ایک متعصبانہ فیصلہ ۔۔ حیدر سید ایڈووکیٹ

دستور ایک عمرانی معاہدہ یا سوشل کنڑیکٹ ہے جس کے تحت ایک ریاست کے شہری اپنی آزادی کو کچھ بنیادی حقوق کی ضمانت کے عوض ریاست کے جبر کے سامنے سر نڈر کر دیتے ہیں۔ جدید ریاست میں رعایا سے شہری بننے کے عمل نے ایک ریاست کی حدود میں بسنے والے افراد کے بنیادی حقوق کو تسلیم کئے جانے کے ساتھ ساتھ نمو پائی ہے۔

ریاست یا پولیٹکل سائنس کی زبان میں حکومت کے تمام ادارے یعنی پارلیمنٹ ، ایگزیکٹو اور جیوڈیشری انہی بنیادی حقوق کی حفاظت اور نفاذ کے لئے قائم کئے جاتے ہیں۔

پاکستان میں ایگزیکٹو پر عدالتی نظرثانی کے اختیارات شہریوں کے بنیادی حقوق کا نفاذ یقینی بنانے کے لئے آئین کے آرٹیکلز ایک سو ننانوے اور ایک سو چوراسی (تین) کے تحت ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کو تفویض کئے گئے ہیں ۔ امریکی اور ہندوستانی آئین کے برعکس پاکستان کے آئین میں پارلیمنٹ کی طرف سے قانون سازی پر عدالتی نظر ثانی کرنے کے لئے علیحدہ سے کوئی اختیارات کسی بھی اعلی عدالت کو نہیں دئیے گئے۔ قانون سازی کرتے ہوئے پارلیمنٹ پر بنیادی حقوق اور دستور کی پاسداری کی جو شرط عائد کی گئی ہے، اعلی عدالتیں قانون کی تعبیر و تشریح کا حق استعمال کرتے ہوئے کسی قانون کو دستور کے متصادم قرار دے سکتی ہیں البتہ اپنے اصل اختیار سماعت (original jurisdiction) میں یہ اختیار صرف بنیادی شہری حقوق کے تحفظ کے لئے استعمال ہو سکتا ہے۔ عام خیال کے برعکس “دستور کی حفاظت کی ذمہ داری سپریم کورٹ کی ہے” جیسی کوئی سٹیٹمنٹ دستور میں نہیں پائی جاتی بلکہ اپنے اوریجنل اختیار سماعت (original jurisdiction) میں سپریم کورٹ کے اختیارات ہائی کورٹس سے کم ہیں اور سپریم کورٹ صرف ایسے معاملات پر اپنی رائے یا حکم دے سکتی ہے جن کا تعلق بنیادی انسانی حقوق کے ساتھ ساتھ شہریوں کی بڑی تعداد کے مفاد عامہ سے بھی جڑا ہو۔

قصہ مختصر یہ کہ آئین کی دونوں دفعات کے تحت اپنے اصل اختیار سماعت(original jurisdiction) میں عدالت عالیہ یا عدالت عظمی صرف اور صرف بنیادی حقوق کا نفاذ کرتے ہوئے کسی قانون  کو کالعدم قرار دے سکتی ہیں۔

اب تھوڑی دیر کے لئے یہ بھول کر کہ آج عدالت عظمی کے فیصلے کی پولیٹکل پوائنٹ سکورنگ کس کے حق میں جائے گی، اس فیصلے کے بنیادی شہری حقوق  پر   اثرات پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

آئین کا آرٹیکل سترہ یہ کہتا ہے کہ ریاست کے ہر شہری کو جماعت سازی کا حق حاصل ہے۔ اس حق پر صرف اور صرف پاکستان کی سالمیت، بقاء اور امن عامہ یا اخلاقیات کی صورت میں مناسب پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں۔ جبکہ دستور کے آرٹیکل باسٹھ اور تریسٹھ کے تحت ارکان پارلیمنٹ کی اہلیت کے معیارات طے کئے گئے ہیں جن کا شہریوں کی جماعت سازی کے حقوق سے کوئی تعلق نہیں۔

سپریم کورٹ کے سامنے سوال یہ تھا کہ کیا پارلیمنٹ کے پاس کردہ قانون کا ایک خاص سیکشن آئین میں دئیے گئے بنیادی انسانی حقوق سے متصادم ہے یا نہیں۔ اس خاص سیکشن کو پورے دستور کی بجائے صرف اور صرف بنیادی حقوق کے مقابل رکھ کر اس کا موازنہ کیا جانا مقصود تھا چونکہ سپریم کورٹ یہ معاملہ ایک سو چوراسی (تین )کے تحت سماعت کر رہی تھی جو بنیادی حقوق کے نفاذ کا اختیار سپریم کورٹ کو دیتا ہے۔

آج کا فیصلہ یہ کہتا ہے کہ آئین کا آرٹیکل سترہ اپنی جگہ موجود مگر اس میں کچھ باتیں مزید شامل ہونی چاہییں  اور وہ باتیں آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ میں ایک اور ہیڈنگ کے ساتھ موجود ہیں چنانچہ پاکستان کے شہریوں کا جماعت سازی کا حق آئین کے آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ کے تابع رکھ کر پڑھا جائے گا یعنی دوسرے  الفاظ میں الیکشن کمیشن یا عدالت کو یہ طے کرنے کا اختیار دے دیا گیا کہ پاکستان کا کوئی شہری بنیادی حقوق میں سے ایک حق استعمال کرنے کا استحقاق رکھتا ہے یا نہیں۔

دستور کے آرٹیکل آٹھ کے مطابق ریاست کوئی بھی ایسی قانون سازی نہیں کر سکتی جو دستور میں دئیے گئے بنیادی حقوق کو ختم کرتی ہو یا انہیں محدود کرتی ہو۔ ایسے تمام قوانین جو بنیادی حقوق کے منافی ہوں انہیں کالعدم تصور کیا جائے گا۔

سوال صرف اتنا سا ہے کہ اگر پارلیمنٹ کا حق قانون سازی غیر محدود نہیں ہے تو کیا سپریم کورٹ کو قانون کی تعبیر و تشریح کے نام پر غیر محدود اختیارات حاصل ہیں۔ کیا بنیادی حقوق کی تحدید کرنے والا کوئی قانون یا کوئی عدالتی فیصلہ دونوں ہی آئین کے آرٹیکل آٹھ کی رو سے غیر موثر تصور نہیں ہوں گے۔ ۔

Advertisements
julia rana solicitors

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”ایک متعصبانہ فیصلہ ۔۔ حیدر سید ایڈووکیٹ

Leave a Reply