سیل جاری ہے۔عمران حیدر

اماں تو نہیں  بول رہی تھیں؟
وہ بائیک پر سسرال سے اپنی بیوی کو لے کر گھر لوٹ رہا تھا۔
اس کی بیوی نے تھوڑی دور پہنچ کر سوال کیا۔۔۔ اس نے بُجھے دل سے “نہیں” کہا اور پھر سوچوں میں گم ہوگیا

تو پھر اداس کیوں ہیں؟ امی ابو بھی پوچھ رہے تھے اس کو کیا ہوا ہے۔ بڑا چپ چپ ہے ؟
بیوی نے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے پیار سے پوچھا۔۔۔کچھ نہیں  یار  آج کا دن ہی منحوس ہے!

صبح گھر سے نکلا تو مین روڈ پر آتے ہی ایک پولیس والے نے روک لیا، ا س کو 200 روپے دے کر جان چھڑوائی،
وہ کیوں؟ کیوں دیے اس کو پیسے؟ آپ نے کیا جرم کیا تھا؟ بس لوگ بھی آپ کو دیکھ لیتے ہیں  کہ شریف نظر آتا ہے اور ٹھگ لیتے ہیں۔
اس نے بائیک چلاتے ہوئے پیچھے مڑ کر دیکھا مگر خاموش رہا۔
اب اور سنو ! تھوڑی ہی دور آیا تو جہاں اُس دن ٹائیر پنکچر ہوا تھا آج پھر ہوگیا۔ جیسے تیسے پنکچر شاپ تک پہنچا تو ٹیوب میں کیل لگ گیا تھا ۔ ساری ٹیوب بدلوانا پڑی 300 اس نے لے لئے۔۔

وہ کیوں؟ بیوی نے اس کا کندھا زور سے دبا کر پوچھا
لو بھلا کیل کا سڑک پر کیا کام؟ یہ ان حرام خوروں نے خود ہی پھینکے ہوتے ہیں آپ اس سے پوچھتے تو سہی کیا وجہ ہے؟ جب بھی ادھر سے گزرتے ہیں تمہاری دکان کے آس پاس ہی بائیک پنکچر ہوتی ہے۔یوں تو آپ بھی بڑے بنتے ہیں مگر کسی سے آپ بھی بات نہیں  کرسکتے۔

ابھی اس نے کچھ کہنے کے لئے منہ کھولا ہی تھا کہ بائیک جھٹکے لینے لگی۔۔۔اب اس کو کیا موت پڑگئی۔؟ بیوی نے اکتائے ہوئے لہجے میں پوچھا؟
شاید پٹرول ختم ہوگیا نیچے اترو! اس نے غصے سے اطلاع دی
ڈلوا کے نہیں  آئے تھے۔؟ بیوی نے نیچے اترتے ہوئے سوال کیا
ڈلوایا تھا یار۔۔۔
تو پھر پمپ والے نے بھی ” دا ” لگا لیا ہوگا
اس نے موٹرسائیکل زمین پر لٹاتے ہوئے غصے سے بیوی کی طرف دیکھا۔۔

اب میں اتنا بھی سائیں نہیں  ہوں میں نے خود میٹر چیک کیا تھا پورے سو روپے کا ڈالا تھا اس نے
تو پھر ختم کیسے ہو گیا؟
بس یار۔۔۔ پٹرول مہنگا ہو گیا ہے ۔ پہلے تو سو روپے میں یہاں سے گھر تک چلا جاتا تھا اب شاید زیادہ ڈلوانا چاہیے تھا
چلو بیٹھو ۔۔ موٹرسائیکل سیدھی کرتے ہوئے اس نے بیوی کو بیٹھنے کا اشارہ کیا
گھر پہنچ جائیں گے؟ بیوی نے بیٹھتے ہی سوال داغ دیا۔۔
لگتا تو ہے۔ٹینکی کی دوسری طرف بھی کافی تیل تھا۔وہ کک مارتے ہوئے بے یقینی سے بولا
چلیں اگر پٹرول پمپ آتا ہے تو ڈلوا لیں۔
کہاں سے ڈلوا لوں؟ ایک ہزار تھے 200 پولیس والے کو دیے، 300 کی ٹیوب بدلوائی، 200 کا تمہارے گھر فروٹ لے گیا، 100 کا پٹرول ڈلوایا اور 100 روپے تمہارے بھتیجے کو دے دیے، اب ایک سو ہی بچا ہے ۔
اب دیکھتا ہوں کیا ہوتا ہے۔ اللہ کرم کرے گا۔
بیوی بھی منہ ہی منہ میں کچھ پڑھنے لگی۔

کچھ ہی دیر گزری تھی کہ پیچھے سے بیوی نے چیخ ماری۔۔۔گاڑی روکیں، میں کہتی ہوں گاڑی روکیں
وہ بالکل ہڑبڑا گیا، سڑک پر اور بھی گاڑیاں تھیں۔۔
میں کہتی ہوں جلدی کریں ابھی اسی وقت گاڑی روک دیں۔ ارے روک بھی دیں،
اس نے گھبراتے ہوئے سڑک کے بیچوں بیچ بریک لگا دی
کیا ہوا؟ اس سے پہلے کہ بیوی کچھ کہتی پیچھے سے ایک کار والے نے ہلکی سی ٹکر مار کے بیک لائیٹ توڑ دی ۔ ابے او۔۔ اندھے ہو کیا؟ کہاں بریک مار رہے ہو؟ ۔
کار کے اندر بیٹھے ہوئے نوجوان سے غصے سے ہارن بجاتے ہوئے پوچھا؟
کچھ نہیں  بھائی میری بیوی کا دوپٹہ بائیک میں آگیا ہے وہ موٹرسائیکل سڑک کنارے لیجاتے ہوئے بولا۔
کار والا چلا گیا تو اس نے بیوی سے پوچھا ۔کیا ہوا ہے؟

کچھ نہیں ۔۔آپ نے پٹرول ڈلوانا ہے؟
ہاں مگر تمہیں کیا ہوا؟ چیخیں  کیوں ؟ میری تو جان ہی نکال دی تم نے۔
ارے چھوڑیں۔ وہ پٹرول پمپ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی
آپ نے پٹرول تو ڈلوانا ہی ہے تو یہاں سے ڈلوا لیں سستا مل جائے گا وہ دیکھیں لکھا ہوا ہے ” سیل جاری ہے ”

Advertisements
julia rana solicitors

Save

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply