ریپ اور عمران خان صاحب کی نرگسیت(1)۔۔محمد وقاص رشید

عمران خان صاحب کی جماعت کا ایک کارکن رہتے ہوئے میں انکے جلسوں اور دھرنوں وغیرہ میں جاتا رہتا تھا ۔ان جلسوں اور دھرنوں میں ایک چیز جو میرے لیے سب سے زیادہ ذہنی اذیت کا باعث ہوا کرتی تھی وہ تھی خواتین کے ساتھ ہراسانی کے واقعات۔ اسے میری محدود سوچ کہہ لیجیے کہ میرے لیے یہ بات ناقابلِ فہم و ہضم تھی کہ ملک میں انصاف کی جدوجہد کے لیے گھروں سے نکلنے والے کیا خود اپنی ہم آواز و ہم خیال قوم کی بیٹیوں کو اپنی بہنیں سمجھنے کا ظرف نہیں رکھتے۔؟ دھرنے کے دوران خواتین کی ہراسانی کے شرمناک واقعات پیش آئے۔

ایک دن عمران خان نے اپنے خطاب کے دوران رک کر کنٹینر کے بائیں جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ “میں تمہیں دیکھ رہا ہوں خواتین والے حصے سے پیچھے ہٹ جاؤ۔۔ مجھے شرمندہ مت کروانا ” پھر سکیورٹی یا انتظامیہ کو کہا انکو پیچھے کرو یہاں سے۔اور پھر خواتین کے تحریکِ پاکستان سے لے کر تحریک انصاف کے لیے گھروں سے نکلنے اور ملکی سیاست میں کردار ادا کرنے پر ایک لیکچر دیا۔

مولانا فضل الرحمان نے فلور آف دی ہاؤس جو گفتگودھرنے کے ہنگام تحریک انصاف کی خواتین سے متعلق کی تھی وہی اس وقت رائے عامہ تھی۔اپنی نوکری سے چھٹی لے کر پولیس کی لاٹھیوں میں وہاں جا کر سڑک پر سونے والے میرے جیسے دیوانوں کو لوگ جب مولانا فضل الرحمٰن والا طعنہ دیتے تھے تو اتنا ہی دکھ ہوتا جتنا وہاں انصاف کی تحریک کے مرد کارکنان کے خواتین کارکنان کو ہراساں کرنے پر ہوتا تھا۔۔۔ فضل الرحمن صاحب کے اس بیان پر عمران خان نے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا “جو زبان تم نے اسمبلی کے فلور پر میری ان بہنوں کے متعلق استعمال کی تمہیں میں کبھی معاف نہیں کروں گا “۔

اپوزیشن کے اس  دور میں عمران خان کو جب حکمرانی ملی تو ان سے اپنی حکومت کی آدھی معیاد پوری کر چکنے پر ایک پاکستانی کی جانب سے سوال ہوا کہ انکی زیرِ انتظام و انصرام ریاست میں بچوں سے جنسی زیادتی کے واقعات کیوں بڑھ رہے ہیں اور مجرم لٹکتے نظر کیوں نہیں آ رہے ؟ اگر انکے افکار وہی اپوزیشن لیڈر والے عمران خان کے ہوتے تو انکا جواب انگلی اٹھا کر مجرموں اور انتظامیہ کو متنبہ کرتے ہوئے بطورِ حکمران دو حصوں پر مشتمل ہو سکتا تھا۔۔ایک اب تک بچوں کی حفاظت کے لیے کیا اقدامات کئے گئے انکے نتائج کامیابی ناکامی وغیرہ اور انکی روشنی میں آئندہ کا لائحہ عمل کیا ہو گا اسکی منصوبہ بندی۔۔۔ لیکن 180 ڈگری پر تبدیل شدہ ایک واعظ کی خو میں رہنے والے حکمران نے اسکی Reasoning پر بات کرتے ہوئے وہ موقف اختیار کیا جو مندرجہ بالا تناظر میں اپوزیشن والے عمران خان سے حسبِ معمول متضاد تھا۔ یہی افکار ان کے اس وقت اور حالات کے تناظر میں ہوتے تو وہ کنٹینر سے کہتے کہ خواتین دھرنے میں نہ آئیں اگر آنا ہے تو پردہ کر کے آئیں میرے کارکنوں میں سے کچھ کی will power کم ہے اور وہ روبوٹ بھی نہیں ہیں انہیں temptation دینا بند کریں اور با پردہ رہیں تا کہ جنسی ہراسانی کو روکا جا سکے لیکن تب شاید انکی سیاسی مجبوری تھی۔یا پھر تب انکے افکار ان لبرلز والے تھے جن پر وہ اور انکے عشاق تنقید کرتے ہیں۔

حال ہی میں HBOٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے victim blaming کے سوال کے جواب میں اپنے اس تبدیل شدہ موقف کی تفصیل بیان کرتے ہوئے انہوں نے اس حساس ترین معاملے پر قوم کو یکسو کر کے نبرد آزما کرنے کی بجائے مزید ایک غیر ضروری تقسیم سے دو چار کر دیا۔۔میں تنقید کرتے ہوئے ذاتیات اور نجی معاملات کو زیرِ بحث لانے کا قائل نہیں لیکن رات ٹی وی ٹاک شو میں کامران شاہد کے عمران خان کے اس موقف پر ایک سوال کے جواب میں علی محمد خان نے جوشِ خطابت میں کہا کہ مجھے فخر ہے کہ خاتونِ اول پردہ کرتی ہیں ۔ اور میرے ذہن میں کلبلاتی کڑیاں آپس میں مل گئیں۔ ۔

اپنی اپنی تفہیمِ دین کے نتیجے میں اختلافِ رائے تو رسول اللہ ص کے فوراً  بعد ہی شروع ہو گیا تھا۔  ہمارے سماج میں بھی فہمِ دین اور دینی احکامات کی متنوع تشریحات کے نتیجے میں مختلف مکتبہ ہائے فکر موجود ہیں۔ عمران خان صاحب کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بحیثیت حزبِ اختلاف رہنما کے وہ ایک جماعت کے سربراہ تھے لیکن بحیثیت حکمران وہ 22کروڑ کی ایک پوری قوم کے رہبر ہیں۔ ایک اچھا رہبر اپنی قوم کو یکجا کرنے کے لیے وسعتِ قلب و نظر سے حکمتِ عملی مرتب کرتا ہے ۔جسکے عکاس اسکے بیانات اور پالیسی   سٹیٹمنٹ  ہوا کرتے ہیں۔۔۔جسکے ذریعے کم از کم حساس اجتماعی معاملات پر تمام مکاتبِ فکر اور سماجی ستونوں کو ساتھ ملا کر قومی منازل طے کی جاتی ہیں ۔ کجا کہ اپنی ذاتی تفہیم و تشریحِ دین کو دوسروں پر تھوپ کر ملت کا شیرازہ بکھیرتا پھرے۔۔۔

افسوس کہ عمران خان نے یہی کیا۔۔۔محض دیندار کہلانے کے لیے انہوں نے بجائے بحیثیت ریاست کے حاکم کے اپنی ذمہ داریوں کا تعین کرنے کے انہوں نے ایک ایسی مبہم بات کی جس سے قوم لبرل اور دیندار کی ایک بے مقصد بحث میں الجھ کر رہ گئی۔۔۔ لیکن روزانہ کی بنیاد پر جنسی بربریت کے سانحات جاری ہیں۔

انسانی فکر جہاں نرگسیت کا شکار ہوتی ہے وہاں علمی ارتقاء کا سفر ختم ہو جاتا ہے ۔تدبر و تحقیق کے دروازے بند ہو جاتے ہیں  اور فکری ترقی کا راستہ رک جاتا ہے۔ مطلق العنانیت جنم لیتی ہے ایک گھر ہو ادارہ ہو یا ملک۔۔۔ نرگسیت کا شکار افراد کے زیرِ اثر ترقی کر ہی نہیں سکتا۔۔۔ کیونکہ وہاں اقدار ،اصول اور قواعد کی جگہ شخصیات اور انکی نرگسیت لے لیتی ہے۔۔ایک شاہ اور دربار کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے جہاں “حضور آپ نے جو فرمایا وہ ہی رضاءِ ایزدی ہے” کے کاسہ لیس درباری شاہ کی نرگسیت کے دسترخوان سے مفادات کے ذرے چنتے ہیں اور سماجی نمو معکوس ہو جاتی ہے۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ اس پر نفسیاتی ، طبی ، سوشل سائینسز کے ماہرین کو اور اپنے زیرِ اثر اداروں کو بلاتے ان سے بات چیت کرتے ۔تبادلہ خیالات کے بعد کوئی   انکی سفارشات پر مبنی پالیسی مرتب کرتے لیکن اس “میں” کے گرداب میں پھنسا ہوا شخص کب نکلتا ہے ۔میں مغرب کو سب سے بہتر جانتا ہوں ،میرےسے زیادہ اسلام اور روحانیت کو کوئی نہیں جانتا، میں بڑا ایمان دار ہوں ،میں سمجھاتا ہوں پوری قوم سمجھے ۔۔ میں ،میں اور بس میں۔ ۔جب آپ کے بیانیے کی بنیاد ہی اپنی ذات کے حصار میں غیر منطقی ہے تو اس پر استوار ہونے والی عمارت مدلل کیسے ہو سکتی ہے؟۔ وہ اپنے آپ کو سفیرِ کشمیر کہتے ہیں تو اسی ضمن میں انکے بیانیے کی عمارت تو اسی سوال پر دھڑام سے گر جائے اگر وہ اور انکے عشاق غور فرمائیں کہ۔ ۔۔ انہوں نے اپنی مشہورو معروف یو این جنرل اسمبلی والی تقریر میں کہا تھا بھارتی افواج کشمیری خواتین کی عصمت دری کرتی ہیں۔۔۔عمران خان صاحب کی تھیوری کے مطابق اس ظلم و بربریت کی وجہ یقینا ً   بے چاری مظلوم کشمیری خواتین کا لباس اور پردے وغیرہ کے معاملات نہیں ہونگے جبکہ انکے بیانیے کےمخالف بیانیہ جسے مبینہ طور پر لبرلز کا بیانیہ کہا جاتا ہے اسکی بنیاد میں موجود امریکہ ،برطانیہ اور جنوبی افریقہ کے نفسیاتی ماہرین کی اس سلسلے میں تحقیق زیادہ مبنی بر دلیل لگتی  ہے کہ ریپ کرنے والا برتری کی نفسیات کو تسکین دینے کے لئے یہ قبیح ترین انسانی المیہ سرانجام دیتا ہے ۔ چھوٹے چھوٹے بچے بچیوں سے جسے سرانجام دینا دراصل انسانیت کو زمین سے خیر باد کہنے کے مترادف ہے۔

خان صاحب کا مطمعِ نظر کیونکہ صرف دیندار اور متقی کہلانا ہوتا ہے جس کے لیے انہیں قوم کے ٹیکس کے پیسوں پر پلنے والے وزیروں مشیروں کی ایک فوجِ ظفر موج بھی دستیاب ہے ۔انہوں نے سوال کے جواب کا آغاز ہی پردے سے کیا ۔اب بندہ یہاں رک کر سوچتا ضرور ہے کہ بچوں سے جنسی زیادتی کرنے والے لٹکتے نظر کیوں نہیں آ رہے کا جواب یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ عورتیں پردہ نہیں کرتیں ۔؟

پاکستان جہاں میرے اندازے کے مطابق 90فیصد سے زیادہ خواتین پردہ کرتی ہیں۔۔(یہ 90فیصد میں نے عمران خان صاحب کی محترمہ بہنوں اور پی ٹی آئی کی وزرا وغیرہ والے چادر اوڑھنے والے پردے سمیت کہا۔ ویسے اگر محترمہ بشری بی بی ہی کا پردہ ،پردہ ہے اور مذکورہ خواتین عمران خان صاحب کی نظر میں بے پردہ ہیں تو بھی یہ تعداد 50 فیصد سے تو زائد ہی ہے) اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عمران خان نے کس معاشرے کی بات کہ جہاں ایسی بے پردگی ہے کہ مردوں کو وہ temptation ملتی ہے جسکا انہوں نے تذکرہ کیا۔۔۔؟اب انہوں نے اس پر اپنی نرگسیت سے بھرپور اندازِ فکر اور بد احتیاطی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسکی وضاحت میں فحاشی کو شامل کر دیا ۔جہاں راقم سر پکڑ کر بیٹھنے پر مجبور ہے کہ HBO پر انٹرویو کے دوران جب ان سے victim blaming کا سوال کیا گیا کہ تو انہوں نے Very few clothes کی اصطلاح استعمال کر کے کمال کر دیا کیونکہ ہر پڑھنے والا یہ جانتا ہے کہ وہ یقینا پًاکستانی معاشرے کی بات نہیں کر رہے۔ جسکی مزید وضاحت میں انہوں نے بالی وڈ ہالی وڈ موبائل پر مواد وغیرہ کا ذکر کیا تو پتا چلا وہ تو پاکستانی معاشرے کی بات کر ہی نہیں رہے لیکن کیونکہ شدید انانیت کا شکار ہیں اس لیے اصلاحِ احوال کی طرف رغبت کا اظہار بھی ممکن نہیں۔ ۔ہوتے تو نہ ہمارا یہ حال ہوتا نہ انکا۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہاں اس ساری مغزماری سے یہ تو ثابت ہو گیا کہ خان صاحب نے حسبِ عادت خود کو پاکستانی قوم کا روحانی پیشوا ثابت کرنے کے لیے فلسفہ بگھارا۔ ۔انکے مطمع نظر پاکستانی معاشرہ اور اسکی عورت تھی ہی نہیں۔۔۔وہ انٹرنیٹ کے ذریعے دیکھے جانے والے فحش مواد کو شاید ریپ کی وجہ سمجھتے ہیں تو یہاں سوال نہیں سوالات جنم لیتے ہیں کہ۔ ۔۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply