مشترکہ خاندانی نظام اور عدم برداشت

انسان ہے ہی جلد باز اور ناشکرا (القرآن)۔
حضرت انسان خوبیوں خامیوں کا مرقع ہے اور اپنی جلد بازی کی بدولت ہی اکثر و بیشتر کچھ ایسا کر بیٹھتا ہے کہ ساری کی ساری خوبیاں ایک ہی لمحے میں لائن بنا کر تیل بھرنے چلی جاتی ہیں بلکہ صالحین کی جانب سے زبردستی بھیج دی جاتی ہیں اور فقط ایک برائی تمام خوبیوں پر غالب آجاتی ہے۔ ہمارے ساتھ روزمرہ زندگی میں ایسے بے شمار واقعات پیش آتے ہیں جب انسان صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ بیٹھتا ہے اور انگلی اٹھانے والے کے بہکاوے میں آجاتا ہے۔۔بہکاوا بھی وہ کہ جو ابلیسی چالوں کو مات دے۔۔انسانی طبعیت جلدی جلدی کروٹیں بدلتی ہے جسکی وجہ سے مسائل بھی اسی رفتار سے جنم لیتے ہیں، انسان کی طبعیت جب برائی پر آمادہ ہوتی ہے تو خود تو برا بنتا ہی ہے لیکن جس پر حملہ کر رہا ہوتا ہے اسے بھی برائی پر مجبور کر دیتا ہے ایسے میں بڑے سے بڑے نیک طینت بھی مشکل میں پڑ جاتے ہیں۔۔انسانی رویے اس ضمن میں خاص اہمیت کے حامل ہیں۔۔چونکہ انسانی طبعیت ہر پل اتار چڑھاؤ سے دوچار رہتی ہے اس لیئے کوئی شخص عادتاً تلخ مزاج یا جلد باز نہ بھی ہو تب بھی کہیں نہ کہیں ایسا کچھ کر گزرتا ہے جو جسے غلطی کہا جائے۔۔اسے آپ فطرت کا حصہ ہی گردانیے!!
ایسی مخلوق جو خود اپنے آپ کو نقصان پہنچانے والی ہو اس کے کیئے پر درگزر سے بہتر کوئی حل نہیں۔مشہور کہاوت ہے کہ خطا انسانی شیوہ ہے اور معاف کرنا خدائی صفت ہے، اللہ کریم نے اپنی بہت سی صفات انسانی فطرت کا حصہ بنا کر ان کی اہمیت پر مہر ثبت کردی ہے،انہی میں سے ایک صفت معاف کرنا ہے،درگزر سے کام لینا،معافی مانگنے والے پر،اپنی غلطی پر شرمندہ ہونے والے پر احسان کرنا۔۔اور احسان نیکی ہے اور نیکی کا مطلب اللہ کی طرف رجوع ہے۔آپ ایک ایسے شخص سے معاف کرنے کی توقع ہر گز نہیں کر سکتے جسے خود معافی مانگنا نہ آتا ہو۔
ایک بار جب مجمع ایک ایسے شخص کو پتھر مارنے کے لیئے آگے بڑھنے لگا جو کسی گناہ کا مرتکب ہوا تھا،تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا تم میں سے صرف وہ شخص آگے بڑھ کر پتھر مارنا شروع کرے جس نے خود کبھی کوئی گناہ نہ کیا ہو۔
ہمارے ہاں یہ بات اب عمومی طور پر رواج پا چکی ہے کہ خود کش بمبار بن کر ناپسندیدہ شخص کے پاس سے گزرنے والی کیڑی پر بھی حملہ کر دیا اور اپنا ہاتھی بھی مٹھی میں قید کر لیتے ہیں۔۔۔ایک وقت تھا جب لوگ مشترکہ خاندانی نظام کو اہمیت دیتے تھے اور وہ نظام کامیاب بھی تھا لڑائی بھی ہوتی تھی اور اختلاف بھی لیکن اپنی غلطی تسلیم کی جاتی تھی،چھوٹے بڑے کا احترام تھا۔۔اس کی بنیادی وجہ صبر و تحمل تھا۔۔آج یہ چیز معاشرے میں بالکل ہی ناپید ہو چکی ہے، سوشل سائٹس کی مثال بھی مشترکہ خاندانی نظام کی سی ہی ہے۔۔جہاں ایک شخص سینکڑوں افراد کے ساتھ ایک گھر میں رہنا شروع کرتا ہے،جن میں کچھ اس کے بہت پسندیدہ ہیں اور کچھ کو ساتھ رکھنا س کی مجبوری ہوتی ہے،یہاں عدم برداشت کا عظیم الشان مظاہرہ دیکھنے کو ملتا ہے،آپ بلاوہ کسی کے گھر(پوسٹ)میں گھس کر گولہ باری شروع کر دیتے ہیں او پھر ردِ عمل آنے پر بازو چڑھا کر ذاتیات پر اتر آتے ہیں۔۔۔کوئی بھی ہوشمند،باشعور اور حساس انسان کسی طور اس عمل کو درست قرار نہیں دے سکتا۔۔۔ہم پر لازم ہے کہ مختلف نظریات،عقائد،مذاہب اور فکر کا احترام کریں۔الفاظ اور انداز کی شائستگی دوسروں کو متوجہ کرتی ہے
وہ لوگ جو جھوٹ کی گواہی نہیں دیتے اور جب کسی سے لغو بات پر گزرتے ہیں تو آرام سے گزر جاتے ہیں(القرآن:72)۔
مطلب سخت ی ناپسندیدہ بات پر ردِ عمل نہیں دیتے بلکہ برداشت کرتے ہیں۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے وہ(نیک لوگ) غصے کو پی جاتے ہیں اور دوسروں کو معاف کردیتے ہیں اور اللہ نیکی کرنے والوں کو پسند کرتا ہے (آل عمران:134)۔
ایک انسان اور پھر مسلمان کے لیئے اس سے بڑھ کر باعث ندامت کیا ہو گا کہ وہ کسی کی دلآزاری کا سبب بنے۔ایک بار حضرت ابوزرؓ حضرت بلالؓ سے خفا ہو گئے اور کالی عورت کے بیٹے کہہ کر ان کی دلآزاری کی،حضرت بلال ؓ رنجیدہ ہوئے اور نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاظر ہوکر تمام قصہ کہہ سنایا، آپﷺ نے حضرت ابوزر ؓ کو بلایا اور تنبیہ کرتے ہوئے ارشادفرمایا کیا ابھی بھی تمھارے اندر جاہلیت کی نشانی موجود ہے؟۔۔حضرت ابوزر ؓ اپنی غلطی کا احساس ہوتے ساتھ ہی وہیں زمین پر لیٹ گئے اور کہنے لگے کہ میں تب یہ سر یہاں سے نہ اٹھاؤں گا جب تک کہ بلالؓ مجھے معاف کر دیں،حضرت بلال ؓ نے فوراً انہیں معاف کردیا اور اپنے گلے سے لگایا۔
ارشادِ بنوی ہے جو نرمی سے محروم ہوتا ہے وہ ہر طرح کی بھلائی سے محروم ہوجا تا ہے(مسلم)۔ اینٹ کا جواب پتھر سے دینا،یا نادانستگی میں ہونے والی غلطی پر کسی کی سخت پکڑ کرنا مسلمان کا شیوہ ہرگزنہیں۔ہمیں اپنے طور اطوار تبدیل کرنا ہوں گے،اپنی عادات جو دوسروں کی دل آزاری کا سبب بنتی ہیں انہیں بدلنا ہوگا،کسی کا ایسا عمل جس سے کسی شخص کی ذاتی وابستگی ہو اس میں مین میخ نکالنے کی بجائے اس کے جذبات کو سمجھنا ہوگا اسی طرح ایک منظم اور صحتمند معاشری تشکیل پا سکتا ہے۔معاف کرنا سیکھئے،درگزر کا رستہ اپنائیے،خود چل کر آنے والے کو گلے سے لگائیے یہی انسانیت ہے اور یہی انسانیت کی معراج!

Facebook Comments

اسما مغل
خیالوں کے سمندر سے چُن کر نکالے گئے یہ کچھ الفاظ ہی میرا تعارف ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply