عورت مرد کے بغیر اور مرد عورت کے بغیر نامکمل ہے ۔جب مرد اور عورت ایک دوسرے کے بغیر نامکمل ہیں تو پھر یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ انسان کے بغیر دنیا ہی نامکمل ہے ۔ چند دنوں سے اسلام آباد میں احتجاج ریکارڈ کرانے والی خواتین کے پلے کارڈ پر درج عجیب و غریب مسائل زیر بحث ہیں۔ بذات خود میرے نزدیک نہ تو ان مسائل کی کوئی حیثیت ہے اور نہ ہی پلے کارڈ اٹھائے ان امیرزادیوں کی کوئی حیثیت ہے کیونکہ ان امیرزادیوں کے پلے کارڈ پر درج مسائل سے احتجاج کرنے والی خواتین کا دور دور تک کوئی واسطہ ہی نہیں ہے اور نہ ہی ہماری خواتین کو یہ مسائل در پیش ہیں ۔خواتین کے اصل مسائل اور ہیں اور ان امیر زادیوں کے مسائل اور ہیں ان خواتین نے خود اپنی خدمت اور گھر کی دیکھ بھال کیلئے تنخواہ پر آٹھ آٹھ سالہ بچیاں رکھی ہوئی ہوتی ہیں اتنی کم عمر کی بچیوں کو کام پر رکھنا اور پھر ان سے وہ سارے کام کرانا جو پختہ عمر کی عورتوں کے کرنے کے کام ہوتے ہیں مثلا ً کم عمر ملازمہ سے بچوں کے پیمپر چینج کرانے سے لیکر کچن کے کام کاج، گھر کی صفائی ستھرائی، کپڑے دھونے سے لیکر استری وغیرہ کروانے تک کروائی جاتی ہے۔
آئین پاکستان میں کم عمر بچوں کو نوکری پر رکھنا جرم ہے اور پھر ایسے تمام کام لینا اس سے بھی بڑا جرم کہلاتا ہے باقی اگر احتجاج کرنے والی خواتین غریب پرور ہوتیں متوسط طبقے سے تعلق رکھتیں ،معاشرتی نظام کی پسی ہوتی وٹہ سٹہ، کاروکاری کا شکار ہوتی یا پلے کارڈ ہاتھوں میں اٹھائے ہوئے خواتین کے درج کیے گئے مسائل یہ ہوتے جو اصل میں خواتین کے مسائل ہیں ۔ تو یقیناً ہم سب ان کے ساتھ ہوتے لیکن ان کے مسائل امیروں کو درپیش مسائل کی نمائندگی ہے، ہمارے سماج کی پسی ہوئی عورت کے مسائل کی نمائندگی نہیں ہے میں سمجھتا ہوں کہ سیاست مفادات کا دوسرا نام ہے اس کے برعکس فلاحی تنظیم یا سول سوسائٹی کا احتجاج میرے نزدیک صرف ایک سچا احساس کہلاتا تھا لیکن اب فلاحی تنظیمیں یا سول سوسائٹی احتجاج بھی اپنے اپنے ذاتی مفادات کا نام ہے کیونکہ آج کل جو احتجاج ان تنظیموں کی طرف سے کیا جاتا ہے یا جو ڈیمانڈ ان کی طرف سے کی جاتی ہیں وہ ہمارے مسائل سے ہٹ کر ہے اور ہٹ کر ہی ہوتا ہے، مکمل صرف اللہ ہے ،انسان کبھی بھی مکمل نہیں ہو سکتا ۔
مرد عورت کے بغیر مکمل نہیں ہے اور عورت مرد کے بغیر مکمل نہیں ہے ،مرد اگر گھر کے عورتوں والے کام نہیں کر سکتا تو عورت بھی مرد والے کام نہیں کر سکتی کچھ نعرے صرف نفرتیں پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں ، نہ کہ محبت کا ذریعہ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سند تھر کی خواتین کے مسائل اجاگر کیے جاتے، جہاں خوراک کی کمی کی وجہ سے روز زچہ بچہ کی اموات کے کیسز میں خطرناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے، بلوچستان کے ان علاقوں کے مسائل اجاگر کیے جاتے جہاں کی گیس کی پیداوار سے پورے ملک کو منور کیا جاتا ہے لیکن ان علاقوں کی خواتین چولہا جلانے کیلئے لکڑیاں دور دراز علاقوں سے کاندھوں پر لاد کر لاتی ہیں۔ پنجاب کے ان علاقوں کی خواتین کے مسائل اجاگر کیے جاتے جہاں محنت مزدوری کے نام پر مقامی با اثر افراد نے نجی جیلوں میں مرد و خواتین کو قید کر رکھا ہوتا ہے۔
خیبر پختون خوا کی خواتین کے مسائل اجاگر کیے جانے چاہییں جہاں لڑکیوں کا تعلیم حاصل کرنا کفر کہلاتا ہے جہاں جہالت کی وجہ سے خواتین کی مرضی مرد کی مرضی ہوتی ہے مرد اور عورت کی جوڑی دنیا کی خوبصورت ترین جوڑی کہلاتی ہے مرد اور عورت کی جوڑی ایک خوبصورت احساس کی علامت ہے مرد جب پبلک مقامات پر خواتین کو پہلے آپ کہتا ہے تب دنیا حسین سے حسین تر ہو جاتی ہے مذاہب کی نظر سے اگر دیکھا جائے تو خواتین کے حقوق سب سے زیادہ قرآن نے بیان کیے ہیں۔ جہیز کی لعنت خواتین کے گلے کا پھندا ہے جائیداد میں حصہ نہ دینا خواتین کے اجتماعی قتل کے مترادف ہے، تعلیم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے مثلاً خواتین پر تعلیم حاصل کرنا فرض ہے میرے حساب سے خواتین کے اصل مسائل کے حل کیلئے خواتین کو خود آگے آنا ہو گا لیکن مسائل اور مطالبات اسلامی تعلیمات سے تصادم کیلئے نہیں ہونے چاہییں بلکہ اسلام کی طرف سے دیئے گئے حقوق کی طلبی ہونی چاہیے ۔ظالم سماج میں خواتین کا اسحتصال کرنے والی خواتین ہیں، مرد کا اسحتصال کرنے والے مرد ہیں بس فرق صرف انسانیت اور احساس کے نہ ہونے کا ہے۔۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں