور شدت پسندی کو بے حد فروغ دیا ہے۔ مسلمانان ہند آج جن مشکلات کا شکار ہیں، وہ قابل بیان نہیں، کبھی گائے ماتا کے نام پر ان کا شکار کیا جاتا ہے تو کبھی کسی اور نام پہ۔ ہمیں ان رویوں کا جائزہ ضرور لینا ہوگا، تاکہ ہم اگلی نسلوں تک اس امانت کو درست طرح سے پہنچا دیں۔ تحریک پاکستان کے حوالے سے سب سے اہم حقیقت اور حوالہ ہمیں یہ یاد رکھنا ہے کہ قرارداد پاکستان تک پہنچنے کے لئے مسلمان قوم کو تعلیم کی کس قدر ضرورت تھی، وہ تو خدا کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے سر سید احمد خان کو، جن کی دور رس نگاہوں نے ڈیڑھ صدی پہلے اس بات کا ادراک کر لیا تھا کہ ہندو اور مسلمان قدم قدم پر جس طرح مذہبی، ثقافتی اور تہذیبی سطح پر متصادم ہیں، اس کا واحد توڑ تعلیم کے میدان میں آگے بڑھ کر ہندو اور انگریزوں کے برابر کھڑے ہو کر اپنے حقوق حاصل کرنے پر توجہ صرف کرنا ہے، انہوں نے پہلی بار برصغیر کے مسلمانوں کے لئے ’’قوم‘‘ کا لفظ استعمال کیا۔

تجارت کے بہانے برصغیر پر قبضہ کرنے والے انگریزوں نے 1857ء کی جنگ آزادی میں مسلمانوں کو جس طرح بطور خاص اپنے عتاب کا نشانہ بنایا، جاگیریں ضبط کیں، پھانسیوں پر لٹکایا، یہ سب حقائق تاریخ کا حصہ ہیں، اس مسلم کش پالیسی میں ہندوئوں نے جی بھر کر مسلمانوں کے خلاف اپنے کینے نکالے اور کھلم کھلا انگریزوں کا ساتھ دیا، جس کے صلے میں ان پر ملازمتیں اور نوازشیں عام ہوگئیں جبکہ مسلمان بلاواسطہ طور پر ہر سطح پر کچلے گئے، وہ تعلیمی و تجارتی لحاظ سے بھی بہت پیچھے تھے، ایسے نازک موقع پر سر سید احمد خاں ان کی رہنمائی کے لئے آگے بڑھے، وقتی طور پر انہیں عملی سیاست سے دور رہنے کا مشورہ دیا اور پوری توجہ حصول علم پر مرکوز کرنے کے لئے کہا، علی گڑھ تحریک چلائی، سکول اور کالج کھولے، اہم کتابوں کے اردو ترجمے شائع کئے، سائنٹیفک سوسائٹی بنائی، یوں مسلمان دھڑا دھڑ تعلیم حاصل کرنے لگے گو کہ یہ ایک دور رس اور دیر مطلب منصوبہ تھا، تاہم بے حد کامیاب رہا، مسلمانوں کو پڑھی لکھی قیادت نصیب ہوئی، دیکھا جائے تو یہ تمام کوششیں آخر کار قرارداد پاکستان تک پہنچنے کے لئے حتمی محرک ثابت ہوئیں۔ مسلمانوں کو قدم قدم پر رکاوٹوں کا سامنا تھا، انگریز اور ہندو مل کر ان کا راستہ روک رہے تھے، جبکہ ’’ہیوم‘‘ نامی ایک انگریز نے انڈین نیشنل کانگرس کی بنیاد رکھی، تاکہ ہندوستان کے عوام انگریزوں سے محاذ آرائی کے بجائے اس سیاسی پلیٹ فارم پر دلوں کا غبار نکال لیا کریں، اس جماعت میں بے شمار ہندو شامل ہوگئے، جنہوں نے اب اپنی عددی اکثریت کے زور پر اپنی تہذیب و ثقافت مسلمانوں پر ٹھونسنے کی کوشش کی، جس پر مسلمان بجا طور پر سیخ پا ہوگئے، انہوں نے بھی اپنے حقوق و مفادات کے تحفظ کے لئے آل انڈیا مسلم لیگ بنا لی، جسے 1913ء میں قائد اعظم نے جوائن کرکے اس میں ایک نئی روح پھونک دی، انہی کی کوشش سے مسلم لیگ اور کانگرس کے درمیان میثاق لکھنئو کے نام سے ایک سمجھوتہ طے پایا، جس کی رو سے پہلی بار کانگرس نے مسلمانوں کی جداگانہ حیثیت کو تسلیم کیا۔

اسی دوران تحریک خلافت بھی شروع کی گئی، ’’تحریک عدم تعاون‘‘ بھی چلائی گئی، یہ تحریک انگریزی مصنوعات اور ان کی تجارت سے بائیکاٹ کیلئے چلائی گئی، جس سے انگریز کارخانہ داروں کو بھاری مالی نقصان اٹھانا پڑا، وہ مسلمانوں کے مقابلے میں ہندوئوں کو ترجیح دینے لگے جبکہ 1928ء میں نہرو رپورٹ شائع ہوگئی، جس میں جان بوجھ کر ان شقوں کو رد کر دیا گیا، جو مسلمانوں کے حقوق و مفادات کے تحفظ کے لئے تھیں، یہ رپورٹ قائد اعظم نے قبول کرنے سے انکار کر دیا اور اپنے مشہور چودہ نکات پیش کئے، اس پر ہندوئوں نے ہنگامہ کھڑا کر دیا اور فرقہ وارانہ فسادات شروع کر دیئے۔ غالباً اسی میں خدا کی مصلحت تھی کہ علامہ اقبال نے اس تہذیبی و ثقافتی اور مذہبی انتشار کو بنیاد بنا کر 1930ء میں آلہ آباد کے خطبے میں واضح طور پر دو قومی نظریہ پیش کر دیا اور فرمایا کہ ہندو مسلم ہر لحاظ سے دو الگ قومیں ہیں، مسلمانوں کو الگ وطن کی ضرورت ہے۔ بہرحال یہ وہ تمام تر حقائق و محرکات تھے، جو 23 مارچ کی قرارداد پاکستان کی بنیاد بنے۔ یہ جلسہ قائد اعظم کی صدارت میں ہوا، جس میں انتہائی باریک بینی سے مسلمانوں کے سیاسی مستقبل کا جائزہ لیا گیا، مسلم لیگ ہر سطح پر تیزی سے متحرک ہوئی اور آخرکار پاکستان بننے کا معجزہ وجود میں آیا۔ اگر ہم اس عظیم اور تاریخ ساز مملکت کے وجود کیلئے دی جانے والی قربانیوں سے آگاہی حاصل کریں تو اندازہ ہوگا کہ یہ پاک سرزمین کس قدر اہمیت رکھتی ہے اور اس کی حفاظت، اس کے قیام و وجود کے مقاصد کو اب بھی حاصل کرنے کی کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔

نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اتنی تاریخی جدوجہد اور لازوال قربانیوں کا یہ ثمر پاکستان آج مسائل کی دلدل میں پھنسا دکھائی دیتا ہے، اسے کرپشن اور لوٹ مار کی علامت بنا کر رکھ دیا گیا ہے، جس جمہوریت کیلئے قربانایاں دی گئیں، اسے مارشل لا اور آمر حکمرانوں نے کچھ ہی برسوں بعد دو لخت کر دیا، طالع آزمائوں کی اقتدار کی ہوس نے ہم سے مغربی پاکستان جسے آج دنیا بنگلہ دیش کے نام سے پہچانتی ہے، ہم سے جدا ہو گیا، ہندو بنیئے کی سازشوں کا سلسلہ قیام پاکستان سے پہلے سے شروع ہوا تھا، جو قیام کے بعد سے لیکر آج تک جاری ہے، انہی سازشوں کے نتیجہ میں ہی ہم سے مغربی پاکستان چھینا گیا اور اس کے بعد اس سرزمین پر نفرتوں کے بیج بوئے گئے، تاکہ یہ ایک قوم کی بجائے پنجابی، بلوچی، سندھی، پختون بن کر رہیں اور اپنی اسلامی و قرآنی شناخت کے بجائے اپنی علاقائی و لسانی شناخت کو اپنائیں اور ٹکڑوں میں بٹ کر اس خطے میں مزید پاکستان بنائے جا سکیں، مگر تمام تر سازشوں کے باوجود ہمارے ادارے اور قومی سلامتی کے ذمہ داران اس جانب متوجہ دکھائی دیتے ہیں کہ ایسے عناصر کو کسی بھی صورت کامیاب نہ ہونے دیا جائے، جو ملکی سلامتی کیلئے خطرہ ہوں۔ اگرچہ مشکلات ہیں، تعصب، تنگ نظری، استحصال اور حقوق کی پائمالی کا عمل جاری ہے، مگر اس کے باوجود یہ پاک سرزمین اپنے قیام کے مقاصد کیساتھ اس دنیا کے نقشے پر روز بروز ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے اپنا کردار  ادا کرنے میں کسی سے بھی پیچھے نہیں ہے۔

خدا کرے کہ دنیا میں امن و استحکام ہو، سلامتی و سکھ ہوں، ہریالی و سبزہ ہو، ہمارے پاک وطن میں بھی ہر سو امن و سلامتی اور چین کا بول بالا ہو، لوگوں کو ان کے حقوق میسر ہوں، عدل و انصاف کا بول بالا ہو، کرپشن اور لوٹ مار کرنے والے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوں اور وہ دن اب آہی جائے، جب ہم اپنے وطن کی قیادت پر فخر کرسکیں، ایسی قیادت جو واقعی علامہ اقبال اور قائد اعظم محمد علی جناح کی طرح مخلص اور دور بین نگاہیں رکھتی ہو، جس کا ویژن ہو، جو دنیا پر حکمرانی کے آداب اور ڈھنگ سے آگاہ ہو، جس میں امت مسلمہ کی قیادت کرنے کی صلاحیت موجود ہو اور جو یہاں کے چپے چپے کی حفاظت کو اپنا ایمان سمجھتی ہو۔ ایسی قیادت کی ضرورت ہے، جو امت مسلمہ میں اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرسکے اور امت مسلمہ کو اس کا کھویا ہوا مقام دلوانے کیلئے سر دھڑ کی بازی لگا سکے۔ پاکستان ایک معجزہ ہے، یہاں ایسی ہی معجزاتی و کرشماتی قیادت کی ضرورت ہے۔ افسوس کہ ہم اس قیادت سے قائد اعظم کی وفات کے بعد سے محروم ہیں۔ ستر برس سے ہم آزادی کے گیت گا رہے ہیں، مگر ہماری آزادی کبھی کبھی ادھوری محسوس ہونے لگتی ہے، جب ہمارا کوئی بونا قسم کا لیڈر اپنے ملک کی نمائندگی کرتے ہوئے کسی استعماری و سامراجی ملک کے سربراہ کے سامنے بھیگی بلی بنا تابع فرمان دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ اس وقت ہمیں یہ احساس ضرور ہوتا ہے کہ ہم ایک مسلم ایٹمی پاور ہیں؟ ایسے ایٹمی پاور کا کیا کرنا جس کے ساتھ غیرت و حمیت اور ویژن و آگہی نام کی کوئی چیز نہ ہو۔ دعا ہے کہ پاکستان اور اس کے باسیوں کی یہ مشکل حل ہو، قیادت کا بحران، ایک دیانت دار اور اہل قیادت ہی اب اس ملک کی صحیح معنوں میں محافظت کرسکتی ہے، ایسی قیادت کے ہوتے ہوئے ہم میں یگانگت، وحدت، اتحاد اور بھائی چارہ کے گلستان آباد ہوسکیں گے۔۔۔۔۔۔ان شاء اللہ

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ اسلام ٹائمز

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply