پھولوں کی آرزو میں /پروفیسر رفعت مظہر

کسی بھی سیاسی جماعت سے تعلق کی بنیاد اُس کا جذبہئ حب الوطنی ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں معاملہ مگر یکسر مختلف کہ ہم نے ایسے بُت پال رکھے ہیں جن پر ہم اپنی عقیدتوں اور محبتوں کے پھول نچھاور کرتے رہتے ہیں۔ ہم یہ سوچنے کو تیار ہی نہیں ہوتے کہ ہمارے رَہنماء سے کوئی خطا بھی سرزد ہوسکتی ہے حالانکہ سوائے انبیاء کے معصوم عن الخطاء کوئی بھی نہیں ہوتا۔ یہاں ہر کسی کا اپنا اپنا ممدوح، اپنی اپنی ڈفلی، اپنا اپنا راگ۔ تحریکِ انصاف کے چیئرمین کے ساتھ جذبات کی یہ رَو باقی تمام سیاسی جماعتوں کے رَہنماؤں سے فزوں تر کہ وہ اپنے ممدوح کے بارے میں حرفِ تنقید برداشت ہی نہیں کرتے۔

لاڈلے کے سیاسی سفر پر اگر نظر ڈالی جائے تو ابتدا سے انتہا تک غلطیوں کے انبار نظر آئیں گے جن سے ہر دَور میں صرفِ نظر کیا جاتارہا اور آج بھی صورتِ حال وہی۔ 2014ء کے دھرنے میں زورآور اُس کی پُشت پر تھے اِس لیے سول نافرمانی کے باوجود کوئی اُس کا بال بھی بیکا نہ کرسکا۔ 2018ء کے عام انتخابات میں اِنہی زورآوروں نے لاڈلے کو قوم پر مسلط کرکے کھُل کھیلنے کا موقع فراہم کیا۔ جب وہ اقتدار میں آیا تو پاکستان دنیا کی 24ویں اکانومی تھااور جب گیا تو 47ویں۔ اُس نے اپنے دَور میں پاکستان کے 70سالوں میں لیے گئے قرضے کا 75 فیصد حاصل کیا اور لگائی ایک اینٹ بھی نہیں۔

جب زورآوروں کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو وہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار آئین کے عین مطابق نیوٹرل ہو گئے۔ جوں ہی زورآوروں نے اُسے گود سے اُتارا تو اعلیٰ عدلیہ نے آگے بڑھ کر گود لے لیا۔ جب اُس کے پاؤں کے نیچے سے زمین کھسکنے لگی تو اُس نے کہا “اگر مجھے نکالا گیا تو میں اور زیادہ خطرے ناک ہو جاؤں گا”۔ “خطرے ناک”تو 2014ء میں بھی تھا اور 9 مئی 2023ء میں بھی۔ وجہ صرف اور صرف ایک کہ 2014ء میں اسٹیبلشمنٹ اُس کی پُشت پر تھی اور تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد عدلیہ نے اُس کے حق میں ایسے فیصلے کیے جن پر تاریخِ عدل حیراں۔

یہ عدلیہ کی شہ ہی تو ہے کہ لاڈلا اپنے خلاف دائر کیسز کو جوتے کی نوک پر نہیں رکھتا۔ نیب بلاتی ہے تو وہ وی لاگ کرنے بیٹھ جاتا ہے اورایف آئی اے بلاتی ہے تو وہ خطاب میں مصروف ہو جاتاہے۔ اگر بلاضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہوتے ہیں تو وہ ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں پہنچ جاتا ہے۔ چشمِ فلک نے یہ عجب نظارہ کب دیکھا تھاکہ دھڑادھڑ اُس کی کبھی حفاظتی ضمانتیں اور کبھی راہداری ضمانتیں منظور ہوتی چلی جاتی ہیں۔ یہی نہیں بلکہ اُس کی عدم موجودگی میں بھی ضمانتیں منظور ہوتی ہیں اور ایک ہی وقت میں 15کیسز کی اکٹھی ضمانت بھی۔ طُرفہ تماشہ یہ کہ اُس کی تو اُن کیسز میں بھی ضمانت منظور ہوجاتی ہے جو ابھی دائر بھی نہیں ہوئے۔

توشہ خانہ کیس کی 28 سماعتیں ہوچکیں لیکن وہ لاڈلا ہی کیا جو عدالت کے سامنے پیش ہوکر صفائی پیش کرے۔ توشہ خانہ کیس کے ایڈیشنل سیشن جج ہمایوں دلاور نے وارننگ دی کہ اگر لاڈلا پیش نہ ہوا تو اُس کے بلاضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیئے جائیں گے لیکن پھر اگلے ہی دن اُس کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست بھی منظور کر لی۔ توشہ خانہ اور القادر ٹرسٹ ایسے “اوپن اینڈ شَٹ” کیسز ہیں جن سے لاڈلا کسی صورت بچ نہیں سکتا اور “ماں کے جیسی” عدالت اگر چاہے بھی تو اِن کیسز کو ختم نہیں کر سکتی۔ توشہ خانہ کیس میں الیکشن کمیشن اُسے نااہل قرار دے چکا ہے اور بجائے اِس کے کہ لاڈلا اِس کیس کا سامنا کرتا وہ کبھی ہائیکورٹ اور کبھی سپریم کورٹ کی پناہ میں چلا جاتا ہے کیونکہ اُسے یقین کہ سپریم کورٹ کی پناہ میں آنے کے بعد کوئی اُس کی طرف میلی آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکتا۔

سانحہ 9مئی تباہیوں اور بربادیوں کی ایسی المناک داستان ہے جس کی نظیر پاکستان کی 75سالہ تاریخ میں نہیں ملتی۔ یہ وہی دن ہے جب لاڈلے کو گرفتار کیا گیااور سپریم کورٹ کی اُس سے والہانہ عشق کی داستان رقم ہوئی۔ اُسے انتہائی احترام اور پورے پروٹوکول کے ساتھ سپریم کورٹ کے ججز گیٹ سے لایاگیا۔ کسی ملزم کو ججز گیٹ سے لانے کی یہ پہلی نظیر ہے۔ سپریم کورٹ آمد کے بعد چیف جسٹس محترم عمرعطا بندیال نے “گُڈ ٹو سی یو” کہتے ہوئے اُس کا استقبال کیا۔ پھر چیف صاحب نے فرمایاکہ وہ واپس پولیس لائینز گیسٹ ہاؤس میں جائے، وہاں گَپ شپ کے لیے آٹھ دَس بندے بلائے اور اگلے دن اسلام آباد ہائیکورٹ جا کر اپنی ضمانت کروا لے۔

چیف صاحب نے لاڈلے کو سانحہ 9مئی کی مذمت کرنے کے لیے بھی کہا لیکن لاڈلا مذمت کی بجائے طرح دے گیا۔ سپریم کورٹ سے واپسی پرلاڈلے کو “وِش یو گُڈ لک” کہتے ہوئے چیف جسٹس صاحب نے یہ بھی فرمایا کہ اگلے دن اسلام آباد ہائیکورٹ پہنچنے تک لاڈلا سپریم کورٹ کی تحویل میں ہے اور اسلام آباد پولیس لاڈلے کی سکیورٹی کی ذمہ دار۔ ایڈووکیٹ شاہ خاور نے کہا “میں نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں کسی ملزم کو ایسا ریلیف ملتے ہوئے نہیں دیکھاکہ ملزم کو رہا بھی کیا جائے اور ساتھ ہی ساتھ حفاظتی تحویل میں بھی رکھا جائے”۔ یہ بھی غالباََ پاکستان کی تاریخِ عدل کی پہلی مثال ہے کہ اُدھر احتساب عدالت ملزم کا ریمانڈ منظور کرتی ہے اور اِدھر اعلیٰ ترین عدلیہ اپنی محبتوں کے پھول نچھاور کرتی ہے۔ ایسے میں ہماری عدلیہ 130 ویں درجے کی مستحق بھی نظر نہیں آتی۔

اب ذرا اسرائیلی محبت کا اقوامِ متحدہ میں لاڈلے کے لیے اظہارِ محبت ملاحظہ ہو۔ اسرائیلی نمائندے نے لاڈلے کے حق میں جو جذباتی خطاب کیا وہ پوری قوم کے لیے لمحہئ فکریہ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ لاڈلے کو پاکستان پر مسلط کرنا عالمی لابی کے پلان کا حصّہ تھا۔ معروف سکالر ڈاکٹر اسرار احمد اور حکیم سعید تو بہت پہلے اِس کی طرف اشارہ کر چکے تھے لیکن کوئی بھی اہلِ فکرونظر اِس پر یقین کرنے کو تیار نہیں تھا۔ اب وفاقی وزیرِ ماحولیات شیری رحمٰن اور وزیرِاعظم کے معاونِ خصوصی عطااللہ تارڑنے پریس کانفرنس کرتے ہوئے بَرملا کہہ دیا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کے اسرائیل اور بھارت سے تانے بانے جُڑے ہیں۔ وفاقی وزیرِتوانائی خرم دستگیر نے پریس کانفرنس میں کہا “اسرائیل کی تاریخ فلسطینیوں کے خون سے لکھی گئی ہے اِس لیے اُسے انسانیت کا درس نہیں دینا چاہیے”۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ اِس معاملے کی اعلیٰ سطحی انکوائری ہونی چاہیے کیونکہ اگر یہ سچ ہے تو پھر واقعی لاڈلا تباہیوں کی داستانیں رقم کرنے آیا تھا۔ ایسی صورت میں یہ طے کرنا ہوگا کہ میر جعفروصادق کون ہے؟

مجھے کل بھی یقین تھا اور آج بھی ہے کہ لاڈلے کے پیروکار اُس کے دکھائے گئے سہانے سپنوں کی وجہ سے اُس کے گرد پروانہ وار اکٹھے ہوئے اور اب سب سے زیادہ مایوس بھی وہی ہوں گے کیونکہ اُن کے سارے خواب چکناچور ہوگئے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہ کہہ رہے ہوں کہ

ہم راہرو سمجھ کے جسے پوجتے رہے

اُس نے ہماری راہ میں کانٹے بچھائے ہیں

کانٹو ں سے دل لگائیں نہ اب ہم تو کیا کریں

Advertisements
julia rana solicitors london

پھولوں کی آرزو میں بڑے زخم کھائے ہیں

Facebook Comments

پروفیسر رفعت مظہر
" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی بات قطر کے پاکستان ایجوکیشن سنٹر (کالج سیکشن)میں ملازمت کی آفر ملی تو ہم بے وطن ہو گئے۔ وطن لوٹے تو گورنمنٹ لیکچرار شپ جوائن کر لی۔ میاں بھی ایجوکیشن سے وابستہ تھے ۔ ان کی کبھی کسی پرنسپل سے بنی نہیں ۔ اس لئے خانہ بدوشوں کی سی زندگی گزاری ۔ مری ، کہوٹہ سے پروفیسری کا سفر شروع کیا اور پھر گوجر خان سے ہوتے ہوئے لاہور پہنچے ۔ لیکن “سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں“ لایور کے تقریباََ تمام معروف کالجز میں پڑھانے کا موقع ملا ۔ زیادہ عرصہ یونیورسٹی آف ایجوکیشن لاہور میں گزرا۔ درس و تدریس کے ساتھ کالم نویسی کا سلسلہ بھی مختلف اخبارات میں جاری ہے۔ . درس و تدریس تو فرضِ منصبی تھا لیکن لکھنے لکھانے کا جنون ہم نے زمانہ طالب علمی سے ہی پال رکھا تھا ۔ سیاسی سرگرمیوں سے ہمیشہ پرہیز کیا لیکن شادی کے بعد میاں کی گھُٹی میں پڑی سیاست کا کچھ کچھ اثر قبول کرتے ہوئے “روزنامہ انصاف“ میں ریگولر کالم نگاری شروع کی اور آجکل “روزنامہ نئی بات“ میں ریگولر دو کالم “قلم درازیاں“ بروز “بدھ “ اور “اتوار“ چھپتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply