• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • منظور پشتین ، حقوق گلگت بلتستان اور ملکی میڈیا۔۔شیر علی انجم

منظور پشتین ، حقوق گلگت بلتستان اور ملکی میڈیا۔۔شیر علی انجم

وزیرستان تحصیل سروکئی کے نواحی گاؤں کے سرکاری سکول ٹیچر کے گھر میں پیدا ہونے والا منظور احمد جو منظور پشتین کے نام سے اس وقت ملکی اور غیر ملکی ذرائع ابلاغ اورالیکٹرانک چینل پر چھایا ہوا ہے۔ اُنہوں نے ابتدائی تعلیم گاؤں کے ایک پرائمر ی سکول سے حاصل کی۔ جبکہ میٹرک کا امتخان آرمی پبلک سکول بنوں سے پاس کیا اور انٹرمیڈیٹ تک تعلیم کیمرج کالج کرک اور2016میں گومل یونیورسٹی سے ڈاکٹر آف ویٹرنٹی میڈیسن (ڈی وی ایم) میں پوسٹ گریجویٹ کی ڈگری حاصل کی۔

کہتے ہیں آج سے آٹھ نو سال پہلے تک منظور احمد کی سیاسی وابستگی یا سوچ یہاں تک محدود تھی کہ اُس کو پاکستان میں سیاسی پارٹیوں کے نام تک یاد نہیں تھے۔ لیکن قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عام آدمی متاثر ہونے اور متاثرین کے ساتھ اداروں کی جانب سے ناروا سلوک اور اہل اقتدار کی مسلسل ناکامیوں اور پاکستان میں پشتون قوم کا نام دہشتگردی سے جوڑنے جیسے واقعات نے منظور احمد کو منظور پشتین بننے پر مجبور کیا۔ 2017 کے آخری مہینوں تک منظور پشتین علاقے کی سطح پر یونیورسٹی کی  سطح پر پشتون قوم کے حقوق کیلئے محدود حلقے میں رہ کر سوشل میڈیا کے ذریعے آواز بلند کرتے تھے۔

منظوراحمد پشتین کا نام دنیا اور میڈیا کے سامنے تب آنا شروع ہوا جب اُنھوں نے 26 فروری 2018 ء کو خیبر پختونخوا کے جنوبی شہر ڈیرہ اسماعیل خان شہر سے احتجاجی جلوس کی قیادت شروع کی اور مختلف شہروں بنوں،کوہاٹ، درہ آدم خیل، پشاور،مردان اور صوابی سے ہوتا ہوا یکم فروری کواسلام آباد پریس کلب کے سامنے پہلے سے نقیب اللہ محسود کے ماروائے عدالت قتل کے خلاف احتجاجی کیمپ پہنچ کر دھرنا شروع کردیا۔ منظور پشتین کو عوامی حقوق کیلئے ببانگ دہل آواز بلند کرنے کے جرم میں کئی بار گرفتاریوں کا بھی سامنا کرنا پڑا، اُنہیں 4نومبر 2017ء کو ساتھوں  کے ہمراہ گرفتار کر لیا  گیا ، لیکن سوشل میڈ یا اور انسانی حقوق کی  تنظیموں  نے اس اقدام کے خلاف آوازاُٹھائی اور دون بعد ا ن کو رہا کردیا گیا۔

آج منظور پشتون میڈیا پر ایک طاقتور آواز بند چُکا  ہے اُن کا کہنا ہے کہ پشتون قوم کی  قربانیوں کا صلہ دو ،اُنہیں بھی انسان کا درجہ دیں،ماورائے عدالت قتل کو روکا  جائے  وغیرہ وغیرہ۔ بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے منظور پشتین کا کہنا تھا کہ ان کی تحریک کوئی نیا رجحان نہیں ہے۔ یہ تحریک بہت پہلے سے اٹھی تھی بس شکلیں تبدیل ہوتی رہیں۔ سنہ 2003 میں جب اس علاقے میں کارروائی شروع ہوئی اور عام آدمی متاثر ہوا ہے تو ان کے نمائندے مشیران بولے۔ وہ کہتے رہے ہیں کہ ظلم نہ ہو، یہاں امن ہو تو انہیں مار دیا گیا۔ سنہ 2010 تک جو بولنے کی جرات کرتا وہ ختم کر دیا جاتا تھا۔ جو امن کی بات کرتا، وہ نامعلوم افراد کے ہاتھوں مار دیا جاتا تھا۔ اسی لیے ہمیں کہا جاتا ہے کہ ایسی باتیں آپ کو صرف موت دے سکتی ہیں اور کچھ نہیں۔منظور پشتین کہتے ہیں کہ قبائلی علاقوں میں جب نامعلوم نمبر سے کال آتی تھی، تو مطلب ہوتا تھا کہ مرنے کی تیاری کرلیں۔ کیا آپ کو فلاں یاد نہیں؟ آپ ہی کی طرح کی باتیں کرتا تھا، یاد ہے کیا ہوا اُس کے ساتھ؟۔

اس طرح کی بہت سی ایسی باتیں منظور پشتین نے ملکی میڈیا پر کھل کر کہیں ۔ لیکن میں کم ازکم بطور باشندہ گلگت بلتستان اُن کے  الفاظ کو اپنے قلم سے لکھنے کی ہمت نہیں رکھتا کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ ہمارے ہاں کسی دوسرے کے الفاظ کو جو ملکی میڈیا پر نشر ہوئے  ہیں ، کو کوڈ کرنا بھی ایک طرح سے مشکوک ہوجاتا ہے ۔ لیکن میں منظور پشتین کو قبائلی علاقے کا خوش نصیب حق پرست نواجون سمجھتا ہوں کیونکہ اس وقت تمام ملکی اور غیر ملکی میڈیا سے لیکر انسانی حقوق کیلئے کام کرنے والی  ملکی اور بین الاقوامی تنظیموں کا ہاتھ اُن کے سر پر ہے۔ وہ روازنہ کسی نہ کسی چینل پر قبائلی عوام کا دکھ اور درد لیکر پہنچ جاتے ہیں بڑے بڑے اینکرز کے سامنے وہ پشتون لہجے میں قبائل کے مسائل کبھی جذباتی ہوکر کبھی نرم انداز میں پاکستانی قوم  تک پہنچاتے ہیں۔

یکم نومبر 1947 کی آزادی سے لیکر آج کی تاریخ تک کا مطالعہ کریں ، تو قبائل اور گلگت بلتستان کے مسائل میں کچھ فرق نہیں۔ البتہ ایک فرق ضرور ہے وہ یوں ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام امن پسند ہیں ۔ یہاں دہشت گردی کی سوچ رکھنا تو دور کی بات ہے بلکہ دہشت گردی کے نام سے بھی لوگ  پناہ مانگتے ہیں ،نفرت کرتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ 1988 میں ضیاءالحق کی ایماء پراُس وقت جب پاکستان میں جہاد ہر مسلمان پر سرکاری نقطہ نظر کے مطابق فرض تھا ،

اُسی اثناء میں گلگت بلتستان میں بھی جہاد کا پودا لگانے کیلئے ریاست کی پشت پناہی میں لشکر کشی کی گئی۔ اُس لشکر  نے گلگت بلتستان میں قیامت   برپا کردی ،گاؤں کے گاؤں   جل گئے لیکن عوامی طاقت اور امن پسند سوچ نے ایسا سبق سکھا دیا کہ طالبا ن اور اُس کے چاہنے والوں کے جگر پر وہ زخم آج بھی تازہ ہے اور سیاسی انداز میں اس شکست فاش کا انتقام لیا جارہا ہے۔اُس وقت سے لیکر سی پیک کی آمد تک گلگت بلتستان میں کئی بار خون کی ہولی کھیلی  گئی  ،کہیں بسوں سے اُتار کر گولیوں سے بھون  دیا تو کہیں بسوں کو آگ لگا کر پتھروں اور لکڑیوں سے گلگت بلتستان کا سینہ چھلنی کردیا ۔ مگر بدقسمتی سے آج تک نہ کوئی پکڑے گیا  اور نہ جو جیل میں ہیں اُنہیں پھانسی دی گئی ۔

یہ تمام واقعات ایسے ہیں جس کا ذکر پاکستانی میڈیا پر کبھی نہیں ہوا لیکن پشتون قوم نے اپنی سادہ لوحی کی بنیاد پر جہاد کا ٹھیکہ لینے والوں کو قبول کیا لڑکیاں دیں  اور وہ معاشرے میں ایسا بس گیا کہ ہر دوسرا دہشت گرد پشتو بولنے والا نکل آیا جس پر سوائے افسوس کے کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ اسی طرح گلگت بلتستان کے عوا م نے تمام تر سیاسی بے  انصافیوں کے باوجود پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگایا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اس خطے کے جوانوں نے ہر خطر ناک محاذ پر اپنا لوہا منوایا اور شہید ہونے پر فخر محسوس کیا ۔

لیکن جب یہاں کے عوام سیاسی حقو ق کی بات کریں تو ہر بار یہی کہا جاتا ہے کہ ایسا ممکن نہیں ہے کیونکہ اس خطے نے استصواب رائے کے موقع پر پاکستان کیلئے ووٹ دینا ہے لہذا مسئلہ  کشمیر کے  حل تک  ایسا ممکن نہیں۔ پھر اگر ہمارے عوام متنازعہ حیثیت کی بنیا د پر حقوق کی بات کریں تو نہ جانے کس کس ملک سے پیسے لینے کا الزام اپنے ہی لوگوں کے ذریعے لگایا جاتا ہے الحفیظ الامان۔

اس وقت وہ تمام قوانین جو پاکستان میں دہشت گردی کی روک تھام کے لئے بنایا   گیا ہے، اُسے گلگت بلتستان میں بنیادی حقوق کیلئے  زیادہ  شور  کرنے والوں پر نافذ کیا جاتا ہے۔ لیکن مجال ہے کسی میڈیا پر کبھی اس قسم کے ایشو ز پر بھی کوئی گرما گرم ٹاک شو ہو، گلگت بلتستان کو حقوق نہ دینے پر پارٹیاں ایک دوسرے سے دست گریباں  ہو ، گلگت بلتستان کے کسی غیر سیاسی نوجوان سے اُن کے مسائل کے بارے میں پوچھا ہو۔ المیہ یہ ہے کہ گلگت بلتستان کے محدود صحافتی میدان بھی اپنے مسائل سے غافل اور دنیا بھر کے مسائل کو لیکر پریشا ن نظرآتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ہم آئے روز دیکھتے ہیں کہ مقامی میڈیا میں کبھی امریکہ ،کبھی افغانستان اور کبھی عرب اور خلیجی ممالک کے مسائل شہہ سرخیوں میں نظر آتا ہے۔ مقامی صحافت کا المیہ یہ ہے کہ مقامی بیورو کریسی کے بیانات اور حکومتی ناممکن اور جھوٹ پراعلانات کی خبروں  کی  صحافت کہلاتے ہیں ۔ ایسے میں اگر ملکی میڈیا گلگت بلتستان کے مسائل کو نظر انداز کرے  تو بھی کچھ بُرا نہیں کیونکہ گھر کے مسائل سے جب گھر والے آگاہ نہیں یا اُنہیں فکر نہیں تو پرائے  کا کام تو وہ کرنا ہے جس میں پیسہ ہو اور اس وقت ملکی میڈیا پیسہ کمانے والی مشین بن گئی ہے ،جہاں ریٹنگ کی بنیاد پر ایشو اُٹھائے جاتے ہیں نہ کہ جمہور کی منشاء کے مطابق۔ گلگت بلتستان میں کسی سرکاری فنکشن کیلئے بھی اسلام آباد سے صحافی امپورٹ  کیے  جاتے ہیں۔ ایسے میں ہم شکوہ کس سے کریں؟۔

انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی  جو صورت حال ہے اس حوالے سے مرحومہ عاصمہ جہانگیر اللہ اُنہیں جنت نصیب فرمائے کی قیادت میں جو فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ گزشتہ سال بی بی سی پر شائع ہوا ہم سب کے سامنے ہے۔ لیکن ملکی میڈیا نے   بھی خاموشی اختیار کرلی تھی۔ بنیادی حقوق کیلئے آواز بلند کرنے کے جرم میں بابا جان،ڈی جے مٹھل اور حسنین رمل سمیت ایک درجن سے زائد لوگ اس وقت بغیر کسی فری عدالتی ٹرائل کے سلاخوں کے پیچھے زندگیاں خراب کرنے پر مجبور ہیں لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں ۔ خالصہ سرکار کے نا م سے قدیم کاغذات میں اندراج عوامی املاک کو حکومتی زمین قرار دیکر ہتھیانے  کاسلسلہ بھی بڑی تیزی سے جاری ہے ۔ لیکن مجال ہے کہ کوئی میڈیا  پرسن  یا  حکومت پوچھے کہ ان زمینوں کی ریفامز کیلئے تاریخی حقائق اور خطے کی متنازعہ حیثیت کو سامنے رکھتے ہوئے قانون سازی کریں۔

Advertisements
julia rana solicitors

خدا بھلا  کرے قومی احتساب بیورو کا جنہوں نے  گزشتہ کئی مہینوں میں  متعد د  بڑ ے مگرمچھ   گرفتار کیے  اور مزید گرفتاریوں کے امکانات ہیں یہاں تک  کہ موجودہ وزیر اعلی کو بھی نیب نے دعوت دی ہے جو کہ اچھی پیش رفت ہے۔ خدا کرے کہ نیب والوں کو گلگت بلتستان پر رحم آئے اور محکمہ پولیس،تعلیم،ایکسائز جیسے اہم اداروں میں معمولی نوکری پر بھرتی ہو کر کر وڑوں کی مال جائیداد بنانے والوں  کے گرد  بھی گھیرا تنگ کرے اور کوئی   سی پیک کے گیٹ وے خطے کا  احساس محرومی  ختم کرنے کیلئے مین سٹریم میڈیا میں آواز بلند کرے۔خدا کرے  کہ گلگت بلتستان کے  درجنوں منظور پشتین یکجا ہوکر اپنے علاقے کے  حقوق اور اس کرپٹ سیاسی نظام کے خلاف   مضبوط آواز بن  کر اُبھرے!

Facebook Comments

شیر علی انجم
شیرعلی انجم کا تعلق گلگت بلتستان کے بلتستان ریجن سے ہے اور گلگت بلتستان کے سیاسی،سماجی اور معاشرتی مسائل کے حوالے سے ایک زود نویس لکھاری ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply