وه طوفان کہاں گیا ؟–رعایایت الله فاروقی

نوے کی دہائی کی سیاست جواں سال سیاستدانوں کی سیاست تھی، محترمہ بینظیر بھٹو، نواز شریف، مولانا فضل الرحمن، اسفندیار ولی خان، محمود خان اچکزئی اور حاصل خان بزنجو نہ صرف پہلی بار پارلیمان تھے بلکہ یہ اپنی جماعتوں کے سربراہ کی حیثیت سے قومی سیاست کی صف اول میں بھی تھے اور پوری سیاست ان کے ارد گرد گھوم رہی تھی۔ یہ جواں سال سیاستدان تند و تیز بھی تھے اور گرم خون کے ہوتے انتقامی مزاج بھی رکھتے تھے۔ اپنی نا تجربہ کاری اور طبعی رجحانات کے ہاتھوں انہوں نے کئی سنگین غلطیاں بھی کیں۔ ایسی غلطیاں جن کا خمیازہ جمہوریت کو بھی بھگتنا پڑا اور عوام کو بھی۔ محترمہ بینظیر بھٹو اور نواز شریف نے ایک دوسرے کے خلاف الزامات، مقدمات اور گرفتاریوں کے جو طوفان اٹھائے اس کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ دونوں ہی کے الزامات کو عوامی سطح پر پذیرائی ملی، پیپلز پارٹی کے کارکنوں اور ہمدردوں کی یہ پختہ رائے بن گئی کہ میاں نواز شریف کرپٹ ہیں جبکہ نون لیگ والوں کا سیاسی عقیدہ یہ بن گیا کہ پیپلز پارٹی کرپٹ ہے۔ جب سب سے بڑی دو جماعتوں کی سوچ یہ بن جائے تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ یہ کروڑوں انسانوں کی سوچ ہے۔ ایسے میں کروڑوں ہی وہ ووٹرز بھی ہوتے ہیں جو کسی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں رکھتے اور عین الیکشن کے موقع پر فیصلہ کرتے ہیں کہ ووٹ کسے دینا ہے اور جن کا ووٹ انتخابات میں فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے۔ جب وہ دو بڑی جماعتوں کے ورکرز کو کرپشن، کرپشن کی رٹ لگائے دیکھتے ہیں تو اس سے وہ بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے۔ یہ درست ہے کہ کرپشن ہمارا سنگین مسئلہ ہے لیکن یہ درست نہیں کہ سیاستدان ہی کرپٹ ہیں بلکہ یہ بھی درست نہیں سیاستدان ہی سب سے سے زیادہ کرپٹ ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کرپشن مستقل اداروں کی سطح پر زیادہ سرایت رکھتی ہے اور اس میں ہر سطح کے سرکاری ملازمین کا اصل کردار ہے۔ ایسے سرکاری ملازمین جو چپڑاسی سے لے کر بیوروکریسی کے اعلی ترین عہدوں تک پھیلے ہوئے ہیں۔ کچھ اداروں کے نام لینے سے تو پر جلتے ہیں سو بطور مثال زبان زدعام پولیس کے محکمے کا ہی حال دیکھ لیجئے جہاں آج بھی بعض صوبوں میں مختلف تھانوں کے ریٹس لگتے ہیں۔ پولیس افسر لاکھوں روپے کا نذرانہ دے کر زیادہ کمائی والے تھانوں کا اختیار حاصل کرتے ہیں۔

چند ہزار روپے تنخواہ والا پولیس افسر لاکھوں روپے رشوت میں دے کر کسی تھانے کا ایس ایچ او جرائم کی بیخ کنی کے لئے لگنا چاہتا ہے ؟ نہیں ! یہ تھانے ’’کمائی‘‘ کے لئے حاصل کئے جاتے ہیں اور ہونے والی کمائی میں نیچے سے اوپر تک سب کا ماہانہ حصہ مقرر ہوتا ہے۔ پولیس کا حوالہ محض بطور مثال پیش کیا گیا کہ اسے کرپٹ کہنے میں جان کی امان برقرار رہتی ہے ورنہ جو ادارہ جتنا طاقتور ہے اس کی کرپشن کے معاملات اتنے ہی بڑے ہیں۔ سیاستدانوں نے الزام کی سیاست کو فروغ دے کر خود اپنے لئے سنگین مسائل پیدا کر لئے ہیں۔ انہی الزامات کا فائدہ اٹھا کر جب غیر جمہوری قوتیں ان کا تیا پانچا کرتی ہیں تو عوامی ذہن اس پر حیران نہیں ہوتا بلکہ اس فریب میں آجاتا ہے کہ واقعی کرپشن پر ہی ہاتھ ڈالا جا رہا ہے حالانکہ ایسا ہوتا نہیں۔ اب یہی دیکھ لیجئے کہ پیپلز پارٹی کی 2008ء میں قائم ہونے والی حکومت میں کرپشن کے کئی سنگین ترین کیسز پکڑے گئے۔ دستاویزات، شواہد اور گواہ سمیت سب کچھ موجود تھا۔ کچھ اداروں نے اس حکومت کے آخری سال بہت پھرتیاں دکھائیں اور یہ تاثر دیا کہ عوام کی لوٹی گئی دولت بس چند روز میں سود سمیت وصول کرلی جائے گی۔ لیکن ہوا یہ کہ جب وہ حکومت اگلا الیکشن ہار کر منظر سے ہٹ گئی تو وہ کیسز بھی یکایک ٹھنڈے پڑ گئے۔ پانچ سال ہوگئے مگر ان مقدمات میں کسی سیاسی لیڈر کو کوئی سزا نہیں ہوئی کیونکہ مقصد کرپشن کا خاتمہ یا سزا دینا تھا ہی نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس موجودہ دور حکومت کے دوران پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کو قابو کرنے کے لئے جو کچھ ہوا وہ تو ابھی کل ہی کی بات ہے۔ کچھ ادارے کیسے تابڑ توڑ قسم کے ایکشن میں رہے، کبھی سیوک سینٹر پر چھاپے تو کبھی ڈاکٹر عاصم کی پانچ سو ارب کی کرپشن کے ڈھنڈورے، کبھی زرداری صاحب کے قریبی دوست لاپتہ تو کبھی کسی اٹکتی مٹکتی حسینہ کی عدالتی پریڈ لیکن جب زرداری صاحب قابو آگئے اور انہوں نے ’’مفاہمت‘‘ فرما لی تو اب وہی ڈاکٹر عاصم ، وہی زرداری صاحب کے قریبی دوست اور وہی ایان علی چین کی بانسری بجا رہے ہیں اور خود زرداری صاحب بھی ماشاء اللہ نیب عدالت سے اپنے مشہور زمانہ کیسز سے بری ہوکر چہک رہے ہیں۔ نیب نے ان کی بریت پر اعلان کیا کہ ہائی کورٹ میں اپیل کی جائے گی، کب کی جائے گی کچھ خبر نہیں، اور اپیل ہو بھی گئی تو سماعتیں کتنے ہزار سال بعد ہوا کریں گی یہ آج طے نہیں ہوگا بلکہ تب طے ہوگا جب زرداری صاحب ایک بار پھر بے قابو ہوجائیں گے۔ اگر بے قابو ہوئے تو اپیل بھی ہوجائے گی اور ’’تیز رفتار انصاف‘‘ بھی حرکت میں آجائے گا لیکن اگر زرداری صاحب اچھے بچے بنے رہے تو انشاء اللہ سکون سے رہیں گے۔ کیا آپ نے غور کیا کہ جب نواز شریف کو نا اہل کیا گیا تو سیاسی حلقوں سے یہ بات تواتر سے کہی جانے لگی کہ وہ لندن میں جلا وطن ہوجائیں گے۔ یہ بات اس لئے کہی گئی کہ پچھلے تیس سال سے یہی ’’مفاہمت‘‘ کا مجرب نسخہ ہے۔ وہ نسخہ جس پر محترمہ بینظیر بھٹو جیسی دبنگ لیڈر بھی عمل پیرا رہیں۔ خیال یہی تھا کہ میاں صاحب بھی یہی راہ اختیار کریں گے لیکن انہوں نے مزاحمت کی راہ اختیار کی۔ یہ جرات پہلی بار کسی سیاستدان نے دکھائی ہے سو جو اس بار ہوگا وہ پہلی بار ظہور پذیر ہوگا اور جو ظہور پذیر ہوگا اس کا فہم اتنا آسان ہے کہ خود میاں صاحب بھی جانتے ہیں اور تجزیہ کار بھی اس کی پیشنگوئی کر رہے ہیں۔ المیہ یہی نہیں کہ اس ملک میں کرپشن ہے بلکہ یہ بھی ہے کہ کرپشن کو سیاستدانوں کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی روایت چلی آرہی ہے۔ اگر یہ محض ہتھیار نہ ہوتا زرداری دور کے آخری سال کرپشن کے جو بڑے بڑے سکینڈل سامنے آئے تھے وہ انجام کو نہ پہنچ چکے ہوتے ؟ الزامات اور مقدمات کا وہ طوفان کہاں گیا جو پچھلی حکومت کے خلاف اٹھا تھا ؟

Facebook Comments

رعایت اللہ فاروقی
محترم رعایت اللہ فاروقی معروف تجزیہ نگار اور کالم نگار ہیں۔ آپ سوشل میڈیا کے ٹاپ ٹین بلاگرز میں سے ہیں۔ تحریر کے زریعے نوجوان نسل کی اصلاح کا جذبہ آپکی تحاریر کو مزید دلچسپ بنا دیتا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply