• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • جوڈیشل ریویو، آرٹیکل 238 اور ہمارا نقص فہم ۔۔آصف محمود

جوڈیشل ریویو، آرٹیکل 238 اور ہمارا نقص فہم ۔۔آصف محمود

آرٹیکل 239کی ذیلی دفعہ 5 کا کہنا ہے کہ آئین میں کی گئی کسی ترمیم کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا ۔ ذیلی دفعہ 6 کے مطابق پارلیمان کے آئین میں ترمیم کے اختیار لامحدود ہیں ۔ ان دو دفعات کی بنیاد پر بعض لوگ کہہ رہے ہیں کہ سپریم کورٹ کے پاس یہ اختیار نہیں تھا کہ وہ پارلیمان کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتی۔ یہ موقف آئین کے نقص فہم پر مبنی ہے۔ آئین کی کسی ایک شق کو پڑھ کر حتمی رائے قائم نہیں کی جا سکتی۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ مکمل آئین کا مطالعہ کیا جائے اور اس کی روح کو سمجھا جائے۔جب یہ کام کر لیا جائے تو معلوم ہو جائے گا کہ سپریم کورٹ کے پاس یہ اختیار موجود ہے اور وہ جوڈیشل ریویو میں پارلیمان کے فیصلے کو منسوخ کر سکتی ہے۔ مثال کے طور پر آرٹیکل 8 کو دیکھ لیجیے۔ اس میں لکھا ہے کہ بنیادی حقوق کے خلاف جو قانون بنے گا اس کی کوئی حیثیت نہیں ہو گی۔ اب اگر آرٹیکل 239 ک دیکھیں تو پارلیمان کا اختیار تو لامحدود ہے اور اس کے خلاف کوئی عدالت فیصلہ نہیں دے سکتی لیکن آرٹیکل 8 کی روشنی مین سپریم کورٹ پارلیمان کے ہر اس فیصلے کو منسوخ کر سکتی ہے جو بنیادی حقوق کے خلاف ہو۔ اسی طرح آرٹیکل 227 کہتا ہے کہ قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بن سکتا۔ اب پارلیمان ایسا قانون بنائے گی تو آرٹیکل 239 کے باوجود سپریم کورٹ اسے اڑا دے گی اور ختم کر دے گی۔ آئین کا ایک بنیادی ڈھانچہ بھی ہے جو مختلف عدالتی فیصلوں میں طے کر دیا گیا ہے کوئی پارلیمان اس بنیادی دھانچے کے خلاف بھی قانون نہیں بنا سکتی۔ اسی طرح کوئی ایسا قانون بھی پارلیمان نہیں بنا سکتی جو آئین کی کسی دفعہ کی روح کے خلاف ہو ۔ ایلکشنز ایکٹ 2017کو اسی لیے چیلنج کیا گیا اور اس میں جو فیصلہ آیا وہ ہمارے سامنے ہے۔ معاملے کو ایک سادہ مثال سے سمجھ لیجیے۔ کیا پارلیمان یہ فیصلہ کر سکتی ہے کہ آج کے بعد الیکشن نہیں ہوں گے اور نواز شریف اور آصف زرداری باری باری پانچ پانچ سال حکومت کیا کریں گے؟ سود جائز ہو گا؟ نواز شریف بابائے قوم ہوں گے؟ مجھے کیوں نکالا کو قومی ترانے کا درجہ دیا جائے گا ؟ وغیرہ وغیرہ ۔ ظاہر ہے اس کا جواب نفی میں ہے۔ اس لیے اس بحث کو کہ کون سپریم ہے ، پارلیمان یا سپریم کورٹ درست تناظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔یہاں ایک چیک ایند بیلنس ہے اور اس کی بنیاد آئین ہے۔ بادشاہت کے لامحدود اختیارات کسی کے پاس بھی نہیں۔نہ ہی پارلیمان میں اکثریت کی بنیاد پر کسی کو یہ اختیار ہے کہ جو مرضی چاہے قانون بنا لے۔ جوڈیشل ریویو عدالتوں کا اختیار ہے اور دنیا بھر میں عدالتیں اسے استعمال کرتی آئی ہیں۔امریکی سپریم کورٹ کے گیارہویں چیف جسٹس چارلس ایوین نے اس معاملے میں بڑی اہم بات کر دی ہے۔ان کی بات اس لیے اور زیادہ اہم ہے کہ وہ سیاست دان بھی رہے اور ری پبلکن پارٹی سے ان کا تعلق رہا۔ ان کا کہنا ہے :’’ہم آئین کے تابع ہیں لیکن جان لیجیے کہ آئین کیا ہے۔ آئین وہ ہے جیسے ہم جج اس کی تشریح کریں ‘‘۔

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply