ہمیشہ دیر کردیتا ہوں میں۔۔مہر ساجد شاد

ہمیشہ دیر کردیتا ہوں میں۔۔مہر ساجد شاد/  عمران خان جب کبھی کتاب لکھیں گے تو یہ اعتراف ضرور کریں گے کہ انہوں نے بہت سے فیصلے بروقت نہیں کئے۔عمران خان ایک سلیبرٹی ہیں انکی شخصیت میں ایک کشش ہے اور ساتھ انتھک بولنے کی صلاحیت، ان سب نے انہیں ایک موٹیویشنل اسپیکر بنا دیا۔ ایک بڑی تعداد انکے چاہنے والوں  کی،ان پر یقین رکھنے والوں کی ہے اور مستقبل میں بھی رہے گی۔

عمران خان صاحب کے پاس سب سے بہترین ٹیم 1987 کے ورلڈ کپ میں تھی لیکن کپتان نے اس وقت بھی مشورہ حرام سمجھا بلکہ کوئی مشورہ دیتا تو اسکے الٹ کر کے ثابت کرنے کی کوشش کرتا کہ تم غلط ہو، نتیجہ ! پاکستان ہار گیا۔

پھر 1992 آیا ٹیم بہت کمزور اور بیمار زخمی کھلاڑیوں پر مشتمل تھی، وقار یونس زخمی ہو کر واپس آگئے، لیکن خوش قسمتی سے عمران خان بھی زخمی تھا کندھے میں شدید تکلیف کا علاج درد کش انجیکشن سے کیا جارہا تھا۔ اسی کا فائدہ ہوا اور فیصلہ سازی ٹیم مینجر انتخاب عالم اور وائس کیپٹن جاوید میانداد کے ہاتھ آگئی، ایک ٹیم ورک بنا اور ٹیم مل کر لڑی، کئی بروقت فیصلوں نے ٹیم کو اس جگہ پہنچا دیا جہاں سے فائنل جیت کر کپ اٹھانے والے عمران خان نے اپنی اس کامیاب ٹیم کا زکر کرنا بھی گوارا نہ کیا، یہاں سے میں میں کی گردان شروع ہوئی جو آج تک جاری ہے۔

عمران خان صاحب آپ سیاست میں آئے تو آپ آئیڈیل جمہوریت کی باتیں کرتے تھے مغرب کی کامیابی کا سہرا انصاف کے نظام اور جمہوریت کے سر باندھتے تھے لیکن یہ عوامی اجتماعات کی باتیں تھیں ،اندرون خانہ محافل میں آپ شروع دن سے قائل تھے کہ سیاست میں داخلے کیلئے صرف اور صرف فوجی اسٹیبلشمنٹ کے کندھے استعمال کر کے ہی حکومت حاصل کی جاسکتی ہے،آپ نے تو میڈیا پر بھی کہہ دیا تھا سیاست میں کسی غریب آدمی کو نہیں ہونا چاہیے، آپ امراء سے متاثر ہوتے تھے انہیں ہی پارٹی کا اثاثہ سمجھتے تھے۔

پھر آپ نے اسی راستے سے حکومت حاصل کی آپ نے اپنے اردگرد انہی امراء جاگیرداروں اقتدار کے سدابہار قابضین کو جمع کر لیا۔اگرچہ ہمیں کوئی خوش فہمی نہیں تھی اسی لئے دوسال میں آپکے طرزعمل کو دیکھ کر توبہ کی تو آپکو زندگی بھر ووٹ نہیں دیا پھر بھی ایک مبہم امید تھی کہ آپ یہ بھی تو کہا کرتے تھے کہ ایک بار میں حکومت میں آجاوں پھر سب کچھ ٹھیک کر لوں گا اسٹیبلشمنٹ کو بھی انکی اوقات میں، میں ہی لاؤں گا۔

عمران خان صاحب آپ نے ہمیشہ دیر کر دی اپنے ہر فیصلہ کرنے میں آپ نے مردم شناسی میں بھی ہمیشہ دیر کردی۔ آپ نے اپنی اس عادت سے کیسے کیسے ہیرے اور محسن لوگ کھو دئیے۔
آپ نے یہ سمجھنے میں دیر کر دی کہ سیاستدان کی اساس عوام سے رابطہ ہوتا ہے اور اسکی پالیسیوں سے عوام کو پہنچنے والا فائدہ ہی اسکا رابطہ قائم کرتا ہے،آپ کہتے تھے کہ آپ نے بائیس سال کی جدوجہد میں سب تیاری کر لی تھی لیکن عوام کی خوشحالی تجارت کاروبار سے جڑی ہوتی ہے یہ سمجھتے ہوئے بھی دیر کر دی پھر آپکی تیاری کا بھانڈا پھوٹ گیا جب آپ کٹے انڈے چوزے مرغیاں اپنی معاشی پالیسی بنا کر لے آئے،اصل چلتے کاروبار بند ہونے لگے کاروباری لوگ اور تنظیمیں آرمی چیف سے ملاقاتیں کر کے مسائل بیان کرنے لگے آپ نے پھر بھی پہلو تہی کی۔
ایک سے بڑھ کر ایک مافیا کو موقع مہیا کیا کہ وہ لوٹ مار کریں انہیں کھلی چھوٹ دی اور جہاں اداروں نے سسٹم نے آپکو رپورٹ کیا آپ نے مافیا کا تحفظ ہی کیا۔

عمران خان صاحب آپ کے پاس بہترین موقع تھا آپکو حکومت اس وقت ملی جب ملک سے کئی بحران جیسے لوڈشیڈنگ اور دہشت گردی کا خاتمہ ہو چکا تھا ملک کی معیشت سست روی سے لیکن بہتری کی جانب گامزن تھی چین کی اقتصادی راہداری کی صورت میں آپکو ایک مستقل سرمایہ کاری کرنے والا ایک مضبوط ذریعہ دستیاب تھا،آپ دوسال انہی خطوط پر سسٹم کو چلنے دیتے اور پھر اس میں جہاں بہتری ضروری سمجھتے وہاں تبدیلی کرتے،لیکن آپ نے سب کچھ تہس نہس کردیا۔

ایک طرف پنجاب جو ملک کی آبادی کا ساٹھ فیصد ہے اسے بزدار کے حوالے کر دیا تو دوسری طرف آپ نے احتساب کے نام پر سیاسی انتقام کا ایک لاحاصل سلسلہ شروع کیا۔
ساڑھے تین سال جیلوں مقدمات سختیوں سے لڑتے یہ سیاستدان بالآخر رہا ہوتے گئے آپ کسی پر ایک روپیہ کی کرپشن ثابت نہ کر سکے نہ ہی بقول آپکے لوٹا ہوا مال باہر سے لا سکے،اس سارے قصہ میں مخالف سیاستدانوں کے علاوہ آپ نے سابقہ حکومتوں میں اہم ذمہ داریوں پر متمکن بیوروکریسی کو بھی اپنے احتساب نامی انتقام کا نشانہ بنایا تو ایسا خوف پھیلا کہ تمام تر انتظامی اور ترقی کیلئے منصوبہ سازی کے کام رک گئے بیوروکریسی اپنی نوکری اور عزت بچانے کیلئے خاموش ہو کر بیٹھ گئی۔

اس سے پنجاب میں جو بدانتظامی اور بدعنوانی کا طوفان اٹھا اسکی گرد نے آپکی پارٹی کی چولیں ہلا دیں اور یہ گرد اور گندگی بنی گالہ تک بھی پہنچی آپکو لانے والوں نے بھی بارہا آپکو سمجھایا لیکن آپ بضد رہے کہ وسیم اکرم پلس بزدار ہی تبدیلی لائے گا۔

عمران خان صاحب آپکے خلاف اپوزیشن اکٹھی ہوئی اسی وقت آپ نے اپنا سیم پیج بھی اپنی نالائقی سے پھاڑ دیا ،یہ غلط وقت تھا لیکن آپکے ارد گرد کوئی انتخاب عالم یا میانداد نہیں تھا آپ نے جو ہجوم اکٹھا کر رکھا تھا اس نے آپ کو اس مقام پر پہنچا دیا جہاں آپ نے آئین سے بھی کھلواڑ کر ڈالا،اسٹیبلشمنٹ اس وقت ہی طاقتور ہوتی ہے جب حکمران کوئی آئینی بے ضابطگی کرتا ہے وگرنہ وہ ڈٹ سکتاہے۔

عمران خان صاحب آپ نے جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی مثال دی تو ہمیں امید ہو گئی کہ شائد اب ہمارا بھی آپکے پیچھے کھڑے ہونے کا وقت آ گیا ہے آپ آئینی اختیارات کا بروقت استعمال کریں گے لیکن آپ نے خطرےناک ہونے کی دھمکی پر ہی اکتفا کیا، عمران خان صاحب آپ نے پھر دیر کر دی، اور جب ممکن نہیں تھا آپ نے اس اقدام کی کوشش کی یہ سنگین غلطی تھی۔لیکن شائد مستقبل میں آپ بھی اسٹیبلشمنٹ میں پھر کسی نئے گروپ کی امید پر بیٹھیں گے انتظار کریں گے اور پھر اسی راستے سے حکومت میں آنا چاہیں گے جس راستے سے پہلے آئے تھے۔

عمران خان صاحب عوام کیلئے جو امریکہ دشمنی کا بیانیہ آپ نے بنایا ہے اس کا مبلغ فائدہ آپکو اتنا ہی ہونا ہے جتنا آج تک جماعت اسلامی کو ہوا ہے کیونکہ یہ بیانہ انکا ٹریڈ مارک ہے لیکن آج تک وہ اسے بیچ نہ سکے ۔ آپکے مخلص ورکرز کے علاوہ کوئی اس بیانیہ کا چورن نہیں چاٹے گا الٹا آپکے وہ ورکرز اور اسپورٹرز جو امریکہ میں مقیم ہیں تذبذب کا شکار ہو گئے ہیں،امریکی معاشرہ میں وہ اپنے امریکہ مخالف بیانیہ کیساتھ نہیں رہ سکتے اور آپکی محبت میں وہ امریکہ بھی نہیں چھوڑ سکتے۔

Advertisements
julia rana solicitors

عمران خان صاحب اس سارے قضیہ میں مبینہ طور پرآپ کیساتھ ہونے والی بدسلوکی نے ہمارا دل دکھایا ہے، ہمیں رنج اور تکلیف میں مبتلا کیا ہے۔
ہم سویلین عوام اپنے سیاستدانوں کی عزت اور تکریم کے خواہاں ہیں لیکن ہمارے سیاستدانوں کو بھی سمجھنا ہوگا کہ ملک وقوم کیساتھ ساتھ انکا ذاتی عزت وقار اور احترام بھی آئین کی بالادستی یقینی بنانے اور قانون کی حکمرانی قائم کرنے میں ہی پوشیدہ ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply