• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • کیا زینب کے قاتل کو سر عام پھانسی دی جا سکتی ہے؟آصف محمود

کیا زینب کے قاتل کو سر عام پھانسی دی جا سکتی ہے؟آصف محمود

 زینب کے قاتل کو عدالت نے سزائے موت سنا دی۔اب سوال یہ ہے کیا قانون میں یہ گنجائش موجود ہے کہ یہ پھانسی سر عام دی جائے؟پاکستانی آئین اور قانون کی روشنی میں اس کا جواب اثبات میں ہے۔آئین اور قانون اس باب میں اس قدر واضح ہیں کہ ان کو اگر پڑھ اور سمجھ لیا جائے تو اس سوال کی نوعیت ہی بدل جاتی ہے۔سوال اب یوں ہو جاتا ہے کہ کیا آئین اور قانون کی روشنی میں اس بات کی کوئی گنجائش موجود ہے کہ زینب کے قاتل کو سر عام پھانسی نہ دی جائے؟ زینب قتل کا مقدمہ انسداد دہشت گردی کی عدالت میں چلا۔ گویا یہ عام جرم نہ تھا ، یہ فساد فی الارض کا مقدمہ تھا۔عدالتوں نے اس کی وضاحت یوں کی ہے کہ جس جرم سے معاشرے میں خوف اور دہشت پیدا ہو جائے وہ جرم دہشت گردی کہلائے گا اس کی سماعت انسداد دہشت گردی کی عدالت کرے گی۔یہ ایک اضطراری کیفیت کا اظہار ہے۔

یہ بھی پڑھیں : کیا زینب کا قاتل واقعی پکڑا گیا؟۔۔شاہد اقبال خان

چنانچہ اسے سپیشل لاء کی حیثیت حاصل ہے۔سپیشل لاء کی حکمت بھی دوسرے قوانین سے جدا ہوتی ہے اور اس کے ضابطے بھی الگ ہوتے ہیں۔چنانچہ عام قتل کے مقدمے میں ورثاء کے پاس معافی کا اختیار ہے لیکن فساد فی الارض یعنی دہشت گردی کے مقدمے میں ورثاء کو معافی کا اختیار نہیں ہے۔کیونکہ یہ تصور کیا جاتا ہے کہ یہ جرم ایک فرد یا چند افراد کے خلاف نہیں ہوا یہ پورے معاشرے کے خلاف ہوا ہے۔ اب جب جرم پورے معاشرے کے خلاف ہوا ہے تو ایک دو ورثاء معافی کیسے دے سکتے ہیں؟عمومی اصول یہ ہے کہ قتل میں مقتول کے ورثاء چاہیں تو قاتل کو پھانسی دینے کا عمل دیکھ سکتے ہیں۔

اب سوال اٹھتا ہے کہ جب دہشت گردی کے مقدمے کا اصول یہ ہے کہ جرم ایک فرد یا ایک گھرانے کے خلاف نہیں ہوا بلکہ جرم معاشرے کے خلاف ہوا ہے تو کیا معاشرے کو یہ حق نہیں کہ وہ مجرم کو سزا دینے کا عمل اپنی آنکھوں سے دیکھے؟ پاکستان میں رائج انسداد دہشت گردی کا قانون اس سوال کا جواب تفصیل سے دیتا ہے۔مروجہ قانون نے چند باتیں طے کر دی ہیں۔ پہلی بات اس نے یہ طے کر دی ہے کہ سزا دینے کا مقصد کیاہے۔اینٹی ٹیررازم ایکٹ کے تحت یہ مقصد (Deterrence) ہے۔ یعنی لوگوں کو عبرت حاصل ہو اور آئندہ جرم کے ارتکاب کو روکا جا سکے۔ بعض حضرات کہتے ہیں کہ محض سزا دینے سے یہ مقصد حاصل ہو جاتا ہے اور ضروری نہیں کہ پھانسی سر عام دی جائے۔ اینٹی ٹیررازم ایکٹ نے بڑے واضح طور پر اس غلط فہمی کی بھی نفی کر دی ہے اور قرار دے دیا کہ یہ لوگوں کو جرائم سے روکنے کے لیے یعنی ( Deterrence)قائم کرنے کے لیے محض سزا کافی نہیں بلکہ یہ بھی اہم ہے کہ سزا کہاں اورکیسے نافذ کی جائے۔گویا صرف سزا کا اطلاق ہی نہیں بلکہ اس اطلاق کا طریقہ کار اور جگہ کا تعین بھی جرم کے انسداد کی سکیم کا حصہ ہے۔ کسی اور قانون میں ایسا نہیں ہے۔یہ خصوصی اہتمام صرف انسداد دہشت گردی کے قانون میں ہے۔

یہ بھی پڑھیں :  زینب کی بےحرمتی کا تصور آیا کہاں سے؟۔محمد اظہر عالم

چنانچہ سزا کے نفاذ کو اس قانون نے بطور خاص اپنا موضوع بنایا ہے۔عام قانون میں بھی پھانسی ہوتی ہے لیکن آپ پرزنز ایکٹ 1894 اور پرزنرز ایکٹ1900 سمیت پورا جیل مینوئل دیکھ لیں آپ کو یہ موضوع اس اہتمام سے زیر بحث آتا نظر نہیں آئے گا۔ایک طریق کارچلا آ رہا ہے کہ پھانسی یوں ہو گی اور اس روایت پر عمل ہوتا آ رہا ہے۔لیکن انسداد دہشت گردی کے قانون میں باقاعدہ طور پر لکھ دیا گیا ہے کہ حکومت معاشرے کو ( Deterrence)کا ایک پیغام دینے کے لیے پھانسی کا طریقہ کار جو بھی مناسب سمجھے اختیار کر سکتی ہے۔جتنا سنگین جرم ہو گا اس پر ( deterrence) کا اصول بھی اتنا ہی سخت ہو گا۔ چنانچہ اسی لیے قانون نے کوئی حد مقرر نہیں کی بلکہ دفعہ 22 نے حکومت کو وسیع اور غیر معمولی اختیار دے دیے ہیں کہ جرم کی سنگینی کے مطابق وہ خود فیصلہ کر لے کہ پھانسی کہاں دینی ہے اورکیسے دینی ہے۔ اب حکومت چاہے تو پھانسی جیل میں دے، چاہے تو سر عام دے، چاہے تو اسی جگہ لے جا کر ملزم کو لٹکائے جہاں اس نے جرم کیا تھا، چاہے تو اسے ٹی وی چینلز پر لائیو دکھا دے، حتی کہ چاہے تو پھانسی کا لیور کھینچنے کے لیے کسی جلاد کی بجائے مقتول کے ورثاء کو کہے کہ آپ چاہیں تو یہ کام خود کر لیں۔انسداد دہشت گردی کے قانون کے مطابق حکومت کو ایسا کوئی کام کرنے کے لیے کسی عدالت سے اجازت لینے کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔اس نے خود یہ فیصلہ کرنا ہے اور صرف ایک بات کو ملحوظ خاطر رکھنا ہے کہ جرم کی سنگینی کتنی تھی۔جرم جتنا سنگین ہو گا سزا کا نفاذ اتنا ہی عبرت ناک ہو گا۔

اس قانون کی موجودگی میں بھی اگر وزیر اعلی یہ کہیں ان کے بس میں ہو تو زینب کے مجرم کو سر عام پھانسی دیں اور پاس بیٹھے وزیر قانون بھی انہیں یہ نہ بتا سکیں کہ یہ ان کے بس میں ہے تو اس پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ اپنی آئینی سکیم کو بھی ذہن میں رکھیے ۔آئین کاآرٹیکل 2کہتا ہے کہ ریاست کا سرکاری مذہب اسلام ہو گااور آرٹیکل 2(A) میں کہا گیا ہے حاکمیت اعلی صرف اور صرف اللہ کی ہے۔آرٹیکل 31کہتا ہے کہ ریاست ایسے اقدام کرنے کی پابند ہے کہ شہری اس قابل ہو سکیں کہ وہ نہ صرف اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی اسلام کے بنیادی اصولوں کے مطابق گزار سکیں بلکہ قرآن و سنت کے مطابق زندگی کا صحیح مفہوم بھی جان سکیں۔یہی بات آرٹیکل 2(A) میں بھی ذرا زیادہ تفصیل سے بیان کی گئی ہے۔اسلام قصاص کو زندگی کہتا ہے۔اب ایک سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ ٹھیک ہے قصاص میں سزائے موت تو دی جائے مگر کیا ضروری ہے کہ سر عام دی جائے؟اس کا جواب بھی اسوہ حسنہ میں موجود ہے۔اب سرکار دو عالم ﷺ کے عہد میں جتنی بھی سزائیں نافذ ہوئیں انہیں دیکھ لیجیے ۔کیا وہ اعلانیہ طور پر کھلے بندوں نافذ کی گئیں یا لوگوں سے چھپا کر چار دیواری میں نافذ کی گئیں۔

یہ بھی پڑھیں :  پاکستان کی زینب کے نام خط۔۔محمد علم اللہ

Advertisements
julia rana solicitors

یاد رہے کہ دستور کے آرٹیکل 31 کے تحت ریاست پابند ہے کہ وہ ایسے اقدامات کرے جن سے لوگ اس قابل ہو سکیں کہ زندگی کا مفہوم قرآن و سنت کی روشنی میں جان سکیں۔ آج مغرب اور اس کے فکری رضاکاروں نے ایک طوفان کھڑا کر دیا ہے کہ سر عام پھانسی غیر انسانی ہے۔ایسا ہر گز نہیں ہے۔ایٹم بم سے لے کر ڈیزی کٹر اور ڈرون سے معصوم اور بے گناہ لوگوں کو ماد دینا انسانی ہے لیکن ایک بدترین جرم کا ارتکاب کرنے والے کو سر عام پھانسی دینا غیر انسانی ہے۔کیا دلیل ہے۔ تاہم اس پر الگ سے کبھی بات کریں گے۔ فی الوقت صرف یہ کہنا ہے کہ آرٹیکل 31 کی روشنی میں دیکھ لیجیے کہ رحمت عالم ﷺ کے عہد میں سزاؤں کا نفاذ کھلے بندوں ہوتا تھا یا نہیں۔ اگر ہوتا تھا تو ریاست آئینی طور پر بھی پابند ہے کہ جرم کی سنگین نوعیت کو دیکھتے ہوئے مجرم کو سر عام لٹکائے۔ ایک کمزور دلیل یہ دی جا رہی ہے کہ سر عام پھانسی سے کیا جرم رک جائیں گے۔ یہ سوال ہی جہالت کا اعلان ہے۔ جب تک دنیا موجود ہے جرائم نہیں رک سکتے۔ خبیث روحوں کو البتہ بھر پور تنبیہہ ضرور ہو سکتی ہے اور وحشیوں کو بڑی حد تک لگام ڈالی جا سکتی ہے۔شر کا مکمل خاتمہ ممکن ہی نہیں۔ہاں شر کی سنگینی کے مطابق سزا بھی سنگین ہوتو جرائم میں کمی ضرور ہو سکتی ہے۔اور یہی اسلامی قانون کی جورسپروڈنس ہے ۔ زینب کے قاتل کو سر عام لٹکائیے اور قصور کے اسی چوک میں لٹکائیے جہاں سے زینب کو اغوا کیا گیا۔پھر دیکھتے ہیں قصور میں ایسا جرم کون کرتا ہے۔

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply