انتھروپالوجسٹ لکھے گا۔۔۔

انتھروپالوجسٹ لکھے گا کہ آج سے پانچ ہزار سال پرانی ایک تہذیب کے آثار ملے ہیں۔۔ یہ تہذیب کسی دریا کنارے نہیں بلکہ سائبراسپیس میں پائی جاتی تھی۔ اس تہذیب کا نام فیس بک تھا، وہاں کوئی ایک زبان نہ تھی بلکہ کئی زبانیں بولی جاتی تھیں۔ یہ انسانی تاریخ کی واحد تہذیب تھی جہاں شرح خواندگی سو فیصد تھی اور ہر شخص لکھنا پڑھنا جانتا تھا, اس تہذیب میں مختلف قسم کے عقائد پائے جاتے تھے. کھانے پینے کے یہ لوگ بہت شوقین تھے اور کھانے کی تصویریں سب سے زیادہ شیئر کرتے تھے یہ لوگ بہت ملنسار ہوا کرتے تھے ان کے دوستوں کی فہرست ہزاروں میں ہوتی تھی۔ ان لوگوں میں بلند پایا شاعر، ادیب، محقق، نقاد، تاریخ دان، فلسفی، اسکالر اور افسانہ نگار پیدا ہوئے۔ ان لوگوں میں مباحثوں کا بہت رواج پایا جاتا تھا مگر یہ سقراط اور سوفسطائیوں کے مباحثوں جیسے مباحثے نہ ہوتے تھے بلکہ ان کا انجام اکثر تلخ کلامی پر ہوتا۔ بعض اوقات مباحثہ ہارنے والا اسکالر مخالف اسکالر پر کفر کا فتویٰ یا توہین کا الزام لگادیا کرتا تھا۔
یہ لوگ کشادہ محلوں میں رہا کرتے تھے جن کو گروپس کہا جاتا تھا- اس تہذیب کا تکیہ کلام ویری نائس تھا جو کہ زیادہ تر خواتین کی تصاویر اور پوسٹس پر پایا جاتا تھا۔ اس تہذیب کے رسوم و رواج میں ٹیگ کرنے کی رسم عام پائی جاتی تھی، اس تہذیب میں کراس ڈریسنگ کا کلچر بھی پایا جاتا ہے۔ لڑکے لڑکی بن کر لوگوں کو بیوقوف بنایا کرتے تھے۔ لوگوں کے معاملے میں ٹانگ اڑانا اس تہذیب کے باشندوں کا محبوب مشغلہ تھا۔ اس تہذیب میں بھینسے کو حرام سمجھا جاتا تھا۔ اس تہذیب میں عاشقوں اور ٹھرکیوں کی ملاقات کے لئے باغ ہوا کرتے تھے جنہیں ان باکس کہا جاتا تھا، یہ بہت رومان پرور جگہ ہوتی تھی، جذبات امنڈ آتے تھے لیکن سیانے کھوجی(اسکرین شاٹ)کے ڈر سے محتاط رہتے تھے۔ اسکرین شاٹ دراصل اس تہذیب کا ایٹمی ہتھیار سمجھا جاتا تھا۔
اس تہذیب میں خواتین کو انتہائی بلند مقام حاصل تھا۔ خواتین کی بکواس سے بکواس پوسٹس پر تین چار سو جانثار کمنٹ اور لائیک کرنے کے لئے تیار رہتے تھے۔ بس اسی بات سے اس تہذیب میں خواتین کی عزت و احترام کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اس تہذیب میں ایک قوم ایسی بھی تھی جو روٹی، آلو، گائے، ٹماٹر وغیرہ پر مقدس اسم ڈھونڈا کرتی اور لائیک یا کمنٹ نہ کرنے پر شیطان کے ذریعے روکے جانے کا طعنہ دیتی۔ اس تہذیب میں عبقری نامی بلند پائے کے طبیب بھی پائے جاتے تھے۔ یہ تہذیب خود میں ایک مکمل تمدن تھا، اصل زندگی میں جس شخص کو گھر والے صرف دہی لانے والے سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے وہ بھی اپنی فیس بکی دانشوری جھاڑ کر سوشل مقناطیس بن جاتا تھا۔
یہاں پر عام رعایا کم پائی جاتی تھی جبکہ پرنس اور پرنسز کی تعداد لاکھوں میں ہوا کرتی تھی۔ فیس بکی پرنسز جب صبح اٹھتیں تو اپنے ناخن پالش کی تصویر بھی شائع کرتیں اور ناز سے پوچھتیں، دیکھو فرینڈز یہ رنگ کیسا لگ رہا ہے تو نر شیدائی ہزاروں کی تعداد میں اچھل اچھل کر ویری نائس وغیرہ کے کمنٹس کی ریل پیل لگا دیتے جبکہ اگر ان کے کسی نر ساتھی کو گولی بھی لگ جاتی اور وہ اپنی خون آلود تصویر بھی پوسٹ کردیتا تو اول تو کوئی لفٹ نہ کراتا یا پھر الٹا ہمدردی کے بجائے اسکو ڈانٹ پڑتی کہ بھائی ایسی جگہ گیا کیوں جہاں گولی چل رہی تھی۔ اس تہذیب کا خاتمہ کیسے ہوا اس بارے میں کچھ حتمی طور پر پتا نہیں لگ سکا ہے اور ماہرینِ علمِ بشریات کے مطابق اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ پڑوس سے انسٹراگرام اور ٹویٹر نامی دیگر تہذیوں سے اس تہذیب کا تصادم ہوا، بعض ماہرین کے نزدیک یہ تہذیب ختم نہیں ہوئی بلکہ ارتقاء کر گئی اور آج بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے جبکہ بعض دانشوروں کا کہنا ہے کہ یہ تہذیب اسلام آباد کے ایک جج کے ہاتھوں تاراج و مسمار کردی گئی جس سے کروڑوں ٹھرکیوں کے دل ٹوٹ گئے، جو تھوڑے بہت پڑھے لکھے تھے وہ ٹویٹرستان ہجرت کرگئے۔ بقیہ نے کوئٹہ چمن ہوٹل کے ساتھ گزارا کرلیا۔

Facebook Comments

محمد انس رحمٰن
ڈیجیٹل میڈیا ایگزیکیٹؤ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply