• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • نقاب،غلط سمت میں بھاگنے والے آج تک بھاگ رہے ہیں۔۔اسد مفتی

نقاب،غلط سمت میں بھاگنے والے آج تک بھاگ رہے ہیں۔۔اسد مفتی

ہالینڈ ، فرانس ،بیلجئم، سپین اور اٹلی کے بعد اب سوئٹزر لینڈ میں بھی برقعہ پر پابند ی عائد کردی گئی ہے۔ سوئٹزر لینڈ یورپ کا چھٹا ملک ہے جہا ں پر برقعے پر پابندی عائد کی دی گئی ہے۔ دائیں بازو کی جماعت نے یہ قراد داد پیش کی جس کی تائید میں 102 ووٹ ملے جبکہ 75 ارکان پارلیمنٹ نے اس قرار دار کی مخالفت کی، اب اس وادیوں ،پہاڑوں ،پھولوں اور چاکلیٹ کی شہرت رکھنے والے اس خوبصورت ملک میں پبلک مقامات ،بسوں ،شاپنگ سنٹروں اور ٹرانسپورٹ میں سفر کے دورن چہرہ ڈھانپنے پر جرمانہ کی سزا ہوگی۔
پاکستانی معاشرے میں جو پیچیدگیاں اور غلط روایات در آئیں ہیں بدقسمتی سے ان پر کم توجہ دی گئی ہے۔

مثال کے طور پر برقعہ اور نقاب یا پردے کے مفہوم کو لیجئے کہ آج کل پورے معاشرے اور حکومتی ایوانوں میں یہ مسئلہ موضوع بحث بنا ہوا ہے ۔اسے پوری طرح سلجھانا تو خیر ایک طرف ٹھہرا بہت کم اہل علم ایسے ہیں جنہوں نے اس گتھی کو سلجھانے کی کوشش کی ہے۔ ۔ کسی چیز کا جائز یا ناجائز کہہ کر الگ ہوجانا تو صرف فتویٰ ہے مگر آج کے دور میں حل تلاش کرنے کی الیکٹرونک سہولیات کی وجہ سے کام صرف فتوے سے نہیں نہیں چلتا ۔ضرورت ہے مشکلات اور مسائل کے حل کی تلاش کرنے کی۔

میرے حساب سے مشکلات کا مطلب یہ ہے کہ بعض اوقات ایک شرعی حکم پر عمل بہت دشوار ہوجاتا ہے ،اس وقت کوئی ایسی راہ تلاش کرنی پڑتی ہے کہ اس حکم کا احترام باقی رکھتے ہوئے یا اس پر زیادہ سے زیادہ عمل کرتے ہوئے جو خامیاں رہ جائیں ا ن کو دور کیا جاسکے یعنی سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے اور تعمیل حکم میں جو خلا رہ جائے وہ پُر ہوجائے۔ موجودہ زمانے میں پردہ نقاب ،حجاب وغیرہ کا مسئلہ اس قسم کی پیچیدگی سے دوچار ہے ۔ اس سلسلے میں جو سوالات اکثر مسلمانوں کے سامنے آئے ہیں ان سے  مشکل کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔مثلاً۔۔
1۔پردے اور نقاب و حجاب کی حدود اور کی غرض و غایت کیا ہے؟
2۔ کیا موجودہ پردہ اسلامی پردہ ہے؟ اور حجاب اور پردہ کن عورتوں کے لیے ضروری ہے؟
3۔ ہمارے موجودہ پردے میں کامیاں ہیں یا نہیں  ؟
4۔ کیا پردہ ہر حال میں واجب ہے؟

پردے سے متعلق اسلامی احکام سے کون باخبر نہیں ،مگر یہ مروجہ پردہ ہے ،یہ کیا اسلامی پردہ ہے ۔آنکھ والوں کے لیے سب سے بڑی نعمت اس سب سے بڑا فتنہ خود ان کی آنکھیں ہیں ، کیوں کہ تمام جنسی فتنے آنکھوں کی راہ ہمارے دل و دماغ میں پہنچ کر تحریک پیدا کرتے ہیں (نابینا افراد کی الگ بحث ہے) نگاہوں پر قابو رکھنا سب سے زیادہ دشوار ہے ۔اس لیے احادیث میں پہلی نظر کے لیے معاٖفی کا مژدہ سنایا گیا ہے۔ اگر نگاہوں پر افراد و معاشرہ قابو پالے تو پردے کے تمام مسائل خود بخود طے ہوجاتے ہیں ، لیکن جمال پسندی کی جڑیں انسانی فطرت میں اس طرح گڑی ہوئی ہیں کہ اس کا اکھڑنا دشوار تر ہے۔ “اپنی نظریں نیچی رکھو” اس سے یہ مطلب نہیں کہ اپنی نظریں ہر آن نیچی رکھو۔ ٹریفک سے بچنے کے لیے ،شناخت کے لیے۔ گھر میں آنے جانے والوں سے گفتگو کیجئے۔ کام کاج کے لیے۔ غرض کہ بہت سے ضروری مقاصد ہیں جن کے لیے پردے کو متحرک کرنا پڑے گا۔

ہمارے موجودہ زمانے کا پردہ اگر اسلامی پردے کا لازمی حصہ سمجھ لیا جائے ۔جس سے عورتوں کا چہرہ ڈھکا رہتا ہے، تو پھر مردوں کو نیچی نظر رکھنے کا “حکم “ کوئی مطلب نہیں رکھتا، دور ِ رسالت میں بلکہ خلافتِ راشدہ میں بھی اس قسم کے پردےکا کوئی سراغ نہیں ملتا۔غالباً امویوں کے آخر میں صرف ایسے نقاب یا حجاب کا وجود تھا جس میں آنکھیں اور ناک یا فیشن شروع ہوا۔ قرآن نے صرف گھونگھٹ نکالنے کا حکم دیا ہے۔ عورتوں کے پردہ کرنے کی ضرورت پر یہ دلیل دی جاتی ہے کہ چہرہ کھلا رکھنے یا پھر گھونگھٹ نکالنے کا حکم اس صورت میں ہوگا کہ مردوں کی طرف نظریں نیچی رکھنا ضروری ہو اور جب مرد ہی اپنی نظریں نیچی نہیں رکھ سکتے تو پھر اس کا علاج چہرہ چھپانا ہی ہے ،گویا چہرہ کھلا رکھنےکی اجازت حالات کے بدلنے سے عدم جواز میں بھی تبدیل ہوسکتی ہے، لیکن یہ دلائل کچھ وزنی نہیں کیوں کہ یہ تو کوئی بات نہ ہوئی کہ قصور تو مردوں کا ہو اور اس کی سزا  دی  جائے عورتوں کو کہ تم اپنے گھرں کے اندر بند ہوجاؤ، یا نقاب اوڑھ لو، سزا  دینا ہے تو ا ن مردوں کو دیجئے ۔جو اپنی نظریں نیچی نہیں رکھ سکتے ۔

اب رہ گئی بات اونائے جلباب یعنی گھونگھٹ نکالنے کی ۔۔یہ حکم اس لیے ہوا کہ اس سے مسلمان عورتیں پہچان لی جائیں گی اور چھیر خانی سے محفوظ رہیں گی۔ لیکن کشور حسین شاد باد میں تو 98 فیصد عورتیں ہیں ،یہاں تو یہ مسئلہ پیدا نہیں ہوگا ۔
حکم کے مواقع گھر کے اندر بھی پیش آسکتے ہیں ۔ وہ یوں کہ جن لوگوں کا ذکر “محرم” کے ذمرے میں آتا ہے ان کے علاوہ اور کسی کو ضرورت سے آنا پڑے تو عورت کو گھر کے اندر بھی گھونگھٹ نکال لینا چاہیے کہ فتنے اور چھیڑ خانی یہاں بھی ہوسکتی ہے، لیکن دراصل اس کا حکم بیرون خانہ ہے ۔ہزاروں ضروریات ایسی پیش آسکتی ہیں جن کے لیے عورتوں کو گھر سے باہر نکلنا پڑے، سکولز۔کالج کے لیے۔خرید و فروخت کے لیے۔ عبات کے لیے، سیر و تفریح کے لیے۔ تعلیم و ترقی کے لیے۔ کھیتی باڑی کے لیے۔ جنگی خدمات کے لیے ،سب کاموں کے لیے عورتوں کو گھر سے باہر نکلنا پڑ سکتا ہے ۔عہد نبوی سے پہلے ،عہد نبوی کے دوران اور عہد نبوی کے بعد بھی یہ ضرورتیں پیش آتی رہی  ہیں  اور آتی رہیں گی۔ اس لیے نقاب،حجاب ،یا گھونگھٹ نکالنے کا جواز بھی آج کے دور میں رد  ہوا ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پردہ اصل میں انہی عورتوں کے لیے ہے جن سے یا جن کو خطرات لا حق ہوں، خطرہ جس شدت کا ہوگا حجاب کا حکم بھی اتنی ہی شدت اختیار کرے گا۔ اور خطرے میں جتنی بھی خفت ہوگی، حکم کی گرفت   بھی اتنی ہی خفیف ہوجائے گی۔ یعنی خطرہ اگر ان محرموں سے بھی ہو گا جن سے پردہ یا حجاب نہیں تو وہاں بھی پردہ کرا دینا چاہیے۔ سوتیلا باپ، سوتیلا بیٹا۔ باپ بھانجا۔ بھتیجا، وغیرہ وغیرہ، وہ محرم ہیں  جن سے نکاح جائز نہیں ، لیکن اگر نیتوں میں فتور پید اہوجائے تو ان سے بھی حجاب یا پردہ کرنا چاہیے۔ کہ نیتوں کا علم صرف خدا ہی نہیں اس کے نائب بھی جانتے ہیں۔
ہم نے بنایا قفس کو آشیاں۔۔
یہ دیکھنا ہے گرتی ہے اب بجلیاں کہاں!

Facebook Comments

اسد مفتی
اسد مفتی سینیئر صحافی، استاد اور معروف کالم نویس ہیں۔ آپ ہالینڈ میں مقیم ہیں اور روزنامہ جنگ سے وابستہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply