• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کبھی وہ آف لائن ہوتی ہے،کبھی آن لائن(روداد)۔۔عبدالباسط ذوالفقار

کبھی وہ آف لائن ہوتی ہے،کبھی آن لائن(روداد)۔۔عبدالباسط ذوالفقار

آن لائن کلاسز کے اپنے ہی مزے ہیں۔ استاد چیخ چیخ کر  تھک جاتا ہے اور طلباء دیوار کے پیچھے آنکھ مچولی کھیل رہے ہوتے ہیں اور ہم جیسے ہوں تو میوٹ کر کے دو گھڑی آنکھ لگا لیتے ہیں۔ یعنی کچھ آنکھ لڑا لیتے ہیں کچھ آنکھ لگا لیتے ہیں۔ خیر عجیب و غریب معاملہ ہے ،جانے کب تک یوں ہی چلے گا۔ گزشتہ دنوں اڑھائی تین گھنٹے کا سیشن تھا۔ میں بھی  شریک تھا۔ سپیکر خشوع و خضوع سے موضوعِ گفتگو کا شملہ تھامے پگ باندھ رہے تھے۔ میں نے میوٹ کیا اور سو گیا۔ کچھ دیر بعد آنکھ کھلی تو سیشن ابھی چل رہا تھا۔ میں آنکھیں مل رہا تھا کہ اسی وقت مجھے مخاطب کیا گیا۔ کیوں سر آپ کیا کہتے ہیں اس بارے؟

میں نے اوّل تو ہنکارا  بھرا، پھر خواب اور نیند کا تصور کر کے جواب دیا، بالکل بالکل ایسا ہی ہوتا ہے۔ (نیند آجاتی ہے، خراٹے ضروری ہیں) آپ نے ٹھیک کہا۔ شکریہ سر آپ نے تائید کی۔ تو ممبرز میں یہ کہہ رہا تھا۔ ۔سپیکر شروع ہوگئے تھے اور میں کمبل میں گھستے ہوئے آنکھیں موند چکا تھا۔ ٹوں ٹنکار کے بیچ مبہم سی آوازیں تھیں۔ صبح اٹھا تو میسج تھا سر سیشن کیسا رہا۔ بہت ہی ودھیا،بہت سکون  ملتا ہے جب جب آپ محو ِ گفتگو ہوتے ہیں۔ آپ کے سیشن کا کیا عمدہ وقت گزرتا ہے واللہ۔

لاک ڈاؤن میں آن لائن سیشن چل رہے ہوتے تھے اور میں سیشن کے وقت میں نیٹ فلیکس پر سیزن کی چار قسطیں دیکھ لیتا تھا۔ ساتھ دیگر کام بھی ہو رہے ہوتے تھے۔ جیسے آج کل بی ایڈ کی کلاسز ہو رہی ہیں۔ سب نے اکاؤنٹ ایکٹیویٹ کر کے ڈیوائسز جیبوں میں آواز بند کر کے رکھی ہوتی ہیں۔ پھر واش روم میں بیٹھیں یا ایویں وقت مل جائے۔ ٹیچر کی   پیٹھ پیچھے باتیں کر لیتے ہیں ،یہاں تک کہ انہیں کک آؤٹ کر دیا جائے۔ یا بہت سے مشٹنڈے کسی مؤنث آئی ڈی کے گرد یوں گھوم رہے ہوتے ہیں جیسے پتنگے لائٹ کے گرد گھومتے سر پٹختے ہیں۔

خیر بات لاک ڈاؤن کی ہو رہی تھی۔ ایک روز کسی کونسل کا کوئی اجلاس تھا۔ مدعو کیا گیا تو انگوٹھے کی مدد سے ہم بھی جا حاضر ہوئے۔ دیکھا تو سکرین پر بنے ڈبوں میں بڑے بڑے عجیب و غریب ادیب قید ہیں۔ یوں لگتا جیسے نعوذباللہ پرنٹڈ شیٹ بچھی ہے جس پر کارٹون چھپے ہوئے ہیں۔ کچھ ٹانگیں پھیلا کے یوں بیٹھے تھے گویا جوانی کے زور آور تقاضے   ٹھیک سے بیٹھنے کی راہ میں رکاوٹ ڈال رہے ہوں ۔ ہر چند منٹوں بعد ہاتھ چڈے یاترا کرتا اور پھر ناک میں تیل تلاشنے انگلیاں رقصاں ہوتیں۔ انہیں شاید خیال نہیں گزرتا تھا کہ آن لائن ہیں اور سب دیکھ رہے ہیں۔ کچھ تھے جن کی توند نکلی ہوئی تھیں۔ ناک کی چونچ پر چشمہ رکھے کاغذ دیکھ رہے تھے۔ کرخت آواز  و انداز سے سماعتوں کا بلاتکار۔۔۔ ہائے توبہ۔ کچھ کے بال مرور ایام سے جڑ چکے تھے تو کچھ پوپلے منہ میں دانتوں  کی تعداد بتا رہے تھے۔

کچھ بڑی بوڑھیاں بھی تھیں جو دانتوں میں خلال کر رہی تھیں۔ کچھ سر کے بالوں میں جوئیں تلاش کرتیں۔   ہر چند منٹ بعد سمع خراشی کا موقع دوسرے شخص کو دیا جاتا۔ مرد و خواتین اپنے گھر کے کسی کونے میں مختلف انداز و اطوار سے بیٹھ کر خبر دے رہے ہوتے کہ ہم کیسے رہتے ہیں۔ بعض  اوقات بچے کے رونے کی آواز آتی۔ پاپا پوٹی۔۔۔ واش روم جانا ہے،تو نسوانی آواز کوسنے دیتی کہتی آ میں کرا دوں پتا بھی ہے بچے کو اس وقت واش روم ہوتا ہے مویا موبائل لے کر بیٹھ گئے۔ اور ادیب صاحب اب بھی کسی بہترین تحریر کے تانوں بانوں میں الجھے کہہ رہے ہوتے ،وہ تو ٹھیک ہے مگر اس تحریر میں “شدت تشنگی” کے بعد جامہ زیبی کا ذکر کیوں ہے۔

خواتین ادباء میں کچھ تو یوں اکڑ کر بیٹھی ہوتی تھیں گویا انہیں اسٹیل کے لباس میں اتار دیا ہو، اور چونکہ حسن کی معراج پر ہیں یعنی موٹی ہیں تو کچھ حساب کتاب یوں رہ گیا۔ بعض سینے کے بغلی کنارے کھجاتیں تو پھر خیال آتا ہائے رام ہم تو آن لائن ہیں پھر چشمے کے اوپر سے تانک کر دیکھتیں کہ کوئی دیکھ تو نہیں رہا تھا۔ یعنی فل چڑیا گھرکا ماحول تھا۔ تب سوچا اس نشست کا نام کچھ اور ہونا چاہیے۔ خصلتِ مرغاں کا اظہار اکثر کے چہروں سے ہوتا تھا جب کوئی خاتون ادیبہ گفتگو کرتیں تو دس آدمی ٹوکتے یا سراہتے جیسے چاہتے ہوں ہم ہی بات بڑھائیں۔ اور وہ چشم مست سے ابرو ہلاتے کسی ادیب کو دعوت دے دیتیں۔ باقی سب دانت نکوستے رہ جاتے۔

تنقید نگار طائفہ نقطہ ورجن کے نام پر تضیح  اوقات کا بہترین سبب تھے۔ سیدھی سی بات پر فضول طول دینا تو گویا موروثی حق تھا۔ نجانے بیویاں مر گئی تھیں ان کی یا سزا یافتہ تھے۔ بے بہا وقت صرف خوخیانے میں صرف کر دیتے تھے۔ بس تب ہی نیت کر لی تھی اب سے کسی سیشن میں شریک نہیں ہونا۔ لیکن قسم توڑنی پڑی،بھلا ہو میوٹ آپشن کا اور نومِ من کا کہ اپنے دامن میں سموئے رکھتی ہے۔ سیشن کرانے والے اسپیکر تو چخ چخ کرتے رہنے کی تنخوا لیتے ہیں ہمیں تو ٹوں ٹوں کے علاوہ سگنل ہی ڈراپ  ہونا  نصیب  ہوتے ہیں، تو کیوں نہ اس وقت کو کام میں لایا جائے۔ بس سو لیا جائے۔ ویسے بھی یہ انٹرنیٹ چرخ کج رفتار سے سیاپا بنائے رکھتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

آپ کسی ایسے سیشن میں شریک ہوئے ہوں تو بتائیے گا کیا احوال رہے۔ میں نے سوچا تھا عاجزی و انکساری اور ادب کے چوغے تلے رہتے بس احتراماً بات کروں گا لیکن کیا کروں شیطان مردود کا۔ کج کلاہی کا ٹوکرا میرے سر سجائے رکھتا ہے۔ زبان پر عیب جوئی کا رنگ چڑھا دیتا ہے لعنت ہو شیطان مردود پر۔ اچھا اس سے پہلے کہ گوش ہوش درست ہوں اور بساط ہستی کی صفیں لپیٹ کر مجھے نمازی کیا جائے اجازت چاہتا ہوں۔ بلند آہنگ مناجات کے ساتھ کہ رام نام ست ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply