اعداد کی تاریخ History Of Numbers/مبشر حسن

مکاقدیم زمانے میں جب انسان کو یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ کونسا پھل اور کونسی سبزی کھانی ہے اس بھی پہلے انسانوں کے کئی قبیلے اعداد سے بلکل ناواقف تھے انہوں نے سب سے پہلے گننے کا طریقہ دریافت کیا جو کہ انکی اپنے ہاتھ کی دس انگلیاں تھیں ان لوگوں نے سب سے پہلے Number System دریافت کیا جو کہ 10 اعداد پر مشتمل تھا کیونکہ قدرت نے قدرتی طور پر ایک Decimal Number System انسانوں کو انگلیوں کی شکل میں مہیا کردیا تھا
جب انسانوں نے کنتی شروع کی تب انہوں نے خود کو باقی مخلوق سے خود کو بالا سمجھا اور جب انہوں نے دس نمبر سے زیادہ کی گنتی کرنی چاہی تو انہوں نے پھر انگلیوں کا استعمال کیا اور انگلیوں کو بہم کرکے نئا نمبر بنا دیا اور جب انہوں نے انکا اظہار کرنا چاہا تو؛
گیارہ کو کہا One-Ten جسے لاطینی زبان میں Decim کہتے ہیں اور آج کا جدید Eleven قدیمی زبان Teutonic کے لفظ ein-lifton سے نکلا ہے جس کا مطلب one-over ہے یعنی دس کے اوپر ایک مطلب گیارہ اسی طرح بارہ کو twe-lif کہا جاتا تھا بیس کو twe-tig یعنی two-over اور یوں آگے کی گنتی ہوتی تھی
ابتدائی انسان(Primitive Man) نے اپنی انگلیوں کے ذریعے counting کی اور Decimal Number system بنایا لیکن سائوتھ امریکا کے کچھ قدیم ترین قبیلے جیسے Mayas کا قبیلا جو کہ بہت تہذیب یافتہ قبیلے تھے ان کے ہاں جو نمبر سسٹم تھا وہ دس کے بجائے بیس پر مشتمل تھا کیونکہ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے counting کی شروعات ہاتھوں اور پیروں دونوں کی دس دس انگلیاں گن کر کی تھی اور یوں انکے ہاں Number system بیس اعداد پر مشتمل تھا.
اس زمانے میں لکھنا بھی دریافت نہیں ہوا تھا کہ کس طرح لکھا جاتا ہے اور وہ کس طرح اپنے پاس اعداد کو رکارڈ کے طور پر رکھ سکیں(کیونکہ رکارڈ کرنے سے لین دین آسان ہوتی ہوگی) اس کا حل انہوں نے پھر اپنی انگلیوں کو استعمال کرکے ہی نکالا… کیوں کہ ایک انگلی کا اچھے سے stroke یا cut بن جاتا ہے تو وہ رکارڈ کے طور پر کسی غار(cave) یا کسی پتھر پر انگلیوں کے نشان بناتے اور اعداد کو رکارڈ کر لیتے یعنی ایک cut ایک آبجیکٹ کو ظاہر کرتا دو cut دو آبجیکٹس کو اورso on…اور پھر جب انکا ٹوٹل کرنا چاہتے تو وہ سارے cuts گن لیتے اور شاید اسی لئے قدیم غاروں(caves) میں اسی طرح کے نشانات ملتے ہیں کیونکہ لوگ انہی caves میں رہتے تھے تو وہاں بولے ہوئے اعداد انگلیوں سے بناکر رکارڈ کرلیتے ہونگے اور یہی طریقے کار سالوں صدیوں تک جاری رہا…
یہاں تک کہ سولہ صدی کے اولیہ دؤر میں ہسپانیہ(Spaniard) کے باشندوں نے آمریکا کا رخ کیا اور انہوں نے ساٹھ سے زائد تباہ کن شہر دریافت کیے جو کہ اس وقت کے ضلعہ Yucatan کا حصہ تھے اور اب Mexico کا حصہ ہیں…
وہاں کئی مسمار شدہ مندر، محلات اور کئی زیر زمیں reserviors ملے جو کے Maya People کے بنائے ہوئے تھے یہ وہی لوگ ہیں جو ہم نے اوپر بتایا کہ جنہوں نے دس کے بجائے بیس اعداد کا Number scale بنایا تھا. ان مسمار شدہ کنڈرات میں کئی ایسے مجسمے ملے جن پر بیس تک اعداد کے نشانات بنے ہوئے تھے جو کے ڈاٹس(dots) اور ڈیشز(dashes) سے بنائے گئے تھے اور سب سے بڑی بات کہ ان مجسموں اور پتھروں پر ذیرو 0 کی symbol بھی بنی ہوئی تھی جس سے اندازک لگایا جاسکتا ہے کہ ان کے پاس کوئی اباکس یا counting frame جیسا کچھ ہوگا جہاں ذیرو کا مطلب “کچھ نہیں” کا ہوگا….
اسکے بعد Hebrews اور اہل یونان نے اعداد کو ظاہر کرنے کیلئے کچھ alphabets استعمال کیے جو کہ a,b,i,k کیسے ہی تھے اور وہ اس طرح تھے:
۱. a (alpha)
اسکا مطلب “ایک” تھا
۲. b (beta)
اسکا مطلب “دو” تھا
۳. i (iota)
اسکا مطلب “دس” تھا
اور
۴. k (kappa)
اسکا مطلب ‘”بیس” تھا
اور پھر جب بارہ لکھنا ہوتا تو ib(iota-beta) لکھ دیتے اور یہ symbols تبدیل نہیں کیے جاتے تھے جیسا کہ آجکل 12 کو 21 کردیتے ہیں لیکن اس وقت اکیس کیلئے ka( kappa-alpha) لکھا جاتا تھا اور یوں counting آگے کی جاتی تھی… اہل یونان کا سب سے بڑا کارنامہ یہی تھا کہ انہوں نے alphabets بھی دریافت کیے اور decimal Number scale کو بھی برقرار رکھا اور اعداد کو ایک بلکل نئی representation دے دی
کہا جاتا ہے کہ اس وقت جوبیس alphabets استعمال کیے گئے تھے لیکن آج ہر عدد کیلئے ایک alphabet موجود ہے
تبھی یونان کے اس دؤر کو Golden age of Greek Mathematics کہا گیا ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply