عرب اسلامی ممالک کی تحریک آزادی نسواں کا آغاز مصر کے معروف ادیب اور سماجی مصلح اور پیشے کے اعتبار سے جج قاسم آمین کے افکار سے ہوا ، مگر اسی تحریک ِآزادی نسواں کے افکار و نظریات کی توسیع و اشاعت میں ھدیٰ شعراوی ( 1879 ء تا 1949ء) کا نام ہمیشہ عرب کی تاریخ میں یاد رکھا جائے گا ، عرب دنیا کی پہلی فیمنسٹ خاتون ھدی الشعراوی نے عرب اسلامی دنیا میں تحریک آزادی نسواں میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ ھدی شعراوی کا پورا نام نور الہدیٰ سلطان تھا، مگر ھدیٰ شعراوی کے نام سے مشہور ہوئیں۔ یہ بالائی مصر کے ایک علاقے میں پیدا ہوئی، ابتدائی تعلیم و تربیت قاہرہ ہی میں حاصل کی، حفظ ِقرآن کے ساتھ فرانسیسی زبان میں بھی مہارت حاصل کرلی۔ 13 برس کی عمر میں اپنے چچازاد بھائی علی شعراوی سے ان کا نکاح ہوا اور رخصتی عمل میں آئی، لیکن ایک سال بعد ہی سات سال کے لئے شوہر سے علیحدگی ہوگئی۔ اس دوران یہ تحریک ِآزادی نسواں سے متعارف ہوئیں۔ 1909ء میں قاہرہ یونیورسٹی میں پہلی بار خواتین کے لئے خواتین کے ذریعے لیکچرز کا اہتمام کیا۔ 1914ء میں خواتین کے اندر مغربی اندازِ زندگی پیدا کرنے کے لئے “الاتحاد النسائی التہذیبی” نامی تنظیم کی بنیاد رکھی اور اسی مقصد کے لئے ایک دوسری انجمن کا قیام بھی عمل میں لایا گیا۔ مذہبی حلقوں کا ماننا ہے کہ ان تنظیموں کا مقصد ادب و ثقافت کے خوشنما نعروں کے پردے میں مصری خواتین کو اسلام کے خلاف بغاوت پرآمادہ کرنا تھا۔ 1919 ء میں خواتین کی ایک احتجاجی ریلی منظم کرنے کے بعد وفد پارٹی کی خواتین شاخ “لجنة الوفد المرکزیة للسیدات” (خواتین کے لئے مرکزی وفد کی کمیٹی) کی مرکزی صدر مقرر کردی گئیں۔ 1923ء میں آزادی کے حصول کے بعد شعراوی نے ‘الاتحاد النسائی المصری’ کی تاسیس کی اور اس کی صدر مقرر ہوکر مصر میں پہلی باقاعدہ تحریک ِنسواں کی بھرپور قیادت کی۔ اسی سال روم کی ایک بین الاقوامی خواتین کانفرنس میں شرکت کے بعد وطن واپس آئیں تو ایک سیاسی مظاہرے میں شرکت کرتے ہوئے پہلی مرتبہ عوام کے سامنے چہرے کا نقاب نوچ کر پھینک دیا، اس کے بعد بے حجابی ان کا شعار بن گیا۔
اس واقعہ کے بارے میں احسان الحق شہباز اپنی کتاب میں لکھتے ہیں۔
“سعد زغلول برطانیہ سے اسلامی تعلیمات میں فساد پیدا کرنے کے لئے تیاری کرکے آیاتو اس کے استقبال کے لئے دو لائنوں میں ایک طرف مردوں اور دوسری طرف عورتوں کو کھڑا کیا گیا ،جب وہ طیارے سے نیچے آیا،تو عورتوں کی لائن کی طرف آیا،ھدی شعراوی نے پردہ کیا ہوا تھا،یہ اس کے سامنے گئی تو اس نے سب کے سامنے ہاتھ بڑھا کر اس کاپردہ اتار دیا،تو سب تالیاں بجانے لگے اور سب نے حجاب اتار دیے،اس سے بھی افسوس والی بات یہ ہے کہ دوسرے دن سعد زغلول کی بیوی نے قاہرہ میں قصرنیل کے سامنے عورتوں کا جلوس نکالا اور دوران مظاہرہ ان سب نے اپنے پردے اتارے ،انہیں پاؤں تلے روندا،پھر آگ لگاکر جلا دیا، اور عورت کی آزادی کا اعلان کیا اور اس وجہ سے اس میدان کا نام ”آزادی کا میدان“ ”میدان التحریر“ رکھا گیا” ۔
(احسان الحق شہباز کی کتاب ”اسلام ،عورت اور یورپ“ سے اقتباس)
ماضی قریب کے دنوں میں مصر کے عرب اسپرنگ میں یہی تحریر اسکوائر مرکز انقلاب رہا تھا۔
1924ء میں ھدی الشعراوی نے خواتین کے مفت علاج کے لئے ‘دارالتعاون الاصلاحی’ (اصلاحی تعاون گھر) کا سنگ ِبنیاد رکھا۔ 1925ء میں فرانسیسی زبان میں ایک ماہنامہ (Egyptienne) جاری کیا۔ 1937ء میں عربی زبان میں ماہنامہ المصریة کابھی آغاز کردیا گیا۔ ان دونوں رسالوں نے تحریک ِآزادی نسواں کے افکار ونظریات کی خوب اشاعت کی اور پردے سے متعلقہ اسلام کے روایتی تصورات پر حملے کیے۔
اسلامی جمہوریہ مصر میں تحریک ِآزادی نسواں کی مخالفت بھی سامنے آئی۔ چنانچہ مصری خواتین کو اسلام کے نظام ستروحجاب سے آگاہ کرنے اور اجنبی مردوں سے ان کے آزادانہ میل جول کے خلاف ‘الاخوان المسلمون’ کی خواتین شاخ الأخوات المسلمات نے بہت اہم کردار ادا کیا۔ اس کے علاوہ نعمت صلاتی نے التبرج اور مصر کے نامور محقق اور ماہر انشا پرداز محمد فرید وجدی (1878ء تا 1954ء) نے “المرأة المسلمة” لکھ کر اسلام کے نظامِ عفت و عصمت کا موثر انداز میں دفاع کیا۔اسی کتاب کا ترجمہ برصغیر میں اسی دور میں مولانا ابوالکلام آزاد نے’ مسلمان عورت’ کے نام سے کیا تھا۔
1921ء میں روم میں تحریک آزادی نسواں کی کانفرنس منعقد ہوئی تھی، جس میں شریک ہونے والی ھدی الشعراوی کی معیت میاں جن چند مصری خواتین نے واپس پہنچ کر مصر کی سڑکوں پہ اپنے حجاب اتار کر پاؤں میں روندے تھے۔ یہی سلسلہ بنیاد بنا جو ایران میں رضا شاہ کہ حکم امتناع حجاب کے ساتھ یوں آگے بڑھا کہ سکولز ،یونیورسٹیز اور دفاتر کے دروازے با حجاب لڑکیوں اور عورتوں پر بند ہوگئے 1925ء میں ترکی میں حجاب پر باقاعدہ پابندی لگ گئی پھر یہی سلسلہ افغانستان جیسے ملک تک جا پہنچا ، وہاں کا حکمران امان اللہ خان بھی انہی تصورات کا اسیر بنا، عرب ممالک بھی اس تحریک کا شکار ہوئےاور بہت سی این جی اوز وجود میں آئیں اکیلی ھدی شعراوی نے مصر میں 25 تنظیموں کی بنیاد ڈالی ، ھدی الشعراوی کی اس ساری کاوش کو مصر کے روایت پسند حلقوں کے مطا بق یہ تمام تحاریک عورتوں کو حقوق دلانا نہیں بلکہ عورت کو حقوق کا دھوکہ دے کر اباحیت عام کرنا ، فحاشی پھیلانا،عفت وعصمت پامال کرکے مسلمان عورت کو بازار کی زینت بنا کر خاندان کے انسٹی ٹیوشن کو تباہ کرنا سمجھتے تھے۔
قاہرہ مصر میں 1914ء میں مصر میں عورتوں کا اجتماع کرکے آزادی نسواں کی تحریک کا آغاز کرنے والی ھدی شعراوی 1949 ء میں انتقال کرگئی، ھدی الشعراوی عرب دنیا کی پہلی عورت تھی جس نے سب سے پہلے اپنی ریاست میں حجاب اٹھا کر آزادی کا نعرہ لگایا تھا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں