احترام رمضان آرڈیننس

رمضان المبارک کی آمد قریب ہے اور ساتھ ہی سوشل میڈیا پر احترامِ رمضان آرڈیننس کے حوالے سے گرما گرم بحث کا سلسلہ بھی جاری ہے. اس آرڈیننس کی حمایت اور مخالفت میں فریقین نے دلائل کا انبار تو لگایا مگر کچھ جگہوں پر یہ بحث دلائل کی حد سے نکل کر انا پرستی کے دائرے میں شامل ہو گئی۔ احترام رمضان آرڈیننس کے حمائتیوں کا ماننا ہے کہ روزہ دین اسلام سمیت بیشتر ادیان کا ایک اہم رکن ہے اور رمضان المبارک کے دوران اگر اس حکم کا احترام ایک اسلامی ملک میں ہی نہیں کیا جائے گا تو باقی دنیا سے کیا توقع کی جا سکتی ہے۔رمضان المبارک میں روزہ رکھنا اللہ تعالی ٰکی طرف سے ایک حکم ہے اور کی سرعام بے حرمتی کرنے والے کو بزور بازو روکنا اور سزا دینا ریاست کا فرض ہے تاکہ باقی مسلمان کسی تکلیف، پریشانی اور اضطراب کے بغیر اس حکم الہٰی کی تعمیل کر سکیں۔ مجبکہ دوسرا نقطہ نظر ہے کہ روزہ بھی دوسری عبادات کی طرح ایک عبادت ہے اور ہر شخص اس امر میں آزاد ہے کہ وہ اللہ کی کتنی عبادت کرتا ہے۔. روزہ رکھنا یا نہ رکھنا ہر شخص کا ذاتی فیصلہ ہے اور چونکہ اس کا یہ فیصلہ معاشرے پر بحیثیت مجموعی کوئی برا اثر نہیں ڈالتا اس لئے ریاست کو بھی حق حاصل نہیں کہ زبردستی کسی کو سر عام کھانے پینے سے روک سکے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ شدید گرمی کے باعث چونکہ ہیٹ سٹروک کا خطرہ سر پر منڈلا رہا ہے لہٰذا ایسی حالت میں اس آرڈیننس کا نفاذ ظلم ہے. اس کے علاوہ مریض اورضعیف العمر حضرات پر اس باپندی کا اطلاق بھی مضحکہ خیز ہے۔
اب اس ساری صورتحال کا جائزہ لیں تو آپ محسوس کریں گے کہ یہ ساری بحث اصلاً ہمارے معاشرے کی اخلاقی گراوٹ کی عکاس ہے۔ ہمیں اپنے اور اپنے عید تہواروں کے لئے احترام چھیننا پڑ رہا ہے. ہمارا ایمان اس درجے پر ہے جو سموسہ کھاتے شخص کو دیکھ کر لڑکھڑا جاتا ہے. دوسری طرف ہم رمضان المبارک کے دوران بیچ چوراہے کھڑا ہو کر کھانے پر اصرار کر رہے ہیں. شاید ہمارے معاشرے میں احترام رمضان نہیں بلکہ احترام انسان کا فقدان ہے. ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم ” کُل“ کو مکمل طور پر نظر انداز کر کے ”جُز“ کی اصلاح میں لگے ہوئے ہیں. ہم ادراک نہیں کر پا رہے کہ ہمارے وقت کے گھڑیال کی پوری مشینری کو زنگ لگ چکا ہے. اور ہم اس کی اوور ہالنگ کی بجائے سویوں کو صاف کر کر کے چمکا رہے ہیں. احترام رمضان کی ایک ہی غراری کو مشین آئل سے لت پت کر کے گھڑیال سے امید کر رہے ہیں کہ ہمیں درست وقت دکھائے گا. ہم یہ دیکھ ہی نہیں پا رہے کہ ہمارے گھڑیال کا پرزہ پرزہ زنگ آلود اور بوسیدہ ہو چکا ہے جس پر نفرت اور عدم احترام کی تہ جم چکی ہے. اور جب تک اسے کُھرچ کُھرچ کر صاف نہ کیا گیا ہمارا وقت خراب ہی رہے گا.

Advertisements
julia rana solicitors

آپ صرف احترام رمضان کی بات کرتے ہیں جبکہ ہمیں تو سیرت نبیؐ سے احترام انسان جیسے بنیادی فلسفے کا سبق ملتا ہے. چاہے وہ کوئی مسلمان ہو یا مشرک, صاحب دستار ہو یا کوئی غریب مزدور, دانشور ہو یا ذہنی معذور. احترام انسان تو یہ ہے کہ جب گھر میں کوئی اچھا سالن بنائیں تو شوربہ تھوڑا زیادہ کر لیں اور پڑوسی کو بھی اس میں سے کچھ حصہ بھیج دیں، احترام انسان یہ ہے کہ پھل کھا کر چھلکے بھی ایسی جگہ نہ پھینکیں جہاں کسی غریب کا بچہ اسے حسرت سے دیکھے، احترام انسان یہ ہے کہ غیر مسلم کا جنازہ دیکھ کر بھی کائنات کی عظیم ترین ہستی اپنی جگہ سے کھڑی ہو جائے. احترام انسان یہ ہے کہ نبی خدا اپنی بیٹی کے استقبال کے لئے اپنی چادر بچھا دے. احترام انسان یہ ہے کہ خدا کا محبوب نبؐی تپتی زمین اور سخت دھوپ میں گھنٹوں کھڑا ایک پاگل بڑھیا کی باتیں سنتا رہے. اور جواز یہ پیش کرئے کہ اگر اس کی میں نہیں سنوں گا تو کون سنے گا.
یہ احترام انسان کی چند مثالیں ہیں جبکہ سیرت نبؐی ان واقعات سے بھری ہوئی ہے. اس وقت مدینہ میں یہود و نصاری کی موجودگی کے باوجود احترام رمضان جیسے آرڈیننس تو نہیں تھے لیکن فضا احترام انسان کی خوشبو سے مخمور تھی. یہ سارا ادب و احترام ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ہی ہمیں سکھایا ہے. جس دن ہم نے یہ کھویا ہوا احترام انسانیت واپس پا لیا اس دن ہمیں احترام رمضان جیسے آرڈیننس کی بالکل ضرورت نہیں ہو گی. کیونکہ جس انسان کا احترام دل میں آ جائے پھر اس کی عید, شب برات, رمضان اور تہوار سب کا احترام دل میں سما جاتا ہے۔

Facebook Comments

احمد عمیر اختر
مکالمہ کو دنیا کے تمام مسائل کا حل اور گولی, گالی کو مسائل کی جڑ سمجھتا ہوں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply