ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے

اگر ایک شخص اپنے ساتھیوں کو کامیاب کرواتا ہے تو صرف اس کے ساتھی کامیاب نہیں ہوتےبلکہ وہ خود بھی کامیاب ہوتا ہے ، بندےکے ساتھ جڑے ہوئے لوگوں کی کامیابی اصل میں اس کی کامیابی ہوتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں یہ نظریہ پایا جاتاہے کسی کو کامیاب نہیں کروانا بلکہ خود کامیاب ہونا ہے کیو نکہ جب میں آگےہوں گا تو سب میرے پیچھے ہوں گے اسی لیے لوگ دوسروں کی مدد کرتے نظر نہیں آتے۔
کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ دو ٹیموں کے درمیان میچ ہو رہا ہوتاہے ایک ٹیم ہارتے ہارتے میچ جیت جاتی ہے اس جیت میں کسی ایک کھلاڑی کا کردار اہم ہوتا ہے وہی کھلاڑی گیم چینجرر کہلاتا ہے۔ اسی طرح کسی بھی معاشرے میں استاد ایک گیم چینجر ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے یہ صلاحیت دی ہوتی ہے کہ وہ ہاری ہوئی گیم جتوا دیتا ہے۔ کیو نکہ ایک اچھا استادامید دیتا ہے، تصورات میں لے جاتا ہے پھر ان تصورات کو حقیقت میں بدلنا سکھاتا ہے ،علم کو تصاویر کی صورت میں ذہن نشین کرواتا ہے اور سیکھنے کی طرف لے کر جاتا ہے ۔ استاد کو بچے کا رول ماڈل ہونا چاہیے ،کیونکہ جو رول ماڈل ہوتا ہے اس کی بات زیادہ سمجھ آتی ہے ۔ انسان کا ذہن تصاویر میں سوچتا ہے ، یہ ماضی کو تصویروں میں دیکھتا ہے، حال کو تصویروں میں دیکھتا ہے اور مستقبل کو بھی تصویروں میں دیکھتا ہے ، جو بندہ زیادہ تصورات میں رہتا ہے وہ زیادہ کامیاب ہوتا ہے ۔ دنیا میں بہت سارے لوگ سیرکرنے کے لیے ڈزنی لینڈ جاتےہیں ، ڈزنی لینڈ وال ڈزنی کی تصوراتی تخلیق ہے اگر اس نے یہ سوچا نہ ہوتا ہے تو یہ کبھی نہ بن پاتا ، و ہ اپنے پورے وقت کا 33فیصد صرف ذہن میں تصاویر بنانے میں صرف کرتا تھا ،وہ کہتا تھا کہ بڑا انسان اگر تصویر کو نہیں سوچتا تو وہ کرافٹ بھی نہیں کر سکتا ۔ ہم کہتے ہیں ایک دفعہ کام ہوجائے پھر دیکھا جائےگا ،لیکن دنیا میں کامیابی کا اصول یہ ہے کہ پہلے ذہن میں خاکہ بنے ، پھر جنونی رویہ ہو اور پھر کام کیا جائے ۔ آئن سٹائن کہتا ہے دنیا میں وہ شخص زیادہ نقصان اٹھاتا ہے جو سوچے بغیر کام کرتا ہے یا پھر وہ جو سوچتا ہی رہتا ہے کام نہیں کرتاوہ بھی زیادہ نقصان اٹھاتا ہے ۔
اگر استاد بچے میں تصورات کی دنیا کو نہیں ابھارتا ،یعنی اس کے ذہن میں روشن مستقبل کی تصاویر نہیں بناتا تووہ استاد نہیں ہے ،کیونکہ استاد کا کام صرف علم دینا نہیں ہوتا بلکہ علم کی پیاس دینا بھی ہوتا ہے ،جب بچے میں علم کی پیاس ہوگی وہ تلاش کرے گا ، تحقیق کرے گا ، سوال لے کر گھومے گا ۔ استاد کا کام ہوتا ہے کہ وہ بچے کو اس کے مقصد تک پہنچائے ۔دنیا میں سب سے عظیم استاد رسول کریم ﷺ کی ذات مبارک ہے ۔آپ ﷺ کی ذات گرامی کے اتنے پہلوہیں کہ اگر ان کو بیان کیا جائے تو بندہ بیان کر کر کے تھک جائے گا لیکن آپﷺ کے پہلو بیان نہیں ہو پائیں گے۔ یہ آپﷺ کی ذات گرامی کی تعلیم تھی کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ممبر پر بیٹھ کر فر ماتےہیں ’’عمر عمرفاروق (رضی اللہ عنہ ) نہ ہوتا اگر اس کی زندگی میں محمد مصطفیﷺ جیسا استاد نہ ہوتا ‘‘ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ اسلام لانے سے پہلے بھی غنی ہوں گے لیکن جو سخاوت آپ رضی اللہ عنہ نے اسلام لانے کے بعد عشق مصطفےﷺ یا محبت خدا میں کی اس کی مثال دنیا میں نہیں ملتی ، دنیا کا کوئی بھی شخص چاہے کتنا ہی غنی کیوں نہ ہو جائے لیکن آپ رضی اللہ عنہ کے قدموں کی خاک کو بھی نہیں پہنچ سکتا ، ساری دنیا کے لوگوں کی شجاعت کو اکٹھا بھی کر لیا جائے لیکن حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ جیسی شجاعت نہیں لائی جاسکتی۔ اس کی وجہ استاد کا کما ل ہے کہ اس نے زمین سے اٹھا کر آسمان تک پہنچادیا ۔آئن سٹائن کہتا ہے دنیا کی تعلیم اور دنیا کے استاد عجیب ہیں وہ مچھلی کو پکڑتےہیں اور درخت پر چڑھنا سکھانا شروع کر دیتےہیں ۔
کتاب ایک معاون چیز ہے ، مدد گار ہے، پڑھانے کا حصہ ہے لیکن حرف آخر نہیں ہے ۔جبکہ اصل چیز یہ ہے دل سے کتنی کوشش کی ہے ۔ اگر برف دستانے پہن کر بیچی جائے تو برف کی ٹھنڈک محسوس نہیں ہو گی دنیا کا خوش قسمت ترین انسان وہ ہے جس کی بر ف نے کسی کے پانی کو ٹھنڈا کردیا۔ اگر ہماری صلاحیت نے کسی کے پانی کو ٹھنڈا کر دیا تو کاوش قبول ہو جائے گی۔
ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے
آتے ہیں جو کام دوسروں کے

Facebook Comments

محمد اسامہ خان
طالب علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply