مکالمہ کے تین سال اور میرا دو سالہ مشاہدہ۔۔بلال شوکت آزاد

اردو ادب و صحافت سے منسلک اور اردو دان طبقے کو ٹیکنالوجی کے اس طوفان بلاخیز میں “مکالمہ” نامی معروف اور متحرک پلیٹ فارم (بلکہ میں مکالمہ فیملی کہوں گا) سے آشنائی نہ ہو یہ میں مان ہی نہیں سکتا کہ “مکالمہ” نے اپنے نام کے مطابق ماحول دیکر سبھی طرح کے خیالات و اظہارات اور نظریات رکھنے والوں کو نا صرف ایک مکمل پلیٹ فارم دیا ہے کہ

“آؤ اور کرو مکالمہ اور نکلو بحث و مباحثے اور بے جا تنقید و تنقیص کے جنجال پورے سے”۔

بلکہ مکالمہ ایک نرسری اور بیسک سکول آف تھاٹس کا مرکز بھی بن چکا ہے کہ آپ کو لکھنے اور پڑھنے کا شوق ہے, آپ زمانے میں چل رہی کسی بھی تحریک, خبر اور روش سے نالاں ہیں اور اس پر بات کرنے کے خواہاں ہیں یا آپ ایک منجھے ہوئے لکھاری بننے کا خواب دیکھتے ہیں تو مکالمہ آپ کی یہ مشکلات چٹکیوں میں حل کرسکتا ہے بس شرط خلوص نیت, تہذیب و تمیز اور مستقل مزاجی کی ہے۔

میں آج سے چار سال پہلے باقاعدہ صحافتی اسلوب کے ساتھ لکھنے کی جانب مائل ہوا لیکن تب مکالمہ کا پلیٹ فارم نہیں تھا تو میری تحریر و تقریر میں پختگی, دلائل, تحقیق اور تحریک عنقاء تھی اور میں بس ایک قلم گھسانے والے سے زیادہ خود کو اور کچھ نہیں سمجھتا تھا لیکن دو چار لوکل اخباروں کی ہلکی پھلکی سائٹس اور روزناموں میں متعارف ہوچکا تھا پر وہ جو علمی اور قلمی تشنگی تھی وہ ویسے ہی رہی۔

پھر یہی کوئی دو سال قبل میرا تعارف احمد رضوان صاحب سے ہوا فیسبک پر اور انہی کے توسط سے پھر میرا تعارف انعام رانا صاحب اور ان کی “مکالمہ” سائٹ سے ہوا اور آج جب مکالمہ کو تین سال مکمل ہوچکے ہیں تو مجھے مکالمہ سے مستقل طور پر منسلک ہوئے دو سال مکمل ہوگئے ہیں کہ جب میں مکالمہ سے جڑا تھا تب اس کی پہلی سالگرہ تھی۔

سب سے پہلے تو میں انعام رانا صاحب, احمد رضوان صاحب اور اسماء مغل صاحبہ سمیت ساری مکالمہ ٹیم اور مکالمہ فیملی کو بہت مبارکباد پیش کرتا ہوں مکالمہ کی تیسری سالگرہ پر کہ الحمداللہ اب مکالمہ سائیٹ تین سال مکمل کرکے چوتھے سال میں داخل ہوگئی ہے۔

اب میں کچھ باتیں نکات کی صورت بیان کروں گا مکالمہ کے حوالے سے کہ میں نے دو سال میں مکالمہ اور اسکی ٹیم کو کیسا پایا اور کیوں پایا؟ قصہ مختصر یہ میرا مشاہداتی نچوڑ ہے جس سے کسی کو اختلاف یا اتفاق ہوسکتا ہے۔

علمی پلیٹ فارم:

مجھے اور سائٹس کا اتنا معلوم نہیں پر مکالمہ میں مجھے یہ خوبی نظر آئی اور آتی ہے کہ آپ یہاں پر اپنی علمی تشنگی دور کرسکتے ہیں کہ مکالمہ ایک مکمل علمی پلیٹ فارم ہے۔

“بحث نہیں مکالمہ”, اصول پر پابندی:

مکالمہ کی ٹیگ لائن یا موٹو ہے “بحث نہیں مکالمہ”, یقین مانیں گزشتہ دو سال میں میرے مشاہدے میں ایک بھی ایسی بدمزگی ویب سائٹ اور اس کے ایسوسی ایٹڈ پیجز, گروپس اور افراد کے مابین نظر نہیں آئی جس کو میں مکالمہ کے موٹو سے سرموانحراف کے مترادف سمجھوں۔

بحث و مباحث والے افراد کی کمی ادھر بھی نہیں پر اس اصول پر مکالمہ ٹیم اتنی سختی سے کاربند ہے کہ قلمی ٹاٹے بٹاٹے شٹاٹے یہاں آکر عملاً ہار مان لیتے ہیں اور بات مدلل کرنے پر عمل کرتے ہیں ورنہ چپ رہتے ہیں۔

“آئیے آئیے مکالمہ میں آئیے” کا رویہ:

یہ قطعی قطعی خوشامد نہیں بلکہ وہ خوبصورت حقیقت اور میرا ذاتی تجربہ و مشاہدہ ہے جس کو اب بیان کرنے میں مجھے خوشی ہوگی کہ یہ واحد ویب سائٹ ہے جو کسی بھی مکتبہ فکر, نظریے, خیالات, اظہار اور طبقات کی حامل تحریر کو اور لکھاری کو نہ  نہیں کہتی بلکہ “اہلاً وسھلاً مرحبا” کہتے ہوئے تحریر کی نوک پلک سنوار کر شائع کرتی اور پرموٹ کرتی ہے دیگر کو اس پر بات کرنے اور مکالمہ سجانے کی دعوت دیکر۔

تحریری, تحقیقی اور علمی مقابلہ جات:

اس سائیٹ کی ایک اور بہت خوبصورت روایت یا روش ہے کہ اس پر سالانہ تحریری, تحقیقی اور علمی مقابلہ جات اور اس میں لکھنے اور جیتنے والوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔

انعامی رقم ہر مقابلے کے بعد اگلے مقابلے میں دوگنی ہوتی جارہی ہے الحمداللہ اور لکھنے والوں کا حوصلہ اور علم دو چند ہوتا جارہا ہے مکالمہ پر آنے اور ایک آدھ مقابلہ میں حصہ لینے کے بعد کہ انعام اور حوصلہ افزائی تو رہی ایک طرف یہاں جیوری بھی اچھی خاصی معتبر, معروف اور غیر جانبدار ہوتی ہے جن کا نو آموز لکھاریوں کی تحریر پڑھ لینا ہی بہت بڑی بات ہے نئے لکھاریوں کے لیئے۔

عدم برداشت, انتہا پسندی اور شدت پسندی کے خلاف بلا تفریق و بلا تخصیص جہاد:

مکالمہ کی ٹیم اور مکالمہ فیملی ملکر مکالمہ سائیٹ پر ایک ایسے کٹھن مسئلے پر کام کرتی رہی اور کررہی ہے جو ہمارے معاشرے کا ایک ایسا ناسور بن چکا ہے جس نے کتنی معصوم جانوں اور ذہنوں کا قتل کردیا ہے۔

جی ہاں میں بات کررہا ہوں مکالمہ کی جانب سے معاشرے میں عدم برداشت, انتہا پسندی اور شدت پسندی کے خلاف بلا تفریق و بلا تخصیص جہاد کی۔

مکالمہ کی سائیٹ پر آپ کو ان مذکورہ رویوں پر مبنی تحاریر بھی ملیں گی لیکن ان کو شائع کرنے کے پیچھے مقصد ان کی پرموشن نہیں بلکہ ان کو لکھنے والوں کو احساس دلانا ہے کہ

“آؤ ہم تمہاری بھی سنیں گے اور لوگوں کو سنائیں گے تاکہ تمہارا بیانیہ درست ہوسکے ایک صحت مند مکالمے کے بعد۔”

اور یاد رہے میرے ذاتی مشاہدے میں مکالمہ عدم برداشت, انتہا پسندی اور شدت پسندی کے خلاف رائٹ, لیفٹ اور سینٹرک کی تقسیم کے بغیر یعنی بلا تخصیص و بلا تفریق کام کررہی ہے۔

مکالمہ کسی خاص مکتبہ فکر, نظریے, تنظیم یا ادارے کو مذکورہ رویوں کا ترجمان اور ذمہ دار نہیں سمجھتی بلکہ معاشرے میں موجود ان رویوں پر کاربند ہر مکتبہ فکر, نظریے, تنظیم یا ادارے کو ذمہ دار سمجھ کر اس کے تدراک کی فکر کو فروغ دیتی ہے۔

تربیت, حکمت و مصلحت اور عزت کا درس:

تربیت, حکمت و مصلحت اور عزت کا درس بھی مکالمہ کی سائیٹ اور ٹیم مکالمہ کی جانب سے بہت اچھا دیا جاتا ہے نئے لکھاریوں کو اور پرانے لکھنے والوں میں ان خوبیوں کی آبیاری جاری رہتی ہے یہ میرا ذاتی تجربہ ہے۔

غرور و تکبر کا شائبہ تک نہیں:

انعام سر سے تو ملاقات بھی ہوچکی اور فیسبک پر رابطہ بھی رہتا ہے, تو جیسے وہ خود ہنس مکھ اور جی دار ہیں ویسا ہی انہوں نے مکالمہ کو بنایا ہے کہ ادھر معروفیت اور شہرت کی وجہ سے وہ ایک فطری دانشورانہ غرور و تکبر رتی برابر نظر نہیں آتا جو مجھے اور بہت جگہ دیکھنے کو ملا کہ سب کو ایک جیسی عزت اور محبت ملتی ہے اور مکالمہ میں خواہ کوئی تین سال پہلے شامل ہوا یا تین دن پہلے, مکالمہ سب کا سانجھا اور سب کا اثاثہ ہے۔

ہمعصر سائیٹس سے کوئی مقابلہ اور رنجش نہیں:

مکالمہ کی سمت متعین ہے جسکی وجہ سے مکالمہ فیملی کا کسی بھی ہمعصر سائیٹ سے کوئی مقابلہ اور کوئی رنجش نہیں کہ مکالمہ سب کو ایک ساتھ پوری عزت سے لیکر چلتی ہے۔

یہاں یہ بھی کوئی شرط و شرائط اور پابندی نہیں کہ نئے یا پرانے لکھاری کی تحریر سوائے مکالمہ کے کسی اور پلیٹ فارم پر شائع نہیں ہوسکتی کہ مکالمہ کے چیف ایڈیٹر اور مالک انعام رانا صاحب نے یہ پلیٹ فارم اپنی اور دیگر لکھاریوں کی علمی و قلمی تشنگی دور کرنے کے لیئے تخلیق اور ترتیب دیا ہے نا کہ معاشی تشنگی کی دوری کی خاطر کہ رزق کی ذمہ داری اللہ نے لی ہے یہ مکالمہ کی کور پالیسی ہے۔

مکالمہ کی جدت پسندانہ فطرت اور اقدامات:

کہتے ہیں کہ جو زمانے کی چال ڈھال سے مطابقت نہ رکھ سکے اور قدامت و سست روی کے کھونٹے سے بندھا رہے وہ پھر آگے رہا ایک طرف واپس پیچھے جانے کے بھی قابل نہیں رہتا اور اس بات کے مد نظر مکالمہ کو ہرسال بہتر سے بہترین کی جانب لایا جارہا ہے۔

ابتک مکالمہ کی سائیٹ کی تھیم, لے آؤٹ میں تبدیلی سمیت اور بہت سی جدت پسندانہ تبدیلیاں کی گئیں اور مزید پر کام اور مشاورت چلتی رہتی ہے۔

خیر یہ سب نکات میں بیان کرنے کی وجہ یہی ہے کہ مکالمہ پر بات ہو تو تجزیاتی انداز بیاں میں ہو تاکہ پڑھنے والوں کو اچھے سے معلوم ہو اور احساس ہو کہ وہ کس فیملی کا حقہ ہیں۔

مجھے آج مکالمہ کی تیسری سالگرہ پر بہت خوشی ہے اور اس خوشی میں میری ذاتی خوشی بھی شامل ہے کہ میں اب مکالمہ پر دو سال مکمل کرچکا اور مستقل لکھاری اور قاری کا درجہ رکھتا ہوں جو میرے لیئے باعث فخر بات ہے۔

انعام سر بہت زبردست کام کیا اور اسی طرح کام کرتے رہیے گا تاکہ مکالمہ کا پلیٹ فارم ایک تحریک کی مانند کام کرتا رہے۔

یہ بہت بڑی بات ہے کہ اتنی مصروف زندگی میں سے قیمتی وقت نکال کر آپ مکالمہ کو ایک اولاد کی طرح وقت دے رہے اور نئے لکھنے اور پڑھنے والوں کو علمی و قلمی لنڈا بازار میں بھٹکنے سے بچا کر برانڈڈ ماحول میں لارہے ہیں۔

مکالمہ کا ماحول بالکل ان عظمت رفتہ کے گم ہوتے چائے خانوں اور ڈھابوں جیسا ہے جنہیں کبھی صحافتی و ادبی حلقوں نے رونق بخشی ہوتی تھی اور بڑے بڑے نام وہاں بطور نوآموز آکر سیکھتے اور سیکھاتے ہوئے اردو ادب و صحافت کا روشن ستارہ بن گئے۔

Advertisements
julia rana solicitors

مکالمہ کے لیئے دعا ہے کہ یہ اسی طرح ترقی کی منزلیں طے کرتی رہے۔ آمین۔

Facebook Comments

بلال شوکت آزاد
بلال شوکت آزاد نام ہے۔ آزاد تخلص اور آزادیات قلمی عنوان ہے۔ شاعری, نثر, مزاحیات, تحقیق, کالم نگاری اور بلاگنگ کی اصناف پر عبور حاصل ہے ۔ ایک فوجی, تعلیمی اور سلجھے ہوئے خاندان سے تعلق ہے۔ مطالعہ کتب اور دوست بنانے کا شوق ہے۔ سیاحت سے بہت شغف ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply