ہمارے معاشرے ہی میدان جنگ کیوں؟۔۔ آصف محمود

کبھی آپ نے غور فرمایاکہ اس وقت صرف مسلمان معاشرے ہی کیوں میدان جنگ کا روپ دھار چکے ہیں؟ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ جنگ کسی کی بھی ہو ، لڑی ہمارے ہاں ہی جاتی ہے اورمیدان جنگ مسلمان معاشرہ ہی ہوتا ہے؟

مغربی ممالک سمیت ساری دنیا کے بچے ہنستے کھیلتے ہیں لیکن ہمارے بچے روز کاٹ کاٹ کر پھینک دیے جاتے ہیں۔ان کے معاشروں میں زندگی مسکراتی ہے اور ہماری بستیوں میں پھولوں کی جگہ قبرستان اگ رہے ہیں۔وہ زندگی کی رنگینیوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں اور ہمارے شہروں سے دھواں اٹھ رہا ہے۔کبھی آپ نے سوچا ایسا کیوں ہو رہا ہے؟

شام کے بچوں کی کٹی پھٹی تصاویر دیکھ کرآنکھیں لہو رو رہی ہیں۔ایک طرف روس ہے ، وہ شام کے خون آشام بشار الاسد کو تھپکی دے رہا ہے کیونکہ یہ اس کے مفادات کا تقاضا ہے اور دوسری جانب امریکہ ہے وہ اپنے مفادات کے لیے بشار الاسد کے باغیوں کو شہہ دے رہا ہے۔شطرنج کے کھلاڑی اور ہیں ، خون کسی اور کا بہہ رہا ہے۔باغیوں کو امریکہ اسلحہ دے رہا ہے اور حکمرانوں کے روس اسلحہ فراہم کر رہا ہے۔امریکیوں کا اسلحہ باغی چلائیں یا روس کا اسلحہ بشار الاسد چلائے ، ہر دو صورتوں میں مرتا صرف مسلمان ہے۔کوئی گولی اور کوئی بم نہ امریکہ تک پہنچتا ہے نہ روس تک۔قتل عام صرف ہمارا ہوتا ہے اور ہنستا بستا معاشرہ کھنڈر بن جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں : سری دیوی اورناسٹیلجیا کی موت۔۔گل نوخیز اختر

بشار الاسد اپنے ہی لوگوں کے خلاف کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کرتا ہے اور معاملہ اقوام متحدہ میں جاتا ہے تو روس اس کو ویٹو کر دیتا ہے۔کون سا ماسکو کے لوگ مرے تھے کہ روس کو اس کی تکلیف ہوتی۔شام کے مسلمانوں کی کیا اوقات؟کیڑے مکوڑے ، مرتے رہیں۔پوٹن کی بلا سے۔

ادھر نیویارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ دعوی کرتے ہیں کہ سی آئی اے نے شام میں باغیوں کو نہ صرف پیسے دیے بلکہ اسلحہ بھی دیا اور ان کی تربیت بھی کی لیکن اس کی مذمت میں کوئی آواز نہیں اٹھتی۔حقوق انسانی کے علمبرداروں میں سے کسی کی ہمت نہیں ہوتی وہ ٹرمپ انتظامیہ سے پوچھے کی شام کی تباہی میں امریکہ کا کتنا حصہ ہے۔شاید اس لیے کہ ان کے پیٹ کا جہنم ڈالروں سے بھر چکا اب حرف حق کیسے بلند ہو یا شاید اس لیے کہ حقوق انسانی کے جدید تصور میں مسلمان کو انسان ہی نہ سمجھا جاتا ہو۔

لڑائی روس اور امریکہ کی تھی لیکن میدان جنگ افغانستان بنا۔اس جنگ میں افغانستان اور پھر پاکستان کا جو حشر ہوا وہ ہمارے سامنے ہے۔نسلیں تباہ ہو گئیں۔مستقبل برباد ہو گیا۔ گھر اجڑ گئے ، لوگ در بدر ہو گئے ، افغان بچوں کا بچپنا اسلام آباد اور راولپنڈی میں کوڑے کے ڈھیرسے رزق تلاش کرتے کرتے گزر گیا اور احباب یہاں فتح مبین کانفرنسیں کرتے رہے۔امریکہ کا معاشرہ اس ساری جنگ سے مامون اور محفوظ رہا اور ہمارے معاشرے کا ستیا ناس ہو گیا۔

ابھی پھر صف بندی ہو رہی ہے۔ ایک طرف امریکہ اور اس کے حلیف ہیں اور دوسری جانب روس ، چین اور ان کے حلیف۔ یہ اپنے مفادات کے لیے باہم الجھ بھی رہے ہیں اور ایک دوسرے کو آنکھیں بھی دکھا رہے ہیں۔لیکن اس اہتمام کے ساتھ کہ باہمی لڑائی کی کوئی چنگاری بھی ان کے معاشرے تک نہ پہنچنے پائے۔چین سی پیک بنا رہا ہے اور امریکہ اسے کراب کرنا چاہتا ہے لیکن اس کشمکش کا میدان نہ امریکہ ہے نہ چین۔اس کا میدان پاکستان ہے۔

یہ بھی پڑھیں :  خودکلامی۔۔۔ انعام رانا

روس اور امریکہ مشرق وسطی میں اپنے مفادات کے لیے نبرد آزما ہیں۔اس لڑائی میں شہروں کے شہر اجڑ گئے اور معصوم بچوں کو قبر بھی نہ مل سکی اور ملبے کے ساتھ ہی اڑ کر خاک ہو گئے لیکن خود امریکہ اور روس کے معاشروں میں ایک لمحے کے لیے بھی نظام زندگی متاثر نہیں ہوا۔ وہاں ایک گولی نہیں پہنچی، وہاں ایک بم نہیں پھٹا۔ ان کے کسی بچے کے کٹے ہوئے لاشوں نے وہاں کے لوگوں کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت مفلوج نہیں کی۔

خود مسلم دنیا بھی کسی سے پیچھے نہیں۔افغانستان کی بربادی میں جس جس برادر اسلامی ملک سے جو جو کچھ ہو سکا اس نے کیا۔اور اب یہی کچھ شام میں ہو رہا ہے۔سعودی عرب کے اپنے مفادات ہیں اور ایران کے اپنے۔ان دونوں ممالک کے باہمی لڑائی نے مسلم معاشروں کو برباد کر کے چھوڑ دیا ہے لیکن یہ ساری آگ غریب امت مسلمہ کے آنگن میں الاؤ کی مانند جل رہی ہے۔کیا مجال کہ اس کی ایک چنگاری بھی ان ممالک تک پہنچ سکی ہو۔

امریکہ اور روس کی طرح سعودی عرب اور ایران میں بھی زندگی معمول کے مطابق ہے۔سب کو لڑنے کے لیے اپنے اپنے حصے کے بے وقوف ملے ہوئے ہیں۔جو اپنے ہی معاشروں کو برباد کر رہے ہیں اور اس پر نازاں ہیں۔ایک ایسی بیمار نفسیات تشکیل پا چکی ہے کہ مسلم معاشروں میں قائد محترم اب وہ نہیں جو بصیرت اور حکمت کی بات کرے بلکہ قائد وہ ہے جس کی بے بصیرتی سے اس کے جھنڈے تلے پڑے لاشوں کا انبار سب سے اونچا ہو۔

کبھی ہم نے سوچا کہ روس اور امریکہ آپس میں لڑ کر اس مسئلے کو ایک ہی دفعہ ختم کیوں نہیں کر دیتے؟دونوں ایٹمی قوت ہیں ، چند منٹوں میں معاملہ نبٹا سکتے ہیں۔

کبھی ہم نے غور کیا کہ ایران اور سعودی عرب کے باہمی تنازعے نے ساری مسلم دنیا کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے تو اس طرح کی جنگ سے بہتر نہیں یہ ایک دوسرے پر حملہ کردیں اور ایک ہی بار طے کر لیں کہ ان میں سے زیادہ بہادر اور زیادہ تگڑا کون ہے؟

یہ کبھی ایسا نہیں کریں گے کیونکہ انہیں اپنی اپنی ریاستوں اور بادشاہتوں کا مستقبل عزیز ہے۔مغرب کی حقوق انسانی کے لیے پریشانی یا سعودی عرب ایران اور ترکی کی امت مسلمہ کے لیے پریشانی یہ سب برائے وزن بیت ہے۔اصل بات یہ ہے کہ ہر نیشن سٹیٹ اپنے مفاد کا الاؤ بھڑکا رہی ہے اور اس کی کوشش ہے کہ وہ خود اس سے محفوظ رہے چاہے باقی سب اس میں جل مریں۔لڑنے اور مرنے کے لیے ان سب کے پاس اپنے اپنے حصے کے بے وقوف موجود ہیں۔

یہ بھی پڑھیں :  فرعون کے چیلے۔۔چوہدری نعیم احمد باجوہ

Advertisements
julia rana solicitors

اور ایک آخری سوال : اقوام متحدہ کے یونیسف نے تو شام کے بچوں کے لیے بغیر کچھ لکھے اعلامیہ جاری کر دیا اور کہا کہ اس کے پاس الفاظ نہیں وہ کچھ لکھ سکیں. سوال یہ ہے کہ وہ پردہ نشین بیبیاں کہاں ہیں دنیا. جنہیں او آئی سی اور عرب لیگ کے نام سے جانتی ہے؟

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”ہمارے معاشرے ہی میدان جنگ کیوں؟۔۔ آصف محمود

Leave a Reply