حبِ رسولﷺ اور زبانی دعویٰ

پاکستانی ہندوستانی فلموں کی اکثریت اٹھا کے دیکھ لیں آپ کو ہیرو نہایت غریب خاندان کا ملے گا جس کو کسی سیٹھ کی بیٹی سے پیار ہو جاتا ہے۔ہیرو اپنی تمام تر شعلہ بیانی اور دیوانگی کے ساتھ اس سیٹھ سے بیٹی کا ہاتھ مانگتا ہے تو جہاندیدہ تجربہ کار اور نہایت عملی انسان اس سے پوچھتا ہے کہ تم اس کو خوش کیسے رکھو گے؟جن لوازمات کی وہ عادی ہے جن آسائشوں میں اس کی زندگی بسر ہو رہی ہے وہ تو تم اس کو مہیا نہیں کر سکتے اور پھر ہیرو کی وہی شعلہ بیانی اور مصنف کے کارل مارکس کے فلسفہ سے متاثر خیالات اور اپنی محرومیاں ڈائیلاگ کی صورت برآمد ہوتے ہیں۔ حالانکہ کارل مارکس کے فلسفہ اور تعلیمات سے ہٹ کے اس کا اپنی بیوی کے نام خط مادیت کی سفاک حد تک ضرورت کا کھلا اعتراف ہے ۔۔بحرحال یہ ساری تمہید باندھنے کا مقصد یہ تھا کہ فیس بک پہ تجدید ایمان کے طور پہ کلمہ طیبہ کا انگلش ترجمہ کاپی پیسٹ کیا جا رہا ہے اور جب ان دوستوں سے پوچھا جاتا ہے کہ آپ ایسا کیوں کر رہے ہو تو جواب ملاحظہ کیجئے ۔۔ہم مارک زگر تک پیغام پہنچا رہے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں ہمارے لئے نبی اکرم صلی اللہ وآلہ وسلم سے بڑھ کے کچھ نہیں ہمارا سب کچھ ان پہ قربان اور تاکہ وہ توہین آمیز صفحات بند کر دے ۔۔
سننے میں یہ الفاظ آپ کی روح تک کی سرشار کا سبب بن جاتے ہیں لیکن کیا واقعی ہی ان الفاظ اور اس عمل کے سبب ہم دربار نبیﷺ میں سرخرو ہو پائیں گے؟ یا کیا ہم حُبِ رسولﷺ کا بار چکا پائیں گے؟ مجھ ناقص العقل کی رائے میں یہ قطعی ناممکنات میں سے ہے اور اس کی حقیقت جلسے میں مارے گئے جذباتی نعرے سے زیادہ کچھ نہیں جو مقرر کی شعلہ بیانی نے آپ میں پیدا کی نہ آپ نے نہ اس مقرر نے اپنے الفاظ کا پاس رکھنا ہے اور نہ ہی اس کا آپ کی عملی زندگی سے ان جذبات کا کسی طور اظہار ہوتا ہے ۔اسی طرح سے ہم حُبِ رسولﷺ کا دعویٰ بھی کرتے ہوئے آخری آرام گاہ مدینہ میں جبکہ دنیاوی آرامگاہ یورپ میں چاہتے ہیں ۔۔اب ایسی زبانی چاہ اور عملیت پہ سر نہ پیٹا جائے تو اور کیا ہو۔۔۔۔؟
عقل اور عملیت کی سرحدوں سے پار عشق اور لفاظی جذباتیت تباہی تو ضرور لا سکتے ہیں شر تو ضرور پھیلا سکتے ہیں مگر قطعی طور پہ خیر کا باعث نہیں ہوسکتے کہ جس نے مکی حیات کا بار نہیں اٹھایا وہ مدنی جہاد کے لائق نہیں۔ سونا آگ کی بھٹی سے نکل کے کندن ہوتا ہے لوھا آگ میں تپتا ہے ضربیں کھاتا ہے تو منفع شکل میں ڈھلتا ہے ، اگر میں اس دنیا کو ایک گاؤں کی مثال لوں اور مسلمانوں کو اس میں بسے ایک خاندان کی مانند تو یہ ایسا خاندان ہوگا جن کا زور صرف نعروں پہ ہے کہ ابا جی سے بڑی محبت ہے، اباجی سے بڑی محبت ہے، نعرے لگا لگا گلہ بیٹھ گیا، سارے گاؤں کے سامنے یہ دعویٰ ہے مگر نہ تو اباجی کے پاس بیٹھنے کا وقت ہے اور نہ ان پہ دو پیسے خرچ کرنے کی توفیق۔۔ ہاں مگر تمناؤں کے بازار میں حیات لٹائی جا رہی ہے، زباں مگر ابا کی محبت سے تر ہے اور ساتھ یہ ورد بھی جاری ہے کہ اگر کسی نے میرے ابا جان کو برا بھلا کہا تو اس کی میں جان لے لوں گا،خود میں حرام رزق کے مزے لوں گا دوسرے کو چلتے پھرتے حلال کا سبق دوں گا،
خود کو عزیز جانوں، نفس کے گھوڑے پہ سوار رہوں مگر پھر بھی ناموس کا طلبگار ہوں تو عزیزانِ من یہ خواہش تو ہوسکتی ہے مگر عملی طور پہ ایسا ممکن نہیں ۔ اور میں اپنے آپ کو ایسے کسی بھی دعویٰ کے لیئے عاجز پاتا ہوں جس میں سب سے پہلے منافقت اور بے عملی کی بو آتی ہو جس سے کردار کے تضاد اوروں کو میرا تمسخر اڑانے پہ مجبور کر دیتے ہوں۔ میں کس منہ سے کس زبان سے آپﷺ سے محبت کا دعویٰ کروں جن کی حیات سر تا پاءعملی نمونہ ہے،جو کہا وہ پہلے خود کرکے دکھایا۔۔ میں یہ دعویٰ کرکے خود کو سزا کا حق دار نہیں بنا سکتا کہ دعویٰ ثبوت کا محتاج ہوگا اور آپ جتنا حوصلہ بھی نہیں پاتا کہ اس دعوے کا ثبوت کسی کا خوں یا خوں کی خواہش ہو اور حرفِ آخر کہ رب العالمین نے کتابِ آخر میں واضح طور پہ محنت والوں کو ثمرمند ٹھہرایا ہے چیخنے چلانے والوں کو نہیں!!

Facebook Comments

احسان عزیز
پڑھنے کے دور میں لکھنے کی سعی سو حرفِ غلط کو برداشت کیجیے گا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply