ہم کس کو دوش دیں؟ ۔۔نسرین چیمہ

میڈیکل سائنس کی ترقی کے باوجود گھروں میں، ہسپتالوں میں بیماریوں کی یلغار ہے۔ جو چلتے پھرتے بظاہر تندرست نظر آتے ہیں ان کا بھی طبی معائنہ کرائیں  تو بیسیوں بیماریاں نظر میں آئیں گی۔ ہر سال ڈاکٹروں کی تعداد میں اضافے کے ساتھ ساتھ بیماریوں میں بھی روز افزوں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ کسی سرکاری ہسپتال کا چکر لگ جائے تو   یوں محسوس ہوتا ہے کہ انسانوں کا بند ھ ٹوٹ کر ہسپتال میں آگیا ہے۔ ہر طرف چیخ و پکار، دردو کراہٹ سے لبریز دلگیر آوازیں ایک سنسنی خیز ماحول کو جنم دیتی ہیں۔ ڈاکٹروں کے کمروں کے باہر مریضوں کا جم غفیر بڑی بےبسی سے اپنی باری کا منتظر ہوتا ہے۔ ریفرنس کے بغیر انتظار کی گھڑیاں طویل سے طویل تر ہوتی جاتی ہیں۔ پتھرائی آنکھوں اور لڑکھڑائی ٹانگوں کے ساتھ کسی دیوار کا سہارا لے کر اپنے بیمار ہونے کے منتظر کھڑے ہوتے ہیں اور یوں اگلی پیشی ان ہی کی ہوتی ہے۔

ایمرجنسی و آوٹ ڈور سے لے کر وارڈز، پرائیویٹ رومز سب بیمار اور دکھی انسانوں کی آماجگاہ نظر آتے ہیں۔ ڈاکٹر حضرات روزمرہ کے معمولات کے عادی ہوچکے ہوتے ہیں لہٰذا وہ اپنی ذاتی مصروفیات اور دلچسپیوں کو پہلی ترجیح دیتے ہیں۔ وہ مریضوں کی پریشانیوں کو اپنے لیے درد سر نہیں بناتے۔ لہذا سرکاری ہسپتالوں کے دھتکارے ہوئے چار و ناچار پرائیویٹ ہسپتالوں کا رخ کرتے ہیں۔ پرائیویٹ ہسپتالوں کے حالات بہت حد تک بہتر ہیں، لیکن ان کاعملہ شکار کے انتظار میں گھات لگائے بیٹھا ہوتا ہے جونہی شکار ملا اس پر بلوں کی بھرمار کر دی۔ ان بھاری بلوں سے جو اوسط طبقے کی کمر ٹوٹ جاتی ہے تو غریب کدھر جائے آخر کار تعویذ گنڈوں کی طرف چل پڑتا ہے۔ اگر اللہ کے فضل سے کچھ مریض ٹھیک ہو گئے  تو  پیر  صاحب  کے  وارے  نیارے  ہوگئے  اور ان  کی  روزی  کا سامان کھل گیا۔

بات  ہو  رہی  تھی  پرائیویٹ  ہسپتالوں  کی  تو  قصہ  یوں  ہے کہ  ایک حادثے نے ہماری ایک عزیزہ کو ایک پرائیویٹ ہسپتال کے آرتھو پیڈک  شعبے میں پہنچا دیا۔ ہسپتال کا نظام کافی حد تک تسلی بخش تھا۔ اتفاق سے جن ڈاکٹرز سے ہمارا واسطہ پڑا وہ بڑے با اخلاق اور درد مند تھے۔ آرتھوپیڈک سپشلسٹ ڈاکٹر ساجد نے بڑی ہمدردی کا جذبہ لیے ہوئے مریضہ کا علاج کیا جو کہ   کامیاب  رہا  1 ماہ  کےپلستر کے بعد پٹی کھلی اور  پراپر موومنٹ کے لیے فزیوتھراپی کی ضرورت پیش آئی۔ اگلا مرحلہ فزیوتھراپسٹ کا تھا جو بہت کٹھن اور محنت طلب تھا۔ لہٰذا اسپیشلیسٹ فزیوتھراپسٹ نے بڑی محنت اور ذمہ داری سے یہ فریضہ سرانجام دیا۔ دو ماہ کی فزیو تھراپی سے ہماری عزیزہ صحت یاب ہو گئی۔

دوران علاج فزیو تھراپی کے لیے آنے والے مریضوں کو دیکھا جن میں بچے بوڑھے اور جوان ہر عمر کے لوگ شامل تھے۔ مشاہدے کے بعد یہ اندازہ ہوا کہ وقت حاضرہ کے حساب سے یہ شعبہ کتنا اہم ہے۔کیونکہ ہماری ہڈیاں جوڑ اور مسلز  وہ نہیں ہیں جو زمانہء قدیم لوگوں کے ہوا کرتے تھے، سخت ضدی اور اڑیل۔ اب تو ہمارا یہ حال ہے چلتے چلتے گر گئے، ہڈی کریک، کروٹ بدلتے ہوئے مسلز دب گئے۔تھوڑا سا وزن اٹھا لیا تو کمر نے ناراضگی کا اظہار کردیا۔ ریڑھ کی ہڈی کے مہرے ہل گئے۔ کبھی گردن میں درد ، کبھی پٹھوں میں کبھی سر میں کبھی ٹانگوں میں ، کبھی پاؤں کی انگلیاں ٹیڑھی کبھی ہاتھوں کی۔ یہ سارے مسائل عمر رسیدہ ہونے کے نہیں، بچے اور جوان بھی ان مسائل کی لپیٹ میں ہیں۔ یہ ہمارا اجتماعی دکھ ہے لہٰذا ہم اس کی وجوہات پر تبصرہ ضرور کریں گے۔

ناخالص چیزیں انسانی جسم کو گھن کی طرح کھا رہی ہیں،کیا دودھ والے کو کوئی دودھ کی تیاری سے روک سکتا ہے جو منوں دودھ تیار کرکے روزانہ بیچتا ہے۔ایک تو جانوروں کی خوراک صحیح نہیں ہوتی۔ کھادیں زرعی ادویات اور سپرے اشیائے خوردنی کو زہریلا کر رہی ہیں۔ جو کسر رہ جاتی ہے وہ ہم ملاوٹ کرکے پوری کر لیتے ہیں۔تمام مصالحہ جات، گھی، چینی گندے پانی کی سبزیاں، باسی فروٹ، حرام اور مردار گوشت تمام کیمیکلز والی اشیائے خوردنی پانی اور آٹے نمک سے لے کر کوئی ایسی چیز نہیں جو خالص مل جاتی ہو۔

ہم  کس  کو  دوش  دیں ؟  کیا  ہم یہ  سب  غربت سے مجبور ہوکر کر رہے؟  اگر ایسا ہے  تو زندگی کے تقاضے پورے کرنے کے لئے یہ بہیمانہ فعل صرف غریب سے سرزد ہوتے  مگر  یہاں  تو  الٹی گنگا  بہہ رہی ہے۔ جو جتنا امیر ہے اس کے کرتوت اتنے ہی گھناؤنے ہیں۔ دامن بچانے والے تو انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔شروعات حکومتوں سے ہوتی ہیں۔ تربیت عوام کی ہوجاتی ہے۔ انجام میں سارے بے گناہ بھی شامل ہو جاتے ہیں۔ ہم گڑھا  دوسروں کے لئے کھودتے ہیں، دوسرے ہمارے لئے کھودتے ہیں۔ ہم سب مل کر اس دھرتی پر ظلم کر رہے ہیں۔ ہر غلط کار یہ گمان رکھتا ہے کہ نقصان تو لوگوں کا ہے میں تو پیسے کما رہا ہوں۔

حالات حاضرہ کا دریچہ کھولیں تو اپنے ہی بھائی بندوں کے سیاہ چہرے نظر آئیں گے جن کو دوسروں کے رنگے ہوئے ہاتھوں کو دیکھ کر اپنے رنگ نظر آجاتے ہیں تو وہ اپنی زبان سی لیتے ہیں۔ مردہ مرغیوں سے بھری ہوئی سوزوکی جب کسی شوارمےیا پیزا پوائنٹ کے سامنے جا کر رکتی ہے اور  آدھی قیمت پر بکنے والے اس مرغی کو کتنے لوگ ہیں جو دیکھ کر آنکھیں موند لیتے ہیں ان کی زبانیں گنگ ہوجاتی ہیں۔ چند مہینے پہلے گوشت والی دکانوں پر چھاپے پڑھے تو بے شمار دکانوں سے بیمار ناقص مردار گوشت کتے اور گدھے کا گوشت برآمد ہوا۔ موٹر وے سے برآمد ہونے والے کباب بیچنے والے مجرم نے اعتراف کیا کہ وہ بہت سالوں سے موٹروے پر کتے کے گوشت کے کباب فراہم کر رہا ہے. پھر کیا ہوا؟ چاردن ان کی دکانیں بند کی گئیں۔ یہ سب کچھ معمول پر آ گیا۔

آج بھی تفریح گاہوں میں، ہوٹلوں اور کینٹینوں میں کھانے والوں کا اتنا ہی رش ہے۔ اس قوم کی عقل پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے جو صاف اور پاک چیزوں کو چھوڑ کر ناپاک اور غلیظ چیزوں کو پسند کرتے ہیں۔ اللہ تعالی نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا اور ان ادنی جانوروں کو انسان کی خدمت کے لیے پیدا کیا لیکن ہم نے اپنے آپ کو گندگی کے گڑھے میں گرادیا اور حرام جانوروں کو اتنی عزت دی کہ ان کو حلال جانوروں کے مدمقابل لا کھڑا کیا۔ یہ سب فاسٹ فوڈ پیزہ شوارمہ ، ڈرم اسٹکس سب ہاتھوں ہاتھ بک رہا ہے۔مردار اور حرام گوشت ہمارے پیٹوں میں جاتا ہے۔ہم پھر بھی زندہ ہیں، غلیظ خون ہماری رگوں میں دوڑ رہا ہے۔ ہم اپنے پیٹوں میں غلاظت بھر کر زبان کے چٹورے پن کو تسکین دے لیتے ہیں پھر مردہ ضمیر کے ساتھ اکڑتے ہوئے  چلتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہم کس سے شکوہ کریں۔ اس نگری میں سب گونگے بہرے اور اندھے ہوچکے ہیں۔ ہوس کے بھوت نے ہمیں ہماری اسلامی روایات سے نا آشنا کر دیا ہے۔ ہم ذلت کے اس گڑھے میں ہیں جہاں سے نکلنا ناگزیر ہے ورنہ ہماری نسلیں برباد ہوجائیں گی۔ سیاہ کار اپنے ہاتھوں میں برچھا تانے ملک کے چپے چپے میں اپنے دھندوں میں مصروف ہیں۔ ظلم، ہوس، لالچ بے ایمانی کا زہر ہمارے جسموں میں تحلیل ہو کر ہمیں مفلوج کر رہا ہے۔

Facebook Comments

نسرین چیمہ
سوچیں بہت ہیں مگر قلم سے آشتی اتنی بھی نہیں، میں کیا ہوں کیا پہچان ہے میری، آگہی اتنی بھی نہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply