• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • دو قومی نظریہ کے ورق کوٹنے بند کیجیے۔۔۔اسد مفتی

دو قومی نظریہ کے ورق کوٹنے بند کیجیے۔۔۔اسد مفتی

گزشتہ دنوں میرے دوست معروف سیاستدان،دانشور اور قانون دان ایس ایم ظفر کا ایک مضمون میری نظر وں سے گزرا جو نظریہ پاکستان کے حوالے سے کافی وزنی دلائل رکھتا تھا انہوں نے اپنے مضمون میں ماضی کو بھول کر آگے بڑھنے کا مشورہ دیا ہے۔
میں بھی یہ سمجھتا ہوں کہ ہمیں دو قومی نظریے کے ورق کوٹنے کی بجائے آگے کی سمت دیکھنا چاہیئے۔دو قومی نظریہ یا نظریہ پاکستان تاریخ بن چکا ہے اور تاریخ میں کوئی لفظ آخری نہیں ہوتا،تاریخ ملک،وقت،حالات اور کردار سے بدلتی رہتی ہے یہ ایک قانونِ فطرت ہے تاریخ بعض اوقات حالات کے جبر کا نتیجہ ہوتی ہے بعض اوقات تاریخ ساز انسانوں کے عمل کا نتیجہ،تاریخ ساز انسان اپنی دانشمندی اور تدبر کے ساتھ زوال پذیر قوم کو سہارا دے کر عروج کی طرف گامزن کرتے ہیں اور بعض اوقات ان افراد کی غلطیوں کے نتیجے میں زوال کا عمل تیز ہوجاتا ہے بدقسمتی سے پاکستان کی تاریخ میں یہی ایک عمل کار فرما ہے۔
برسوں سے پاکستان کی فضا میں ایک واویلا سنا ئی دے رہا ہے بہت سے نابالغ بزرگ اور بزرگ طبع نابالغ منہ آسمان کی طرف اٹھا کے دھائی دے رہے ہیں کہ نظریہ پاکستان خطرے میں ہے دو قومی نظریہ ختم ہو تا جا رہا ہے،اسلام خطرے میں ہے پاکستان خطرے میں ہے خدا تو ہماری مدد کو آ۔لوگ ہماری زریں روایات سے باغی ہو رہے ہیں وغیرہ وغیرہ۔یہ واویلا پرانے اور نئے میں،ناتواں اور توانا میں خدشہ اور خواہش میں ایک ملک گیر تضاد کی علامت ہے،وہ لوگ جو مذہب اور نظریہ پاکستان اور اسکی روایات کارجلیلہ ہوتے ہیں اپنے ناتواں کندھوں پر لئیے کھڑے ہیں ان بنیادی اور عالمگیر حقیقت و سچائی سے بے خبر معلوم ہوتے ہیں کہ نسلوں کے شور ان کے مادہ صورت حال سے متشکل  ہوتے ہیں زندگی کا ایک محکم اصول یہ ہے کہ اگر کچھ لوگ ایک بے معنی نعرہ لگا رہے ہوں توہمیں چاہئے کہ ہم ان بے معنی نعروں کو نظر انداز کر کے یہ دیکھیں کہ طاقتیں کس طرف جا رہی ہیں کہ زندگی میں بالآخر جو چیز باقی رہ جاتی ہیں وہ تاریخ کی طاقتیں ہیں۔
دو قومی نظریہ یا نظریہ پاکستان کیا ہے؟برطانوی برصغیر کا خود ساختہ تضاد ہندو مسلم تضاد تھا جو ہندوؤں اور مسلمانوں کے باہم اور متواتر حاکم و محکوم تعلق سے ہندو بنیوں کی لوٹ کھسوٹ سے شدید سے شدید تر ہو گیا اور بالآخر دو قوموں کی مصنوعی صورت حال میں حل ہو گیا۔تضاد کے ہر جانے کے بعد عوامل اور عناصر اپنی پہلی حالت میں نہیں رہ سکتے بلکہ نئی صور ت حال میں آہستہ آہستہ ختم ہو جاتے ہیں۔مذہبی اختلافات اس وقت تک ہی رہ سکتے ہیں جب تک کہ ان مذاہب اور ان معاشرتی مفادات کے لئیے لڑنے والے  تضاد کے مر جانے کے بعد عوامل اور عناصر اپنی پہلی حالت میں نہیں رہ سکتے،جب تک ان مذاہب اور ان معاشرتی مفادات کے لیے لڑنے والے باہم ٹکراتے رہیں۔مسلمانوں کا ایک الگ علاقہ (پاکستان) الگ حکومت،الگ حیثیت کا مالک بن جانے کے بعد ان کا ہندوؤں  کے ساتھ مسلسل ٹکراؤ ختم ہوگیا۔اور ان کی تہذیب اور ان کا مذہب مکمل تباہی کے خطرے سے “نکل گئے،اب پاکستان کے لیے یا بنگلہ دیش کے لیے مذہب یا نظریہ پاکستان یا نظریہ بنگلا دیش یا دو قومی نظریہ کے موضوع پر پریشان ہونے کا کوئی تجاوز نہیں رہا۔اگر ہنوز دو قومی نظریہ زندہ ہوتا تو بنگلہ دیش بننے کا جواز تھا؟اور مستقبل میں جو جغرافیائی توڑ پھوڑ ہونے کا امکان ہے اس کا دو قومی نظریہ یا نظریہ پاکستان سے کیا علاقہ بنتا ہے؟تو کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ پاکستان کے عالم وجود میں آنے کے بعد دو قومی نظریہ نامی چڑیا اپنے گھونسلے کو خیر آباد کہہ چکی ہے۔
نظرہونا اور بات ہے،نظر یہ ہونا دوسری بات ہے،نئی نسل وہ نسل ہے جس نے دو قومی نظریہ یا پاکستان کے بننے کے بعد ہوش سنبھالا۔ اب اس نسل کے لیے تحریک آزادی،اکھنڈ بھارت تحریک اور تحریک پاکستان کی حیثیت تاریخی واقعات کے سوا کچھ نہیں،کہ ان کا علم تاریخ کی کتابوں کے ذریعے ملا ہے۔انہیں خود اس قسم کا کوئی تجربہ نہیں،جب نئی نسل نے ہوش سنبھالا تو اس وقت ہندوستان کی تحریک آزادی کے بنیادی تضادات حل ہوچکے تھے۔تحریک آزادی میں بر صغیر کے تمام طبقے اور تمام گروہ غیر ملکی استبداد کے خلاف عمل کے میدان میں متحد تھے مگر تحریک پاکستان کے حوالے سے دو آراء تھیں،کئی مذہبی جماعتیں (26بڑی جماعتو ں میں سے 23 تقسیم ملک کے خلاف تھیں) بھی پاکستان کی تخلیق کے خلاف تھیں مگر جہاں ان کا مہیب تضاد برطانوی استعمار کے خلاف تھا،وہیں دوسرا بڑا تضاد ملک کے اندر دو بڑے گروہوں کا آپس میں بھی تھا،یہ دو گروہ ہندو اور مسلمانوں کے گروہ تھے۔ ان گروہوں کا برطانوی استعمار کے خلاف مشترکہ خالص معاشرتی،سائنسی اور سیاسی تھا(مذہبی اس لیے تھا کہ تعداد کے لحاظ سے مسلمان اب بھی بھارت ہی میں زیادہ ہیں)۔علاوہ ازیں بنگلہ دیش کی روشن مثال بھی ہمارے سامنے ہے۔لیکن ان گروہوں کے آپس کے معاشی،معاشرتی اور سیاسی تضادات کو مذہبی رنگ دے دیا گیا۔آزادی کے قریب آتے آتے ہندوستان کے ان گروہوں کے درمیان تضادات زیادہ واضح اور گہرے ہوتے گئے۔اور یوں آزادی اور تقسیم کے مراحل ایک ہی جست میں طے ہوگئے۔پاکستان کی تخلیق کے بعد ہندوؤں کے ساتھ تضادات ختم ہوجانے کے بعد پاکستانی قوم اپنی حالتِ زار اور اندر کے مسائل سے دو چار ہوئی۔داخلی مسائل میں سے ایک مسئلہ یہ بھی کھل کر سامنے آگیا کہ جو لوگ خوشحالی پانے میں کامیاب ہوگئے،انہوں نے اقتدار اعلی کی طرف دھیان دینا شروع کیا اور جو لوگ اس دوڑ میں یعنی بد عنوانیوں کے عمل میں پیچھے ر ہ گئے،مستقبل سے خفگی اور مایوسی کا اظہار کرنے لگے۔اس طرح عام مایوسی کی فضا پیدا ہوتی چلی گئی۔ایسی صورت میں دو قومی نظریہ کا کیا ہوا؟ اگر وہ موجود ہے تو تھیلے سے باہر لائی یاور مسائل حل کیجئے ورنہ تاریخ کی طاقتوں کا ساتھ دیتے ہوئے اور زمینی حقیقتوں کا ادراک کرتے ہوئے آگے بڑھیے مگر میں جانتا ہوں اور ان لوگوں کو بھی جانتا ہوں جو یہ سمجھتے ہیں کہ نیک ارادوں سے ملک کو جہنم بنایا جاسکتا ہے۔
آج عالم یہ ہے کہ دو قومی نظریہ یا نظریہ پاکستان کی موجودگی  پر زور دینے والے اس بات پر متفق ہو نہیں پا رہے کہ اس نظریہ کا بانی کون تھا۔کوئی اسے علامہ اقبال کے کھاتے میں ڈالتا ہے تو کو ئی اسے محمد علی جناح کے نام سے منسوب کرتا ہے۔کوئی اسے سر سید کی ایجاد سمجھتاہے تو کوئی اسے عبدلحلیم شرر کے ہفت روزہ “مہذب” کے صفحات میں تلاش کرتا ہے۔کوئی اے مولانا محمد علی جوہر کے سر پر رکھی ٹوپی سمجھتا ہے تو کوئی اس کا منصوبہ ساز عبدالباری اور عبدالستار خیری کو سمجھتا ہے۔کوئی اسے عبدالقادر بلگرامی کے مہاتما گاندھی کے نام لکھے خط سے عیاں کرتا ہے،کوئی اسے مولانا شوکت علی کی ایک تقریر کو بنیاد بناتا ہے۔جس میں انہوں نے ہندو انڈیا اور مسلم انڈیا کا فلسفہ پیش کیا تھا۔کوئی اسے مولانا حسرت موہانی کا نظریہ سمجھتا ہے اور کوئی اسے لالا لجپت رائے کی ذہن کی مسلم دشمنی اختراع سمجھتا ہے۔اور کوئی اسے انگریز وں کا نظریہ ضرورت سمجھتا ہے۔اور یہ تو ہم سب ہی جانتے ہیں کہ موحوم زیڈ اے سلہری اسے محمد بن قاسم کی سندھ میں آمد پر معمور کرتے ہیں۔انتہا یہ ہے کہ افسانہ نگار مرحوم اشفاق احمد نے یہ تک کہہ دیا کہ “دو قومی نظڑیہ کوئی تحریک پاکستان کے سیاسی مفکرین کی منطقی پیداوار نہیں ہے،جب رسول اللہ ﷺ اس دنیا میں تشریف لے آئے تو دو قومی نظریہ پیدا ہوگیا “۔
سو پیارے دوستو!اس تمام صورت حال کے باوجود آپ کو مایوسی کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔عمل ہمیشہ فکر کے تحت ہوتا ہے،فکر اگر صحیح نہ ہو تو عمل بھی صحیح نہ ہوگا۔یہی جڑ کی بات ہے۔جو قومیں ماضی کے سہارے زندہ رہتی ہیں وہ آثار قدیمہ کا حصہ بن جاتی ہیں،اس لیے ضروری ہے کہ ہم دو قومی نظریہ یا نظریہ پاکستان یا جو بھی ہے کو بھول کر اور ماضی کے جنجال سے رہائی پا کر پاکستان کے حقیقی و باطنی مسائل کا شعور اور بین الاقوامی تعلقات کے سلسلے میں نیا احساس جو اس بنیاد پر ایک نئی تعمیر کا نقشہ متعین کرتا ہے کو سمجھنا چاہیے،یہی تاریخ کا تقاضا ہے ،یہی عقل کا فیصلہ ہے اور اسی میں ملک شاد باد کی ترقی کا راز چھپا ہوا ہے۔اس کے سوا جو کچھ ہے وہ نعرہ بازی ہے نہ کوئی واقعی نظریہ۔ یا کوئی حقیقی سیاست۔۔۔ان حقائق کی پسِ پشت ڈال کر برائیوں کے خاتمے کی امید رکھنا بغیر بیج بوئے فصل اگنے کا انتظار کرنے کے مترادف ہے

Facebook Comments

اسد مفتی
اسد مفتی سینیئر صحافی، استاد اور معروف کالم نویس ہیں۔ آپ ہالینڈ میں مقیم ہیں اور روزنامہ جنگ سے وابستہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply