خود کو ریوائنڈ کرنا سیکھیں۔۔محمد اشفاق

ہمارا دماغ جہاں اور بہت کچھ ہے، وہیں ہمارا بہترین پرسنل سیکرٹری بھی ہے- تفصیل کبھی پھر سہی، ایک مثال پیش کرتا ہوں- آپ دن بھر کے تھکے ہارے کام سے واپس لوٹتے ہیں، گرما گرم چائے یا کافی کا پیالہ ہاتھوں میں تھام کر اپنے دن بھر کی سرگرمیاں یاد کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تو آپ کا دماغ کسی مستعد سیکرٹری کی طرح آپ کو چند سیکنڈز میں پورے دن کی ہیڈلائنز سنا اور دکھا دیتا ہے- ساتھ ہی آنے والے دن کی چیک لسٹ بھی آپ کے ہاتھ میں تھما دیتا ہے- مگر کیا دن بھر بس یہی کچھ ہوتا ہے جو آپ کا دماغ آپ کو بتاتا ہے؟

شاہد کپور کی “جب وی میٹ” ان فلموں میں سے ایک ہے جنہیں میں بار بار اور ہر وقت دیکھنے کو تیار رہتا ہوں- انگنت مرتبہ دیکھی اس فلم کو جب بھی دوبارہ دیکھتا ہوں، احساس ہوتا ہے کہ کوئی نا کوئی منظر، کوئی ڈائیلاگ، کوئی سچویشن ذہن سے نکل چکی تھی- ایسا ہی بار بار پڑھی جانے والی کتابوں کے ساتھ بھی ہوتا ہے- ہم دوستوں کے ہاتھ نیا نیا ڈی وی ڈی لگا تو ہم اپنے پسندیدہ مناظر بار بار ریوائنڈ کر کے اور سلو موشن میں چلا کر خوش ہوا کرتے تھے- کبھی اپنے ساتھ یہ تجربہ کر کے دیکھا آپ نے؟

شاید نہیں، کم از کم اس طرح نہیں جس طرح میں آپ کو بتانے جارہا ہوں ، خود کو Unwind کرنے پہ تو آپ کو سیلف ہیلپ، مینیجمنٹ اور انسپیریشنل لٹریچر میں ڈھیر سا مواد مل جائے گا مگر خود کو Rewind کرنے پر شاید ہی کچھ ملے- اس لئے یہ عاجز اس اصطلاح کے جملہ حقوق اپنے نام محفوظ کرانے کا سوچ رہا ہے-

خود کو ریوائنڈ کرنے سے میری مراد اپنے ذہن میں پوری تفصیل اور تمام تر جزئیات سمیت، کسی واقعے، کسی منظر، کسی وقت کو دہرانا ہے- بالکل اسی طرح جیسے وہ واقعہ، وہ منظر یا وہ وقت آپ کی آنکھوں کے سامنے فلم کی طرح چل رہا ہو- اور یہ ہرگز اتنا آسان نہیں جتنا بظاہر دکھائی دیتا ہے- مگر اس کے فوائد اس قدر ہیں، اور اس مشق میں اتنا مزا آتا ہے کہ صرف ایک بار کرنے سے ہی آپ اس کی افادیت کے قائل ہو جائیں گے- چلیں ایک تجربہ کر کے دیکھتے ہیں- یہ میری ذاتی ایجاد کردہ اور پسندیدہ ترین مشق ہے، اگر اس وقت آپ کو فراغت میسر ہے تو ابھی، یا پھر شام یا رات کو کسی بھی وقت-

“صبح جاگنے سے لے کر گھر سے باہر نکلنے تک آپ نے کیا کیا؟”

آپ کا ذہن فوری بتائے گا، وضو کیا، نماز پڑھی، واک کی، نہائے، ناشتہ کیا اور کیا- مگر یہ صرف ٹریلر ہے میں آپ سے پوری فلم دیکھنے کا کہہ رہا ہوں ، اس طرح یاد کیجئے جس طرح آپ ذہن کے پردے پر فلم دیکھ رہے ہیں، آنکھ کھلی تو پہلا منظر کیا دیکھا، پہلا کام کیا کیا، کلمہ پڑھا یا موبائل اٹھایا، اٹھنے سے پہلے انگڑائی لی؟ چپل کہاں پڑے تھے؟ کمرے میں کوئی موجود تھا اور تھا تو کیا کر رہا تھا؟ پہلا کلام کس سے ہوا؟ پہلی بات کیا کی؟ واش روم گئے تو آئینہ دیکھا یا نہیں؟ امید ہے اب آپ سمجھ گئے ہوں گے-

گہرے گہرے سانس لیجئے، پوری توجہ اور دھیان سے ایک ایک منظر، ایک ایک حرکت دہرانے کی کوشش کریں- آپ پہ یہ حیرت انگیز انکشاف ہوگا کہ ستر، اسی فیصد تفصیل ایسی ہے جسے آپ بظاہر فراموش کر چکے تھے، آپ دہراتے ناں تو آپ کو کبھی یاد نہ رہتا-

یہ مشق آپ کسی بھی فارغ وقت میں کسی بھی منظر، واقعے یا کام کے متعلق کر سکتے ہیں، مگر اپنے ذاتی تجربے کی روشنی میں ایک تو یہ اوپر والا معمول مجھے بہت کارامد لگا، دوسرا مارننگ واک- آپ صبح (یا شام) واک کیلئے نکلتے ہیں- واپس آ کر ریلیکس ہو کر، پانی یا جوس پی کر سکون سے بیٹھ جائیں اور پانچ منٹ میں اپنے جوگرز پہننے سے لے کر واپس آ کر جوگرز اتارنے تک کے درمیانی وقفے کو ریوائنڈ کیجئے- آپ کو خوشگوار حیرت ہوگی، جب چند بہت چھوٹی چھوٹی مگر دلچسپ جزئیات آپ کے ذہن میں دوبارہ سے ابھر آئیں گی-

ایک بہت اہم اور دلچسپ صورت اس مشق کی یہ ہے کہ آپ جب بھی کسی اہم ملاقات سے فارغ ہوں، کسی پسندیدہ ہستی سے ملاقات، باس سے میٹنگ، کوئی بزنس لنچ یا ڈنر، تو فری ہو کر اس پوری ملاقات کی کلپ ذہن میں ریوائنڈ کر لیا کریں- اس کی اہمیت کا آپ کو اس وقت ادراک ہوگا جب آپ ایسا کر کے دیکھیں گے-

لیکن اگر آپ اسے محض فارغ وقت کا مشغلہ سمجھیں تو یہ آپ کی غلطی ہے، اس کے عملی فوائد بہت زیادہ اور بہت بڑے ہیں- مثال کے طور پر۔۔۔

1- یہ مشق آپ کی یادداشت کو اس لیول پر لے جانے میں مدد دیتی ہے، جسے گرافک میموری کہا جاتا ہے- گرافک میموری آپ کو روزمرہ کے امور بہتر انداز میں نمٹانے میں بھی بہت مدد دیتی ہے- مثلا” میں نے اے سی کے فلٹر اتار کر دھوئے، جب دوبارہ لگانے لگا تو سمجھ نہیں آ رہی تھی کیسے لگاؤں- اب ذہن میں انہیں اتارنے کا منظر دہرایا اور اس کا ریورس کر کے انہیں دوبارہ ٹھیک طرح لگا دیا- مگر تخلیقی کاموں کیلئے تو گرافک میموری ہونا بہت ہی ضروری ہے- ہر اچھا فنکار، ہر اچھا لکھاری، ہر اچھا سائنسدان اس صلاحیت سے مالامال ہوتا ہے، یہ آپ کو اپنے آئیڈیاز کی بہتر کونسیپچولائزیشن اور ان کی ذہنی سمولیشن کرنے میں بہت مدد دیتی ہے-

2- آپ کے دماغ کی رفتار آپ کے جسم سے سینکڑوں گنا زیادہ ہوتی ہے- کسی کام کو سوچنے اور عملی طور پر کرنے میں اسی لئے اتنا فرق ہوتا ہے- کسی سپر کمپیوٹر سے بھی تیزرفتار ذہن جہاں بے شمار فوائد رکھتا ہے، وہیں اس تیز رفتار کا ایک ضمنی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آپ بہت سی اہم جزئیات، بہت سے خوبصورت واقعات، بہت سے یادگار لمحات کو اس طرح نہیں جی پاتے، جیسا ان کا حق بنتا ہے- چنانچہ دنیا بھر میں کی جانے والی ذہنی مشقوں، مراقبوں، چلوں اور روحانی ریاضتوں کا ایک مقصد آپ کے ذہن کی رفتار کو سست کرنا اور عارضی طور پر اسے جامد کرنا بھی ہوتا ہے- اپنے ذہن کی رفتار کو کائناتی رفتار سے اور اپنے گردوپیش سے ہم آہنگ کرنا، ذہنی و جسمانی صحت کیلئے بہت ضروری ہے- ری وائنڈ کی یہ مشق آپ کے ذہن کے سوچنے کی رفتار سست کر دیتی ہے، یہاں تک کہ آپ دیکھیں گے کہ آدھے گھنٹے کی میٹنگ کو ریوائنڈ کرنے میں آپ کو دس منٹ بھی لگ سکتے ہیں- جبکہ اگر نارملی آپ سوچیں تو یہ دماغ کیلئے چند سیکنڈز کا کام ہے- ریوائنڈ کی مشق میں ذہن اتنا سست کیوں ہوتا ہے، یہ اس کا تیسرا اہم ترین فائدہ ہے-

3- یہ مشق آپ کو اپنے لاشعور سے تعلق بنانے کا موقع دیتی ہے- ہمارے دماغ میں شعوری سطح پر جو کچھ ہو رہا ہوتا ہے، وہ محض ٹِپ آف دی آئس برگ ہوتا ہے، اس کا غالب حصہ تحت الشعور اور لاشعور کی سطح پر کام کر رہا ہوتا ہے- آپ جتنا بھی وقت گزارتے ہیں، دماغ کچھ نا کچھ دیکھ، سن، سونگھ اور چھو کر پراسیس کر رہا اور اسے محفوظ کر رہا ہوتا ہے- اس میں سے اسے جو کچھ آپ کے فوری کام آنے والا، یا آپ کے معمولات سے متعلقہ لگتا ہے اسے وہ شعور کے فولڈر میں اور باقی سب کچھ لاشعور کے فولڈر میں سیو کر دیتا ہے- بعد میں اس نے بہت کچھ ڈلیٹ کرنا اور بہت سے ڈیٹا کا بیک اپ بنانا ہوتا ہے، یہ کام وہ آپ کے سونے کے دوران انجام دیتا ہے- اس میں ہوتا یہ ہے کہ بہت سی معلومات اور مشاہدے آپ کی فوری ضرورت تو نہیں ہوتے مگر وہ کہیں نا کہیں آپ کے کام آنا ہوتے ہیں، مگر دماغ کی ایفیشنسی کی بدولت وہ لاشعور میں چلے جاتے ہیں- جب آپ پوری طرح ریلیکس ہو کر دماغ میں کسی واقعے کی فلم چلاتے ہیں تو دماغ کو مصیبت پڑ جاتی ہے- وہ سرچ کا آپشن لگا کر تمام فولڈرز میں سے متعلقہ فائلیں نکالنے لگتا ہے، یہ عمل ہی اس کی رفتار میں سستی کا باعث بنتا ہے، مگر اس عارضی سست رفتاری کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آپ کے لاشعور کے خانے سے نکل کر بہت کچھ آپ کے شعور کی سطح پر آ جاتا ہے- یقین کیجئے اس میں بہت کچھ اتنا مفید اور اہم ہوتا ہے کہ آپ ششدر رہ جاتے ہیں-

4- ریوائنڈ کا عمل بار بار اپنا ذہنی امتحان لینے کا عمل ہے- اس کی بلاناغہ مشق سے آپ کی قوت مشاہدہ میں حیرت انگیز حد تک بہتری آنے لگتی ہے- مثلا” آپ ایک روز اپنی مارننگ واک کو ریوائنڈ کرتے ہیں تو آپ کو احساس ہوتا ہے کہ کافی کچھ آپ مس کر گئے- اگلے روز آپ واک پر نکلیں گے تو دماغ اس مشق کی تیاری کیلئے زیادہ چوکنا، زیادہ مستعد ہوگا- آپ کو احساس بھی نہیں ہوتا کہ آپ نارمل انسان کے مقابلے میں کتنا زیادہ آبزرو کرنے لگے ہیں- ہماری اہم ترین معلومات کا ماخذ ہمارا مشاہدہ ہوتا ہے، یہاں تک کہا جاتا ہے کہ باہمی گفتگو میں بھی انسان وربل کمیونکیشن سے دس سے پندرہ فی صد جبکہ نان وربل کمیونکیشن یعنی آواز کا زیروبم، لہجہ، آواز کی بلندی یا پستی، بعض الفاظ پر زور، چہرے کے تاثرات اور باڈی لینگویج سے پچاسی سے نوے فی صد تک معانی اخذ کرتا ہے- آپ کا مشاہدہ جتنا بہتر ہوگا، آپ کو لوگوں کے لہجوں، ان کی باتوں اور ان باتوں میں پوشیدہ معانی کی اتنی ہی سمجھ آئے گی- اور مشاہدے کو بہتر بنانے میں یہ مشق بہت مدد دیتی ہے-

5- خطرے کا بروقت ادراک، میں تفصیل تو بیان نہیں کروں گا مگر بارہا ایسا ہوا کہ کسی شخص سے مل کر بظاہر بہت اچھا تاثر بنا، اس کی باتوں پر اعتبار بھی کیا، اس کی نیت پر یقین بھی- مگر جب اس گفتگو کو ری پلے کر کے دیکھا تو چھٹی حس الارم بجانے لگی- بیشتر مواقع پر یہ الارم درست ثابت ہوا- غالبا” ایسا اسی وجہ سے ہوتا ہے کہ جو نان وربل کمیونیکیشن آپ شعوری طور پر مس کر جاتے ہیں، ری پلے کے عمل میں وہ لاشعور سے باہر نکل آتی ہے-

6- بہتر فیصلے کرنے میں یہ آپ کی معاون ثابت ہوتی ہے، جب آپ کی یادداشت اور مشاہدہ بہتر ہوں گے اور آپ کسی دستیاب معاملے کو اس کی تمام تر یا بیشتر جزئیات سمیت دیکھنے کی اہلیت رکھتے ہوں گے تو آپ کے فیصلے بھی ظاہر ہے، بہتر ہوں گے-

یہ چند چیدہ چیدہ فوائد تھے، جو مجھے فوری یاد آئے، ری پلے کرنے پر شاید کچھ اور بھی بتا پاؤں- لیکن جو دوست اس مضمون کو پڑھ کر یہ مشق کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، لازم ہے کہ انہیں چند وارننگز بھی دے دی جائیں-

1- عام طور پر ہم کسی ایک طریقے یا عمل کو ہر مرض کی دوا سمجھ لیتے ہیں- اوپر بیان کردہ فوائد پڑھ کر یقینا” آپ کو بھی یہ سادہ سی ذہنی مشق امرت دھارا معلوم ہو رہی ہوگی- مگر چونکہ یہ صرف میرے ذاتی تجربے کا نچوڑ ہے جو آپ کے سامنے پیش کیا، اس لئے آپ اسے صرف ذہنی مشق ہی سمجھ کر انجوائے کریں تو بہتر ہے- ہر عمل ہر شخص کیلئے نہیں ہوتا، اسی طرح ہر شخص پر ایک ہی عمل کے اثرات بھی مختلف ہوتے ہیں، جسمانی ایکسرسائز کے یہ اصول ذہنی مشقوں پر بھی لاگو ہوتے ہیں- فوائد حاصل کرنے کیلئے استقامت شرط ہے- کمپنی اپنی سکیم پر منی بیک گارنٹی نہیں دے رہی-

2- جب آپ کسی جذبے کے زیراثر ہوں تو اس مشق سے احتراز کیجئے- خوشی، غم، غصہ ہر جذبہ دماغ میں کسی کیمیائی عمل کا باعث بنتا ہے- یا پھر کوئی کیمیائی عمل اس جذبے کا باعث بنتا ہے- بات دونوں طرح ہی درست ہے- ہوتا یہ ہے کہ جب آپ باس سے ڈانٹ کھا کر باہر نکلتے ہی یہ مشق کرتے ہیں تو آپ کا دماغ چونکہ اس کیمیائی عمل کے زیراثر ہوتا ہے، اس لئے باس کے ساتھ میٹنگ کو ری پلے کرتے ہوئے بھی وہ آپ کے منفی جذبات نتائج کے ساتھ گڈمڈ کر دیتا ہے- ایسا ہی خوشی میں بھی ہوتا ہے- اندر کا موسم انسان کے باہر کے موسم پہ کتنا اثرانداز ہوتا ہے، آپ سب جانتے ہیں- یہ مشق تبھی کیجئے جب آپ کے اندر کا موسم معتدل ہو-

3- یہ صرف اور صرف ایک ذہنی ایکسرسائز ہے، اس کا مذہب یا روحانیت سے کم از کم مجھے کوئی تعلق دکھائی نہیں دیتا- آپ بھی بہتر ہے کہ اسے کسی مذہبی یا روحانی مشق کے ساتھ ملا کر کرنے کی کوشش سے احتراز کریں-

Advertisements
julia rana solicitors london

4- یہ مشق اتنی دلچسپ اور مزے کی ہے کہ چند بار کرنے سے آپ کو اس کی لت لگ جائے گی- یاد رہے کہ اٹس اے ٹائم کنزیومنگ ہیبٹ- جیسا کہ اوپر عرض کیا آدھ گھنٹے کی میٹنگ کو ری وائنڈ کرنے میں دس منٹ بھی لگ سکتے ہیں- اگر آپ آدھا دن خود کو ریوائنڈ کرنے میں گزار دیں گے تو لائف میں فارورڈ نہیں جا سکیں گے- اپنے وقت کا بہتر استعمال آپ کی اپنی ذمہ داری ہے- کمپنی ہٰذا کے پاس تو ٹوقت ہی وقت ہے، آپ اپنی فکر کیجئے-

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply