تعلیم یا کاروبار۔۔گل رحمٰن

آج صبح بیٹے کو اسکول چھوڑتے وقت چلتے چلتے میں ماضی کی اُن سڑکوں پر بھی نکل گئی جہاں ۵ برس کی کمسن گُل تانگے کی اگلی سیٹ پر بیٹھ کر کو چوان کے ساتھ منہ اندھیرے اسکول جایا کرتی تھی۔ گھر اسکول سے بہت فاصلے پہ ہونے کی وجہ سے پہلے پک اور آخر میں ڈراپ ہونا گُل کے ہفتے کے پانچ دن کا معمول تھا. گرمی ، سردی ، بہار ، خزاں موسم کی جو بھی رضا ہو گُل کی مرضی کبھی نہیں پوچھی جاتی تھی .تعلیم کا میعار والدین کی خواہش کے عین مطابق متعین کیا گیا تھا۔ ماہانہ ۱۱۰۰ روپے کمانے والا انسان اپنی پہلی اولاد پر ہر خواہش نچھاور کر کے اُس کو شہر کے سب سے نامور اسکول میں پڑھانا چاہتا تھا ” Convent of Jesus and Mary” ۴۰۰ روپے ماہانہ فیس اللہ کی پناہ …..تعلیم نہ ہو گئی کوئی سودا ہو گیا۔ ایک بچے کا زہن اُس وقت بلند و برتر ، شایان شان اور اعلی درجہ بندی جیسے الفاظ نہیں سمجھتا. اُس کو نیتوں کے پیچھے چُھپے ماں باپ کے احساسات اور محبت نظر ہی نہیں آ سکتے . وقت کو جینا ، خوش رہنا اور اُن خوشی کے لمحوں کو سمیٹ کر سرہانے کے نیچے رکھنا ہی کُل کائنات ہوتی ہے.
مدارس بڑے ہوں یا تعلیم کا معیار بڑا ، اس کا پتا صرف وقت ہی دے سکتا ہے اور یوں بچہ ایک اچھا بیٹا ، اچھی بیٹی یا یوں کہیے ایک شہری کا روپ دھار لیتا ہے . شہری اور وہ بھی ذمہ دار …….لیکن اس کی شخصیت کی تکمیل کا ضامن کون ہے؟ کیا وہ ایک جامع شخصیت کا مالک ہوتا ہے؟
آج بھی کتنے والدین اپنے بچوں کو بہترین عمارتوں میں چھوڑنے جاتے ہونگے جہاں پیسہ دکھتا اور بولتا ہے، تعلیم خریدی جاتی ہے ، قابلیت کا ریٹ ہے، اور سیکھ کی ریس ہے .صرف مدارس سے بچوں کی ذہنی نشو نما ممکن نہیں . درس و تدریس گھر سے شروع ہوتی ہے . بچے یہ نہیں دیکھتے پیسہ کیسے کمایہ جاتا ہے وہ یہ دیکھتے ہیں اُسے خرچ کیسے اور کہاں کیا جاتا ہے. بچوں کو انسان اور حیوان کا فرق نہیں معلوم لیکن وہ آپ سے انسانیت کا سبق ضرور لے رہے ہوتے ہیں . بڑے ہوکے بڑا نام اور بڑا کام کرنے کا عہد لیا جاتا ہے مگر چھوٹے رہتے ہوئے چھوٹے چھوٹے کام کے وقت ملازم کو حقیر سمجھنا بھی گھر کی ہی تربیت ہوتی ہے. انسان دوست ہونا جوانی اور بڑھاپے کی ضرورت بن جاتی ہے لیکن بچے بڑوں سے ہم کلام ہوں تو بد تمیز کہہ کر آواز دبا دی جاتی ہے. یہ کیسا انصاف اور تربیت ہے جو والدین کو خود بھی تا عمر سیکھنے کے لیے سر گرداں رکھتا ہے. بلآخر حیرت اور الجھن کا مرکب بنے ایک پیڑھی پروان چڑھتی ہے. اعلی ظرفی کسی شعبہ کی میراث نہیں ، احساس کسی یونیورسٹی سے نہیں ملتا، آدب صرف کتابوں پر مشتمل نہیں ہوتا، خوشی دے کے کمائی جاتی ہے اُس کے لیے کوئی عہدہ ملنا ضروری نہیں . ہماری اولاد ہمارا عکس بنے اس کے لیے انھیں اپنے اندھیرے اور اُجالوں میں اپنے ساتھ رکھنا وقت کی ضرورت ہے . علم کی مشعل کہیں بھی جل رہی ہو راستہ دکھانے والے ہم والدیں ہی ہیں !

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply