تیرے آزار کا چارہ نہیں نشتر کے سوا۔۔رفعت علوی/قسط4

سرخ سویرے کے خوں آشام سائے میں دست صبا کی دستک سے کھلنے والے دریچہ الفت کی کہانی۔

اس دن بھی آئیون بپھرا ھوا تھا، اسے شکایت تھی کہ اس کو راشنگ کی وجہ سے پیٹ بھر کھانا نہیں ملتا اور انقلابی حکومت پرولتاری نہیں بلکہ اب بھی بورژوا ھے، صوفیا نے اس کو چپ کرانے کی کوشش کی تو اس کے غصے کا رخ صوفیا کی طرف ھوگیا، فحش گالیاں، بے وفائی کے طعنے کیا کیا کچھ نہ کہہ ڈالا، اس کے آس پاس کھڑے لوگوں کے چہرے خوف سے سفید پڑ گئے تھے کیونکہ انقلاب کے خلاف بولنا بغاوت کے زمرے میں آتا تھا اور اس پر سخت سزائیں دی جاتی تھیں۔خفیہ پولیس “چیکا” کے سفاک اور بےرحم فوجی اس قسم کی باتوں کو انقلاب دشمن قرار دے چکے تھے اور نہایت سنگ دلی و بے رحمی سے آدمی کو اٹھا کر لے جاتے اور پھر اسکا کبھی پتا نہ چلتا، آئیون زرا دیر بعد وہ خود ہی چیخ چلا کر خاموش ھوگیا کیونکہ مارے خوف کے سب ہی لوگ اس کے پاس سے بھاگ گئے تھے،
شہر سے اکثر فوجی اور لیڈر میخائل کے گاؤں آتے وہ سادہ لوح کسانوں کے سامنے بڑے بڑے الفاظ بولتے اور کہتے کہ روسی انقلاب ترقی پسند قوتوں کے لئے انسانی تار یخ میں ایک نئی صبح کی نوید ھے، مگر یہ انقلاب سرمایہ دار قوتوں اور رجعت پسندوں کے لئے یہ خارِ گلل بھی ھے اور اس انقلاب کو شکست دینے کے لئے تمام دنیا کی سرمایہ دار قوتیں اکٹھی ہو گئیں، ھم سب کو ایک ھوکر انکو شکست دینا ھے
مگر انکے یہ بلند و بانگ دعوے لن ترانیاں یہ سب ایک بھیانک خواب ھوتے جا رھے تھے، گھر کی چار دیواری میں بیٹھ کر وائن کے گھونٹ بھرتے ھوئے انقلاب کی باتیں کرنا، رخسار کے خم اور کاکل کی شاعری کرنا کچھ اور ھوتا ھے اور حقیقی زندگی میں انقلاب کا سامنا کرنا کچھ اور، اس میں خون کے دریا اترنا پڑتے ھیں، موت کے لپکتے شعلوں میں یہ مینا ساغر شیشے لعل و گہر سب دھرے رہ جاتے ھیں،
انقلاب کی تہطیر کے نام پر چیکا کی دست طرازیاں اور انسانی استحصال کا تندور دہک رھا تھا، روس کے اُس دور دراز علاقے میں بھی یہ مشہور تھا کہ وہ لوگ جو چیکا کی گرفت میں آجاتے ھیں انکی زندگیاں یا تو سائبیریا کے یخ بستہ صعوبت خانوں میں ایڑیاں رگڑتے رگڑتے گذر جاتی ھے یا پھر ماسکو کے سرخ چوک کے ایک چبوترے پر انکے سر قلم کر دئیے جاتے ھیں
میخائل اور اسکے ساتھی کاشتکاروں نے ان کی ظلم و بربریت کا نمونہ اسی رات دیکھ لیا، طوق دار و رسن کا منظر۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس رات گھٹا ٹوپ اندھیرے میں جب سب محنت کش تھک ھار کے اپنے اپنے کمروں میں جا چکے تھے، بپھری ھوئی سرد ھواؤں کے جھونکوں سے کھڑکیوں پر سیٹاں بج رہی تھیں، صبح سے بھیڑ کے بالوں جیسے سپید بادل بھورے ھو کر اب کالے دیو کی رنگت اختیار کرکے امنڈ آئے تھے برفباری شروع ھوچکی تھی کہ رھائشی بیرکس کے باھر بھاری ٹرکوں کی آوازیں آنے لگیں، سب لوگ خوف اور دہشت سے سکڑے سمٹےاپنے نمدوں اور کمبلوں میں پڑے رھے، میخائیل اور صوفیا کو یقین ھو گیا کہ آئیون کے باغیانہ جملے فوج تک پہنچ چکے ھیں کیونکہ “چیکا” خفیہ پولیس سرخ دہشت موت کی علامت تھی اور اس کے جاسوس ھر جگہ موجود ھوتے تھے، پورے گاؤں میں چاروں طرف ایک سناٹا چھا گیا۔
پھر بھاری بوٹوں کی آوازیں آنے لگیں اور رائفلیں کھڑکھڑانے لگیں، میخائل نے ایک کھڑکی کے روزن سے باھر جھانکا، اندھیرے میں فوجیوں کا ایک گروپ ٹارچ کی روشنی میں بیرکس نمبر پڑھنے کی کوشش کر رھا تھا، وہ سانس روکے ساکت اور جامد کھڑا باھر دیکھتا رھا، سپاھیوں نے ویلیری بورسینوف کے کمرے کے دروازے پر زور دار ٹھوکر ماری، اور کسی نے چلا کے کہا پبلکھونو زیاوٹ (باھر آؤ)۔۔۔۔۔۔۔
چرچرا کر دروازہ کھلنے کی آواز آئی پھر اندر سے سہما سمٹا کانپتا ٹھٹھرتا ولیری برامد ھوا، بجلی کی کڑک اور چمک میں اس کا خوفزدہ چہرہ مسخ ھو رھا تھا، ننگے گھٹنے کانپ رھے تھے اور پیر جوتوں سے محروم تھے، فوجیوں نے اسے گردن سے پکڑا اور ٹھوکریں مارتے ھوئے ٹرک کی طرف لے جانے لگے، راستے میں وہ زمین پر گر کر چیخنے چلانے لگا اور اپنے کسی ناکردہ قصور کی صفائی دینے لگا، بادلوں کی گرج چمک میں صرف اس کے رونے اور چلانے کی آواز ہی آرہی تھی اور سمجھ میں نہیں آ رھا تھا کہ اس نے کیا کہا ھے
اسی وقت کسی بھاری انجن کی گھڑگھڑاھٹ سنائی دی جیسے سڑک کوٹنے والا انجن چلا آرھا ھو، بجلی ایک بار پھر چمکی اور میخائل نے ایک مہیب ٹینک اندھیرے سے نکل کر سامنے آتے دیکھا جسکی لمبی سیاہ نال اس کی بیرکس کی طرف اٹھی ھوئی تھی، میخائل کا چہرہ خوف سے سپید پڑ گیا، انجنوں کی گڑگڑاھٹ اور بادلوں کی گرج کے پس منظر میں کسی بیرک کا دروازہ زور سے کھل کر بند ھوا اور ایک طویل القامت آدمی لمبا اوور کوٹ پہنے سردی سے بچنے کے لئے چہرے پر ھڈ لگائے لاٹھی ٹیکتا ھوا آگے بڑھا
اسٹوئے۔ (ھالٹ)۔۔۔۔۔سپاہی چلائے
کوٹورے پریکھوڈیاٹ سیوڈا (ھو کمس ھیئر)؟۔۔۔۔۔۔
کامریڈ سیوڈا۔۔۔(کامریڈ ھیئر) ۔۔۔۔۔نووارد نے جوابا” کہا۔
پھر کسی سپاہی نے بندوق کے بٹ پر ھاتھ مار کر اس نووارد کو سلوٹ کیا
اسی وقت میخائل نے محسوس کیا کہ صوفیا بھی اسکے پیچھے آکھڑی ھوئی ھے اور اس کے کندھے کے اوپر سے باھر کے مناظر دیکھ رہی ھے
اس نووارد کی آمد سے سپاھیوں کا تشدد رک گیا اور انھوں نے ولیری کو پکڑ کر کھڑا کیا، بجلی زورسے چمکی اور پورا علاقہ نیلی روشنی میں نہا گیا، ٹرک کے اندر سے کسی نے چلا کے کچھ پوچھا اور ٹرک کی اگلی سیٹ سے ایک آفیسر اتر کر انکے پاس آیا، اس نے پہلےبتو نو وارد سے ھاتھ ملایا پھر ولیری کے لہولہان چہرے پر ٹارچ کی روشنی ڈالی، ولیری گڑگڑا کر دھائیاں دینے لگا
آفیسر نے فوجیوں کو اس کو چھوڑ دینے کا اشارا کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور وہ روتا، گرتا پڑتا اپنے کمرے کی طرف بھاگا جس کے دروازے پر اس کے بیوی بچے کھڑے خوف سے تھر تھر کانپ رھے تھے،
اسی وقت ٹینک پر لگی ھوئی سرچ لائٹ روشن ھوئی اور اور اسکا دائرہ گھومتا ھوا سب کے سروں پر سے گذر گیا، ایک کڑاکا ھوا بجلی کی چمک میں باھر موجود لوگوں کے چہرے روشنی میں نہا گئے
تیمور!!!!۔۔۔۔صوفیا سرسراتی آواز میں بولی۔۔۔۔۔۔مسیح کی قسم یہ لمبا آدمی تیمور ھے، اب میخائل نے کانوں تک ھڈ میں منہ چھپائے اس آدمی کی طرف دیکھا جو لکڑی ٹیکتا ھوا واپس اپنے بیرک کی طرف جارھا تھا اور اس کے پاؤں میں لنگڑاھٹ تھی
فوجیوں کی اس طرح کی آمد کوئی نئی بات نہیں تھی، یہ یہاں کا روزمرہ کا معمول تھا، یہ دہشت انقلاب کا ثمر تھی، میخائل اور صوفیا نے اطمینان کا سانس لے کر آئیون کی طرف دیکھا جو سکڑا سمٹا شراب کے نشے میں دھت باھر کی دنیا سے بےخبر سو رھا تھا اور اس کے منہ سے رال ٹپک ٹپک کر تکیہ گیلا کر رہی تھی
صوفیا نے کراھت سے اور میخائل نے ھمدردی سے اس کی طرف دیکھا، گو دونوں کے جذبات الگ تھے مگر وہ دونوں ہی خوش تھے کہ آئیون چیکا کی گرفت سے بچ گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
جنگی صعوبتوں اور تباکاریوں نے انسانوں کو کتناخود غرض بنا دیا تھا۔
مگر اس میں انکا کوئی دوش نہ تھا یہ خیالات پر قید، جذبات پر زنجیروں، اور گفتار پر تعزیروں کا شاخسانہ تھا، چارسو نوحہ کناں تھے بکھرے ہوۓ خواب، موسم گل کی تمنا میں سسکتے ہوۓ خواب، غارت صرصر حالات کے جھلسے ہوۓ خواب، کہیں جمتی ہی سوچیں،کہیں ٹھٹھرے ہوۓ خواب۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Facebook Comments

رفعت علوی
لکھاری،افسانہ نگار

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”تیرے آزار کا چارہ نہیں نشتر کے سوا۔۔رفعت علوی/قسط4

Leave a Reply