آؤ نا کراچی۔۔گاڑی چلانے!

کراچی میں رینگتے ٹریفک میں سواری میں سوار اور سواری پر سوار ہر شخص جلدی میں ہے جبکہ ٹریفک شرما شرما کر چلتی ہے ۔۔ جیسے دلہن رخصتی پر چلتی ہو ۔۔۔۔اور لوگوں کا حال یہ ہے کہ جیسے شادی میں کھانا کھل گیا ہو، لوگ ہر طرف سے ایسے اپنی سواریاں گھسا رہے ہوتے ہیں جیسے کھانے کی ڈشز میں ہر طرف سے چمچے ڈالے جاتے ہیں ۔۔۔۔۔ رکشہ اور موٹرسائیکل والوں کو کسی اصول ضابطے کی پرواہ نہیں، ان کو دیکھ کر پتہ لگتا ہے کہ سول نافرمانی کیا چیز ہوتی ہے ۔۔۔ انگریزوں کے دور میں باغی کیسے ہوتے ہونگے ؟ ان کی مثال اس عاشق کی سی ہے جس کو عشق کے جنون میں اپنے اردگرد خطروں کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی ، ان کی نظر میں ساڑھے ڈیڑھ فٹ کی جگہ ایک لیلیٰ کی طرح ہوتی ہے ،بس وہ جگہ چاہیے۔۔ اب اس کے لئے چاہے جان چلی جائے یا کسی کی بھی گاڑی پر شناختی علامت بنانے کے لئے رگڑ لگانی پڑے ۔۔۔۔۔
وہ وقت دور نہیں جب سڑکوں پر لگے اشارے روتے ہوئے بچوں کو چپ کروانے کے کام آئیں گے، یہی اشارے بوڑھے ماں باپ کی طرح خوب نظر انداز ہوتے ہیں۔۔میرا تو خیال ہے بجلی کی بچت کے لئے ان سگنلز کو بند کردینا چاہیے۔ مزے کی بات یہ ہے اگر کوئی بےوقوف لال بتی دیکھ کر رکا ہوا ہو تو اس کے پیچھے سوار بلکہ شہسوار ایسے ہارن پر ہاتھ رکھتا ہے کہ جیسے اس کو جگہ نہ ملی تو وہ ساری جگہ گندی کردیگا ۔۔۔جگہ ملنے پر سرخ بتی کی پابندی کو روندتا ہوا سگنل پر کھڑے بےوقوف کو مڑ کر دیکھتا ہے اور اس کی امّی اور ہمشیرہ کو خطابات دیتا ہوا آگے ہی کسی امرود والے سے ڈیڑھ پاؤ امرود خریدتا ہوا پایا جاتا ہے، یاد رہے امرود قبض کشا ہوتا ہے ۔ اگر کوئی ان سے پوچھ لے سند باد جہازی سگنل کیوں توڑا تو بڑی شانِ بے نیازی سے فرماتے ہیں ۔۔۔ وقت بچتا ہے، دیکھ نہیں رہے امرود خرید رہا ہوں، آج کو کل پر غنیمت جان کر ۔
ویسے کراچی کی سڑکوں پر فاسٹ ٹریک کا مزہ اس وقت آتا ہے جب شاہراہ فیصل جیسی شاہراہ پر ایک نزع کی کیفیت میں چلتی گاڑی میں سوار شخص اردگرد کی ماحولیاتی تبدیلی پر جائزہ لیتے ہوئے جا رہا ہوتا ہے پیچھے ٹریفک اس کی وجہ سے بریکوں پر بریک لگائے اس کی بلا سے ۔۔۔ اپنے برابر میں بیٹھے شخص کو کہتا ہے۔۔ بتاؤ بریک چیک کرنے کی بھی کوئی جگہ ہے یہ؟
موٹر سائیکل اور رکشہ انڈیکیٹر کو گاڑی کے حسن کے لئے لگا کر رکھتے ہیں کسی بھی جگہ کہیں بھی مڑسکتے ہیں آزاد خیالی کی مثال بنے اور کسی کے اشارے کو بھی گھاس نہیں ڈالتے، بھائی چارگی کا حق ادا کرتے گلے لگ جاتے ہیں۔ غلط سمت سے آنے والے اچانک ایسے آتے ہیں جیسے لڑکی سے فون پر بات کرتے بیوی آجاتی ہے جہاں اس کے آنے کی بالکل بھی امید نہ ہو، جیسے سگریٹ پیتے ہوئے ابّا آجائیں، اب غلط سمت آنا حق بن چکا ہے، ویسے غلط آنے کو قانونی کردینا چاہیے کیونکہ عموماً رانگ طرف سے آنے والا صحیح آنے والے کو بیچ میں رکاوٹ بننے پر سوتیلے باپ کی نگاہ سے دیکھتا ہے ۔
ایک نسل اور دریافت ہوئی ہے جس کو رائیڈر کہتے ہیں یہ نسل لیٹ کر بائیک چلاتی ہے، ہفتے کی رات کو برآمد ہوتی ہے، اس کا رخ سمندر کی طرف ہوتا ہے اور سمندر سے آگے اگر کوئی راستہ ہوتا تو یہ ممبئی میں ملتے۔ ان کو موٹر سائیکل کا اگلا پہیہ بوجھ لگتا ہے اس کو ہوا میں رکھتے ہیں اور اگر کسی گاڑی میں کوئی دوشیزہ نظر آجائے تو یہ سائلنسر پر بیٹھ کر موٹر سائیکل چلاتے ہیں ۔
یہ ہمارے ٹرک والے تو روڈ کو فاسٹ اینڈ فیورس کی شوٹنگ سمجھ کر اسٹنٹ پر اسٹنٹ دکھاتے ہیں ارد گرد لوگ اور گاڑیاں ان کو ہندوستان کی فوج لگتی ہے روند دو سب کو رگڑ دو مار دو ۔۔۔۔ بریک کی تو کوئی حیثیت نہیں ہوتی ، پریشر ہارن ایسے دیتے ہیں جیسے صور پھونکنے کی ذمہ داری مل جائے۔ چاند تک پہنچ نہیں سکے ہارن کی آواز ہی پہنچ جائے ۔۔۔۔
پھر سڑکوں کی خستہ حالت نے ٹریفک کی رفتار کی کمی میں پونے چار چاند لگا دئیے ہیں، اگر آپ زیادہ کھالیں تو آدھے کلومیٹر کے سفر میں کھانا معدے تک پہنچنے سے پہلے ہی آنتوں میں ہی ہضم ہوجاتا ہے، کئی بچوں کی پیدائش بھی گاڑی میں ہوجائے اس لئے ماں بننے والی خواتین دی گئی تاریخ سے دو دن پہلے ہسپتال چلی جاتی ہیں ۔۔۔ ممکنہ واقعہ سے بچنے کےلئے۔
اسپیڈ بریکر عرب اور جاپان کے مزے ایک ساتھ دیتے ہیں یعنی کار میں اونٹ کی سواری کا مزہ اب کراچی اسپیڈ بریکر کی تعداد میں گینز بک میں اپنا نام درج کروائے گا۔
بقیہ جگہیں گھیر کر حلال کمانے کا دعویٰ کرنے والوں نے ٹریفک کے نظام کو کچھوا بنادیا ہے، ان کا کہنا ہے اللہ کی زمین ہے اور بلدیہ والے ان سے رشوت کے نام پر بھیک جمع کرتے ہیں۔ پھر پارکنگ کے کیا کہنے گاڑی وہاں ہی پارک کرنی ہے جہاں دوکان سے خریداری کرنی ہے تھوڑا سا دور پارک ہوجائے گی تو قیمتی چپلیں گھِس جائیں گی جوتوں پر دھول لگ جائے گی۔ ٹریفک پولیس کے شکرے بیس تیس روپے کی مار ہیں کسی سائے میں بیٹھ کر پوری ڈیوٹی دیتے ہیں جو روڈ پر ہیں لوڈرز اور ٹرک والوں کی سوتن بنے کھڑے ہوتے ہیں ،ان سے دوسو روپے طے ہیں ایک روپیہ کم نہ زیادہ ۔۔۔ اصول اصول ہے!
ویسے کراچی شہر میں اگر گاڑی کبھی پچاس کی رفتار سے اوپر چل جائے تو اگلے دن مکینک کے پاس جانا پڑتا ہے کہ حیثیت سے زیادہ تیز چل گئی ہے سانسیں پھول رہی ہیں ۔ہم سب بہت جلدی میں ہیں ۔۔۔ پورے نظام کو روک کر جلدی میں ہیں ۔۔۔ جو لکھ رہا ہے وہ بھی بہت جلدی میں ہے!!!

Facebook Comments

صہیب جمال
جب کھیلنے کودنے کی عمر تھی تو رسالہ ساتھی کا ایڈیٹر بنادیا گیا ۔۔۔ اکیس سال کھیلنے کودنے کی عمر ہوتی ہے ۔۔۔ تھوڑے بڑے ہوئے تو اشتہارات کی دنیا نے اپنی طرف کھینچ لیا ۔۔۔ پھر تو لائیٹ کیمرہ ایکشن اور خاص کے حسیناؤں کے ایکشن نے ایسا گھیرا کہ اب تک ۔۔۔ کٹ ۔۔ کٹ ۔۔۔ اور پیک اپ سے نہ نکل سکے ۔۔۔ مگر قلم کا ساتھ نہیں چھوٹا ۔۔ ڈرامہ ، پولیٹیکل سٹائر ، نظمیں ، ترانے ، گانے ،نثری شاعری سب کی ریڑھ لگائی ۔۔۔ بچوں کی تحریریں لکھتے لکھتے ۔۔۔ بچوں کے لئے کمارہے ہیں ۔۔۔ شہر کراچی میں رہتے ہیں ہم ۔۔۔ جہاں لوگ کھل کر جیتے ہیں اگر کچھ دن جی لیے تو ۔۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply