ایک بچے نے بتایا، پاس میں ایک چڑیا کا گھونسلا ہے،وہ چوٹی پہ ہے۔ اس چوٹی تک پہنچنا بھی محال ہے چونکہ یہ درخت گولائی میں کھڑا ہے اور گولائی بالکل چٹ پٹ جٹ ہے۔ سیدھا، پھسلن لیے، گول مول، اور کسی بھی قسم کی سیڑھی سے محروم! یہ بچہ بالاکوٹ سے ہے۔ کشمیر رہا ہے۔ دیگر پہاڑی حلقوں میں بھی اس کا بسیرا ہے۔ مانسہرہ میں بھی رہائش ہے۔ اب مری اس کے جینے کی وجہ ہے۔ بتا رہا تھا یہاں سکول قریب میں ہے۔ وہاں سڑکیں ناپید تھیں، پیدل دو گھنٹے کی مسافت تھی۔ آج جب وہ بازار جا رہا تھا اسی کے بقول ایک چڑیا کا بچہ اسی درخت کی چوٹی سے زمین پہ گر پڑتا ہے۔ نظر طور سے ہوتے ہوئے جانب السماء بڑھتی ہے جہاں اسی درخت کی چوٹی پہ آسماں تلے ایک سانپ ہے جو گھونسلے میں ایک بچے کو دبوچ رہا ہے، چڑیائیں شور کر رہی ہیں۔ یہ جب زمین پہ موجود چڑیا کا بچہ اٹھاتا ہے تو چڑیا شوں شیں شائیں اس کے سر پہ لینڈ کرتی ہے۔ اس کا سر متزلزل ہوتا ہے یوں چڑیا بھی اپنی راہ لیتی ہے لیکن وہیں کہیں آس پاس موجود رہتی ہے۔ یہ بچہ اسے وہیں چھوڑ کے بازار چلا جاتا ہے۔ اب وہی چڑیا کا بچہ ہے۔ وہاں موجود دیگر بچے تماشا دیکھتے ہوئے تھک جاتے ہیں اور کوشش کرنے لگتے ہیں کہ کسی طرح اس بچے کو گھونسلے میں پہنچایا جائے۔ ایسا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوا اور اب کافی دیر بعد وہ بچہ میرے آستانے کے اوپر ایک کھیت میں موجود ہے۔ میرے ہاتھ میں چائے ہے۔ بچے اس بچے کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن چڑیا بھی شور مچا رہی ہے۔ بہت ساری چڑیاؤں کا اب جھنڈ بن چکا ہے۔ سب چلا رہے ہیں۔۔ سب چلا رہی ہیں۔
بالاکوٹ اور مانسہرہ اور کشمیر کا مستقل جبکہ مری کا عارضی رہائشی بچہ میرے ساتھ ہے۔ اس کی آنکھوں میں ایک گہرائی ہے۔ بڑی جانکاری رکھتا ہے۔ فطری جواہرات سے خاصا واقف ہے۔ نرالے مراسلوں والا ہے۔ میرے ساتھ چائے ہے اور چائے کے ساتھ سکون ہے۔ پی رہے ہیں، پیتے جا رہے ہیں۔ چسکیوں کی مدد بھی درکار ہے۔ ہونٹ خوش ہو رہے ہیں۔ حلق بھی جل رہا ہے۔ نشے میں ہم چور ہیں۔ قلب مسرور ہے۔ کلب بھی ساتھ بیٹھا ہے۔ اب میں اس بچے کو پوچھتا ہوں یار یہ کیوں چلّا رہی ہیں۔ بھانپے بنا بتاتا ہے کہ یہ اس کا بچہ ہے۔ ارے کس کا؟ اوپر لکھی لکیریں دراصل اسی کی تقریر تھی! اسے کہتا ہوں اسے گھونسلے میں پہنچا دو شاید یہی چڑیا کی فریاد ہے۔ وہ چلّا رہی ہیں۔ یہ تسلسل سے ہو رہا ہے اور مسلسل یہی ہو رہا ہے۔تفصیلات سے میں اب بھی ناواقف ہوں۔
وہ بتاتا ہے کہ جب وہ بازار جا رہا تھا تو کیسے سانپ آیا اور آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا کے مصداق بے گھر ہوگیا، جِلا وطن ہوا،قید ہوئی، کالی کوٹھڑی میں پہنچ گیا، نگل لیا گیا۔ ۔خیر انہماک سے سن رہا تھا۔ دریں اثنا ایک جنگلی بلی آتی ہے۔ کتا کئی دن سے اس کی تاک میں ہے۔ وہ بلی یکدم اس شور کو محسوس کرتی ہے، بے چاری بھوکی ہے، جنگل سے اس کا تعلق ہے۔ وہ اپنے مخصوص انداز میں اس بچے کی جانب بڑھتی ہے۔ بھانپتے ہوئے دوڑ لگاتا ہوں۔ وہ بچہ کانٹوں میں ہے۔ ان کانٹوں میں بلی چلی گئی جہاں ہم نہ جا پائے۔ اسی اثنا ء میں بلی نے اسے اپنی زبان سے چپکا لیا اور تتر بتر ہو گئی۔ اس کے بعد میں واپس آ گیا۔
ایک سو بیس سیکنڈ گزرے ہوں گے اور میں نے دوبارہ اپنی حسوں کو جھنجھوڑا اور یہ مان بھی گئیں! سننے کی کوشش کی پر چڑیائیں خاموشی کا استعارہ بن چکی تھیں۔ دیکھنا چاہا پر دن کی روشنی میں اندھیرا چھا چکا تھا۔ چکھا تو عجیب سا ذائقہ محسوس ہوا۔ سونگھا اور چھونا چاہا! اس دوران چڑیا واپس یہیں آئی۔ اکیلی تھی،باقی جا چکے تھے۔ تار پہ موجود تھی، بل کھا رہی تھی، پروں کو حرکت سکنت دیتی رہی۔ شاید یہ اس کے سوگ کا انداز تھا۔ کچھ دیر وہ جھوٹے لیتی رہی اور اڑ گئی گویا اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں