پروڈا، ایبڈو، پوڈو اور عدالت

بے انصاف اور ظالم کو اللہ ہدایت بھی نہیں دیتا .البقرة.

“آپ جانتے ھیں کہ جس بے مثل طوفانی انقلاب کے زریعے اس بر صغیر میں دو آزاد خود مختار مملکتیں معرض وجود میں آئیں ہیں, اس سے نہ صرف ہم بلکہ پوری دنیا متحیر ھے. یہ عظیم برصغیر کہ جس میں ہر قسم کے لوگ آ باد ہیں میں یہ مملکت ایک ایسے منصوبے کے تحت عمل میں لائی گئی ھے جو انتہائی نایاب و بے مثال ہے اور اس ضمن میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم نے یہ سب کچھ پر امن طریقے سے اور عظیم تدریجی ارتقآ سے حاصل کیا ہے.
یاد رکھئیے آپ ایک قانون ساز، خود مختار اور ذمہ دار ادارہ ہیں، اور یہ بہت اہم ہے کہ آپ فیصلے کس طرح کرتے ہیں.پہلی بات جو میں کہنا چاہوں گا اور آپ مجھ سے اتفاق بھی کریں گے،کہ ایک حکومت کا پہلا فریضہ مملکت میں امن بحال رکھنا ھے تاکہ وہ اپنے عوام کی جان و مال اور انکے مذہبی عقاید کو مکمل تحفظ دے سکے.
دوسری بات رشوت ستانی ،چور بازاری اور اقربا پروری جیسی لعنتیں بھی ہمیں ورثے میں ملی ھیں. انکو بھی سختی سے کچل دینا ہو گا. میں آپ پر یہ واضح کر دوں کہ نہ احباب پروری اور اقربا نوازی کو برداشت کروں گا اور نہ ہی کسی اثر ورسوخ کو جو مجھ پر بلواسطہ یا بلا واسطہ ڈالنے کی کوشش کی جائے گی قبول کروں گا. جہاں کہیں مجھے معلوم ہوا کہ یہ طریقہ کار رائج ھے خواہ یہ اعلی سطح پر ہو یا ادنی پر یقینی طور پر اسکو گوارا نہیں کروں گا.”
یہ الفاظ قائد اعظم رح کے 11اگست 1947 کو مجلس دستور ساز پاکستان کے پہلے صدر منتخب ہونے پر کیئے جانے والے خطاب سے منقول ھیں.

قائد کی زندگی کا رشتہ تو ہمارے ساتھ مختصر تھا ہی مگر انکے فرمودات اور نظریات کا رشتہ بھی ہمارے ساتھ خاصہ کمزور ثابت ہوا ہے۔ قائد کی زندگی میں ہی مسلم لیگی رہنماوں میں اختلافات کھل کر سامنے آنا شروع ہو گئیے تھے. کہیں اصولی اختلاف تو کہیں اقتدار کی رسہ کشی،ایک نوزائیدہ ریاست کی ترقی اور امور مملکت چلانے کیلیئے یہ کوئی ساز گار سیاسی ماحول نہ تھا. دریں اثنا وزیراعظم لیاقت علی خان اور پارٹی کے صدر خلیق الزمان بھی گاڑی کے دو ہموار پہئیے ثابت نہ ہو سکے اور نہ ہی دونوں عہدوں کو یکجا کر کے گاڑی پٹڑی پر چل سکی. لیگ ایک بے منزل کا کارواں بن گئی،نچلی سطح پر دیانت دار اور مقبول عام قیادت کا فقدان رہا .کہیں سے تنظیم میں نیئ روح پھونکنے کے وسائل دستیاب نہ تھے.

اس سنگین صور حال کو دیکھتے ہوئے ریاست کے امین شہید وزیر اعظم لیاقت علی خان صاحب نے اپنے ہی وزرآ اور سرکاری افسران کی بددیانتی ،رشوت ستانی اور اختیار کے نا جائز استعمال کو روکنے کیلیئے 1949 میں ایک قانون “پروڈا”، PUBLIC REPRESENTATIVE AND OFFICERS DISQUALIFICATION ACT پاس کروایا. لیکن شاید جس ورثے کا قائد نے ہمیں اپنے پہلی دستور ساز مجلس کے خطاب میں بتایا تھا اسکے قلع قمع کے بجائے ہم اسکے تنوع پر ہی آمادہ رھے. اور پھر آیندہ ایام میں ہماری جمہوری قیادتوں نے نہ صرف ایک پہلے نجات دہندہ بن کر آنے والے طالع آزما کی راہ ہموار کی بلکہ اسے 1959 میں “ایبڈو ” جیسے قوانین بنانے کے جواز بھی مہیا کئیے رکھے.

ہمارے حالات 1972 کی نئی لیبر پالیسی اور صنعتوں کے قومیائے جانے سے بھی نہ سدھرے.1981 کے خالص اسلامی پاکستان کے وفاقی اور صوبائی محتسب اداروں کا قیام بھی ہماری سرشت کا کچھ نہ بگاڑ سکا.

1-آپ مجھے سادہ زندگی اور محنت دیجئیے میں آپکو خوشحالی دوں گا، آپ مجھے ڈسپلن دیجئیے میں آپکو مضبوط پاکستان دوں گا.
2-اکیسویں صدی میں داخل ہوتے پاکستان میں علم کی روشنی عام کرناچاہتا ہوں.
3-ہم آئینی جمہوری اداروں کا احترام کریں گے .
4-ہم سفارش ،اقربا پروری اوراحباب نوازی کے راستے پر نہیں چلیں گے .
5-تعلیم.صحت ،روزگار،رہایش ،امن اور تحفظ ہر شہری کا بنیادئ حق ہے اور میں یہ حق دلوانا چاہتا ہوں.
6-انتظامی مشینری سے میرا پہلا مطالبہ انصاف اور احترام انسانیت کا ہے.
6-پورے ملک میں ہر مظلوم کو فوری انصاف دلانے کیلیئے قانون سازی کا ارادہ رکھتا ہو ں اور ہم “اپنی ہی حکومت کے دوران خود کو احتساب کیلیئے پیش کریں گے”.

یہ 7نومبر 1990 کو وزارت عظمی کا عہدہ سنبھالنے کے بعد میاں نواز شریف کے قوم سے خطاب میں 20 نقاطی انقلابی پروگرام سے لے گئی چند سطور ہیں.
بات نہ بن سکی تو میاں صاحب کے دوسرے دور میں مئی 1997 میں بھی یہ جذبہ مانند نہ پڑا اور احتساب بل کی منظوری ہوئی جس میں احتساب اور ایک محتسب صاحب کی ہیبت یہ تھی کہ اپوزیشن بلبلا اٹھی کہ احتساب کا عمل 1985 کے بجائے نومبر 1990 سے شروع کیا جائے ،مستزاد یہ کہ یہ ایک اینٹی پالٹیشن بل ہے.
16 نومبر 1999 کو قومی احتساب بیورو کا آرڈیننس بھی جاری ہو گیا جو یکم جنوری 1985 سے نافذ العمل قرار پایا.

مگر یہ ساری مشق لا حاصل ہم سے ہماری وہ ملعونہ وراثت جس کے لیئے قائد ہمیں تنبیہ کر گئے تھے، لمحہ بھر کیلیئے بھی ہم سے دور نہ کر سکی. کہتے ہیں وہ افعال جو کسی قوم میں تواتر سے رواج پا جائیں وہ اسکا کلچر کہلاتے ہیں، تو اسطرح ہم بھی ایک ثقافت پا لینے میں کامیاب رہے.

آج خود کو اپنی ہی حکومت کے دوران احتساب کیلیئے پیش کرنے کے دعوی داروں کو خود کو پیش کرنے کا وقت آ گیا ہے.

کیا آج پاکستان اپنے تاریخ کے ابتدائی ایام کا اعادہ کئے ہوئے اس اختتامیے پر کھڑاہے، جہاں سے اسے “پروڈا” جیسے قوانین سے ایک تعاقب کا آغاز کرنا پڑا تھا؟ اور کیا یہ ہماری عدالت کیلیئے بھی ایک تاریخی موقع نہیں ہو گا، جسکی تاریخ ہے کہ اسکے ترازو کی وجہ تسمیہ بالعموم عادل کے بجائے معتدل رہی ہے، کہ آج وہ اسم بالمسمی کی درست تعدیل کر لے؟

1965 کی جنگ اور1971 کے سانحہ کے وقت بھی ملک سخت سیاسی عدم استحکام اور داخلی انتشار کا شکار تھا اور آج بھی قومی اور حساس ادارے باہم متصادم ہیں اور سرحدوں پر بھی سخت کشیدگی کا عالم ہے.مگر آج یہ معاملات پہلی بار ایک آئینی عمل کے زریعے اداروں کو حل کرنے کا موقع ملا ہے تو اداروں کو آج اپنی رٹ ضرور قائم کرنی ہو گی.

میاں صاحب آپکی 1990 کا انقلابی ایجنڈا اور 1997 کا احتساب بل اور خود کو اپنی ہی حکومت میں احتساب کیلیئے پیش کئیے جانے کا جذبہ آپکو کیسے پانامہ لیکس جیسے بدنام زمانہ سکینڈل کی پاداش میں عدالت تک لے آیا؟

انصاف کے اس اعلی ادارے جسکے کی توقیر اور بحالی کیلیئے عوام خود اسکے شانہ بشانہ کھڑی رہی ہے آج اسکے ہاتھ میں اس قوم کا مستقبل ہے.یہ محض ایک کرپشن کے کیس کا فیصلہ نہیں ہے یہ خاین سوچ اور ایک استبدادی کلچر کی گردن پر آئینی ہاتھ ہے جسکا دوسرا فریق کوئ فرد ،ادارہ یا جماعت نہیں بلکہ اس ملک کی عوام ہے اور اسکے پیچھے ایک سخت عوامی مزاحمت کارفرما ہے.

ہماری عدالتوں کی یہ تایخ رہی ھے کہ انہوں نے جو چند بڑے فیصلے کئیے ہیں وہ زیادہ تر سول حکو متوں کے ادوار میں ہی کئیے ہیں. آج کی عدالت کسی LFO ،NRO سے متاثر ہے اور نہ ہی کسی PCO قسم کے ججز کے ساتھ کام کر رہی.قوم اس سے ایک امید لگائے ہوئی ھے.دعا ہے بر آئے.

Advertisements
julia rana solicitors

وہ امت کیسے پاک ہو سکتی ہے جس میں طاقتور سے کمزور کاحق نہ دلوایا جا سکے. (ارشاد نبوی صلی اللہ و علیہ وسلم)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply