بڑا آپریشن

محفل میں موجود ایک صاحب نے میری جانب آنکھ سے اشارہ کرتے ہوئے اپنے برابر بیٹھے ایک صاحب کو ٹہوکا دیتے طنزناً کہا۔۔ جناب پاکستان میں کتنے لوگ قوانین کی پاسداری کرتے ہوں گے؟۔۔جن صاحب سے سوال پوچھا گیا تھا انہوں نے شرارتًا سوال میری جانب پھینکا وکیل صاحب سے پوچھ لیتے ہیں بھلا ان سے بہتر کون جانتا ہوگا۔۔جی وکیل صاحب پاکستان میں کتنے لوگ ہیں جو قانون کی پاسداری کرتے ہوں گے؟۔۔عجیب ہی سوال تھا میں تھوڑا سنبھل گیا کہ کہیں جواب کے چکر میں لینے کے دینے نہ پڑ جائیں اور اگر خاموش رہا تو یہ سمجھا جائے گا میں نے جواب نہ دیکر کوئی بہت بڑا گناہ کر ڈالا۔۔میں ایک لمحے کو رکا اور کہا۔۔پاکستان میں قوانین کی پاسداری اتنے ہی لوگ کرتے ہیں جتنے لوگ قانون کو سمجھتے ہیں!۔۔کیا مطلب آپ کا ؟کیا پاکستانی قانون کو نہیں سمجھتے ؟
میں نے ایسا کب کہا کہ تمام پاکستانی قوانین کو نہیں سمجھتے۔۔میرے کہنے کا مطلب ہے کہ قانون کو جو سمجھتا ہے وہ ہی اس پر عمل بھی کرے گا اب آپ اندازہ لگا لیں کہ پاکستان میں سمجھدار لوگ کتنے ہیں؟ اب مجھ سے یہ مت پوچھیئے گا کہ پاکستان میں سمجھدار لوگوں کی تعداد کتنی ہے۔۔میں سوال تکنیکی بنیادوں پر واپس ان ہی صاحب کی جانب پھینک چکا تھا جنہوں نے یہ سوال توپ سمجھ کر ایک آنکھ بند کر کے مجھے داغنے کی اپنی سی بھونڈی کوشش کی تھی اور میں نے بھی انکی توپ سے نکلنے والی اس شُرلی نما سوال کو واپس انکی جانب سو کی رفتار سے پھینک دیا تھا۔وہ صاحب گلا صاف کرتے ہوئے کہنے لگے۔۔جی جی ہم تو میاں قانون کی بہت پاسداری کے قائل ہیں اب ہم پڑھے لکھے لوگ ہی قانون پر نہیں چلیں گے تو بھلا کون چلے گا۔۔فی الحال میں ان کی توپ کو ٹھنڈا کر چکا تھا مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم بحیثیت ایک قوم یا پھر ایک ہجوم ہی سہی اپنے ہی ملک کے بنائے گئے قوانین پر کتنا عمل کرتے ہیں۔۔پاکستان میں ہر شخص قانون کو توڑنا اتنا آسان سمجھتا ہے جیسے قانون اور سگنل توڑنے میں کوئی فرق ہی نہ ہو۔۔
ایک اندازے کے مطابق ہر دس میں سے نو افراد بنیادی قوانین کو توڑتے ہیں، سڑک پر چلتے ہوئے یا ڈرائیو کرتے ہوئے سیٹ بیلٹ نہ باندھنے سے لیکر رانگ وے پر گاڑی چلانے اور نو پارگنگ پر گاڑی پارک کرنا بھی ہم میں سے اکثر کے نزدیک قانونی حیثیت تو بالکل بھی نہیں رکھتے۔ اس کے علاوہ کتنوں کے پاس ڈرائیونگ لائسنس ہوتے ہیں یہ ایک الگ کہانی ہے، بلکہ تحقیق کی جائے تو دس بارہ لاکھ گاڑیاں رکھنے والے شہر میں فقط بیس پچیس ہزار لائسنس یافتہ ڈرائیور ہی نکلیں گے ان میں سے بھی آدھے ایسے ہوں گے جن کے لائسنس کی میعاد پوری ہوچکی ہوگی، ہم پاکستان میں بسنے والے وہ لوگ ہیں جو بنیادی قوانین کو توڑنا اپنی شان سمجھتے ہیں، آپ نے کئی ایسے شیخیاں بگھارنے والے حضرات ضرور دیکھے ہوں گے جو نجی محفلوں میں بیٹھ کر اپنے اپنے قانون توڑ قصے سنا کر محفلیں لُوٹ رہے ہوتے ہیں۔۔عام رائے ہے کہ کسی بھی سماج یا معاشرے میں عوام کا یوں بےجا قانون توڑنے کا سب سے بڑا ذمہ دار وہاں کی حکومت اور پھر وہاں کی عدلیہ کو ہی سمجھا جاتا ہے، حکومت جسے ریاست کہا جاتا ہے اگر وہ اپنے ہی قوانین پر عوام کو عمل نہ کروا سکے تو بھلا کس کام کی۔۔ اس ہی طرح اگر عدلیہ کے فیصلوں پر ریاست عمل نہ کرواسکے تو ایسے فیصلوں کی عوام کی نظر میں کوئی اہمیت باقی نہیں رہتی۔
پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد بیرون ممالک رہائش پذیر ہے جو کہ وہاں کے قوانین پر مکمل عمل پیرا ہے اور اس حد تک ریاستی قوانین پر عمل کرتی ہے کہ شکایت کا کوئی موقع پیدا ہی نہیں ہونے پاتا، میرے گاؤں کے ایک ڈاکٹر صاحب کافی عرصہ سے کینیڈا میں مقیم ہیں انکے والد صاحب سال میں دو تین ماہ کے لیے اپنے بیٹے سے ملنے کینیڈا ضرور جاتے ہیں اس بار ان سے ایک محفل میں ملاقات ہوئی بتانے لگے کہ کینیڈین قوانین اتنے سخت ہیں کہ اگر آپ نے ٹریفک سگنل توڑا تو آپ کو جرمانہ تو بھرنا ہی پڑے گا پر اگر آپ ڈاکٹر، انجینئر یا وکیل ہیں تو آپ کا لائسنس بھی ساتھ میں معطل کر دیا جائے گا، پر ان صاحب کا وہی ڈاکٹر بیٹا جب کبھی پاکستان آتا ہے تو نہ صرف وہ خود دھڑلے سے سگنل توڑتا ہے بلکہ موصوف اپنے بارہ سالہ بیٹے سے ڈرائیو بھی کرواتے ہیں وجہ یہ کہ بچے کا ہاتھ پکا ہوگا اور کینیڈا میں ڈرائیونگ لائسنس کے امتحان میں کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔۔یہ انتہائی بنیادی باتیں ہیں جن پر شاید ہماری حکومت نے کبھی کوئی توجہ نہیں دی اور ظاہر ہے جب حکومت ہی توجہ نہ دے تو پھر عوام نے تو بالکل ہی توجہ نہیں دینی اور پھر بچپن کی عادت بڑھتی عمر کے ساتھ کمزور نہیں بلکہ اور بھی مضبوط ہوتی ہے،جس انسان کو قانون توڑنے کی لت لگ جائے اس کی مثال” چُھٹتی نہیں ہے منہ کو یہ کافر لگی ہوئی” کے مترادف ہی ہے۔۔ایسا انسان معاشرے کے لیے ایک نہ ایک دن خطرناک ثابت ہوتا ہے پر اس کے پیچھے ہونے والے نقصانات کی ذمہ دار وہ نااہل ریاست ہوتی ہے جو اپنے قوانین پر خود عمل نہیں کرواسکتی۔
پاکستان وہ بدنصیب ملک ہے جہاں لاقانونیت اپنی انتہا پر پہنچ چکی ہے جعلی ڈگریوں جعلی لائسنس سے لیکر ہر طرح کے قانون کا کھل کر مذاق بنایا جاتا ہے بلکہ یہاں تک کہ سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد بھی شائع کرنے پر بھی تاحال ریاست کی جانب سے کوئی خاطر خواہ ایکشن نہیں لیا گیا، جبکہ اس حوالے سے قوانین بہت سخت ہیں مگر افسوس کہ ان قوانین کے باوجود سب گونگے اندھے اور بہرے بنے ہیں۔۔ رونا تو اس بات کا ہے کہ جب کوئی شخص جذبات کے ہاتھوں مجبور ہوکر کسی قسم کا انتہائی قدم اٹھا لیتا ہے تو تب جا کر ہماری حکومت کو ہوش آتا ہے، پاکستان اس وقت کئی محاذوں پر الجھا ہوا ہے ایسے میں سوشل میڈیا پر اس قسم کی حرکات کا ہونا پاکستان میں پائیدار امن کی راہ میں یقیناً رکاوٹ ہے اور ایسی حرکات کے حوالے سے جلد ازا جلد کوئی حکومتی پیش رفت نہ کی گئی تو یہ بات مزید انتشار کا باعث بن سکتی ہے۔
کل ایک دوست سے کافی عرصہ بعد میسنجر پر سلام دعا ہوئی، موصوف طب کے پیشے سے وابستہ ہیں، میں نے نہ چاہتے ہوئے بھی ان سے یہ سوال پوچھ لیا کہ سرکار آپ بتلائیں کہ آج کل ہر طرف قانون ہاتھ میں لیا جارہا ہے کیا وجہ ہے کہ حکومت کا بنایا گیا سسٹم ناکارہ ہوچکا ہے یا حکومت جان بوجھ کر اس نظام کو ڈھیلا چھوڑ کر اپنے سیاسی فائدے سمیٹنے کے چکر میں ہے؟، میں سمجھتا تھا کہ وہ سادہ سے حکیم صاحب ہیں ان کا بھلا کیا واسطہ سیاست اور قانون کے پیچ و خم سے۔۔فرمانے لگے شاہ صاحب ہمارے ملک کا معدہ (ہاضمہ) مکمل طور پر خراب ہوچکا ہے، میرے لیے یہ بات عجیب تھی میں نے دوبارہ پوچھا۔۔ہاضمہ، معدہ۔۔ بھلا اس کا ہمارے معاشرے یا قانون سے کیا لینا دینا۔تو جواب آیا۔۔ انسانی جسم میں اگر معدہ خراب ہو تو کئی بیماریوں کو جنم دیتا ہے اس ہی طرح پاکستان کا موجودہ سسٹم ناکارہ ہی نہیں بلکہ بالکل ہی ختم ہوچکا ہے، میں نے گزارش کی کہ آپ تو حکیم ہیں کوئی پھکی کوئی دوا کوئی درمیانی راہ تجویز کریں کوئی گنجائش کا معاملہ نکالیں۔۔ فرمانے لگے، پاکستان کا نظام کئی عشروں سے ان ہی پھکیوں اور دعاؤں پر چل رہا ہے مگر یہ سسٹم اس حد تک ناکارہ ہوچکا ہے کہ چھوٹے موٹے آپریشن اس کا مستقل اور پائیدار حل نہیں ہیں اس کے لیے اب ایک بڑا آپریشن ناگزیر ہوچکا ہے!!

Facebook Comments

رضاشاہ جیلانی
پیشہ وکالت، سماجی کارکن، مصنف، بلاگر، افسانہ و کالم نگار، 13 دسمبر...!

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply