ایک زندگی، چارپہلو۔۔ڈوگری کہانی کا ترجمہ

للت منگوترہ کی اس ڈوگری کہانی کا اردو ترجمہ جنید جاذب نے کیا ہے!
پہلا رخ ۔ دیو ورت
میرا آج صبح سے ہی موڈ خراب ہے،اور یہی وجہ ہے کہ میں اب تک گھر بھی نہیں گیا ۔حالانکہ باہراب مجھے کرنے کو کچھ بھی نہیں، لیکن گھرجانے کا بالکل بھی من نہیں کررہا۔آج سنیچر ہے ، توگھر پر، چیتن انکل آ دھمکے ہوں گے اور پاپا کے ساتھ شطرنج کھیلنے میں مصروف ہوں گے۔ ممی دونوں کے لئے گرما گرم چائے کے دو پیالے بھی بنا لائی ہوں گی ۔۔۔۔پاپا کے لئے تیز شکر والی اور چیتن انکل کے لئے بنا دودھ شکر کے، نرا قہوہ۔
مجھے سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر یہ چیتن انکل، اتنے کم عرصے میں، پاپا کے اتنے گہرے دوست کیسے بن گئے ۔پاپا کوپہلے تو کبھی شطرنج کا اتنا دلدادہ نہیں دیکھا۔ یہ انہیں نیا ہی چسکا پڑا ہے۔ ہر سنیچر کو بے صبری سے چیتن انکل کا انتظار ر رہتاہے۔ جوں ہی وہ پہنچتے ہیں، اٹھ کربڑے تپاک سے انھیں گلے لگا لیتے ہیں۔ ماں بھی سنیچر کو بس چیتن انکل کی ہی پسند کا کھانا پروستی ہیں۔
پتہ نہیں کچھ لوگ ہمیں کیوں اچھے نہیں لگتے۔ کوئی قابلِ فہم وجہ بھی نہیں ہوتی لیکن نہیں اچھے لگتے، تو نہیں لگتے۔چیتن انکل کے تئیں میری ناپسندیدگی بھی کچھ اسی طرح کی ہے ۔اس ناپسندیدگی کی وجہ کیا ہے مجھے بالکل نہیں معلوم۔ شائد ممی پاپا کی واحداولاد ہونے کے کارن ، میں بچپن سے ہی کچھ تنہائی پسند سا ہو گیا ہوں۔ دراصل ہم تینوں آپس میں اتنے قریب قریب اور گھلے ملے رہتے ہیں کہ ایک دوسرے کی اکثر باتیں ہم بنا بولے ہی سمجھ اور سمجھالیتے ہیں۔اب ہم تینوں کے بیچ کوئی اور آجائے، مجھے پسند نہیں۔ چیتن انکل کا یوں اور پھر اس تواتر سے ہمارے گھر آنا اور پھرآکر گھنٹوں بیٹھے رہنا، اصل میں مجھے ہماری نجی زندگی میں بے جا مداخلت جیسا لگتا ہے۔ خیر جو بھی ہو، میں تو چیتن انکل سے دور دور ہی رہنے کی کوشش کرتا ہوں۔ مگر وہ ہیں کہ جب بھی آتے ہیں یا میں جب کبھی ان کے پاؤں چھونے کے لئے جھکتا ہوں تو وہ جھٹ سے مجھے گلے لگا لیتے ہیں اور پھرکچھ زیادہ ہی دیرتک لگائے رکھتے ہیں۔اتنا ہی نہیں، کبھی کبھی تو وہ مجھے چومنے چاٹنے بھی لگتے ہیں اور میں اگر اس چوما چاٹی سے بچنے کی کوشش کرتاہوں تو بھی میرا ماتھا چوم ہی لیتے ہیں۔ یہ پیار ویار کا ڈرامہ مجھے بالکل اچھا نہیں لگتا۔
ہوسکتا ہے چیتن انکل مجھے اس لئے نا پسند ہوں کہ ان کی اور پاپا کی قطع وضع اورخُو بو بالکل الگ الگ ہے۔پاپا ٹھہرے گول مٹول سے جسم ،گنجے سر اور کھلے سوبھاؤ کے مالک۔نہ کوئی دکھاوا نہ تکلفات۔بنیان میں بھی بیٹھے ہوں گے اور گھر میں کوئی آگیا، توقمیض تک ڈالنے کی پرواہ نہیں بھی کرتے۔ بس ہنستے کھیلتے اور مست رہتے ہیں۔ دوسری طرف چیتن انکل ہیں کہ اس عمر میں بھی چست و تندرست،سڈول جسم،سر پر گھنے بال اور اپ ٹو ڈیٹ پرسنالٹی۔ ہر وقت صاف ستھرے کپڑوں میں ملبوس اور بنے سنورے رہتے ہیں جیسے کسی پارٹی میں جارہے ہوں۔ان کا ایسا بناؤ سنگھار اور تکلفات کا تام جھام مجھے قطعی اچھا نہیں لگتا ۔ ظاہر ہے جب کوئی انسان سرے سے پسند ہی نہ ہو تو پھر اس کا کچھ بھی اچھا نہیں لگتا۔
پاپا کے ساتھ بات کرنا ایسا ہوتا ہے جیسے اپنے کسی دوست کے ساتھ بات کرنا ۔لیکن چیتن انکل….توبہ توبہ ان سے بات کرنا تو مصیبت مول لینا ہے۔ ایسے تول تول کر بولتے ہیں جیسے کوئی بیان جاری کررہے ہوں۔ جب بھی ان سے بات ہوتی ہے وہ میری پڑھائی اور کرئیر کو لے کر لیکچر دینا شروع کردیتے ہیں۔ انہوں نے تو مجھے کرئیر گائڈنس کی کچھ کتابیں بھی لا دی ہیں جنہیں میں نے کبھی کھولا بھی نہیں۔ وہ جب چلے جاتے ہیں تو ممی پاپا کے ساتھ،کسی نہ کسی بات کو لے کر، میری لڑائی ہو ہی جاتی ہے۔ چیتن انکل کے تئیں میرا رویہ ممی کی تیز نگاہوں سے چھپا نہیں ہے۔ انہوں نے دو ایک بار مجھے سمجھانے کی بھی کوشش کی کہ بڑوں کی عزت کرنا چاہئے لیکن میں ہربار بات کو مذاق میں ٹرخا دیتا ہوں۔
اب شام ہورہی ہے۔چیتن انکل توخیرآرام سے کھانا وانا کھا کر ہی نکلیں گے۔اب میں کب تک یوں ہی گلیوں میں گھومتا رہوں ،آخر گھر تو جانا ہی ہوگا۔
دوسرا رخ ۔ چیتن
میں تو اپنی زندگی کے اُس حصے کو تقریباً بھلا ہی چکا تھا۔ میں نے تو اپنے اور پاروتی کے بیچ کے، اُس طوفانی رشتے کو، جوانی میں اٹھنے والی قدرتی لہروں کے ابھار سے زیادہ اہمیت کبھی دی ہی نہیں تھی۔ اورشادی کے بعد تو مجھے پاروتی کا خیال ،اس کی ہر یاد اپنے دل و دماغ سے کھرچ کر صاف کر دینا چاہیئے تھی۔۔۔۔ لیکن ہوا اس کے بالکل برعکس۔
جوں جوں میری بیوی ’ کُشا‘ کا اصل چہرہ میرے سامنے کھلنے لگا اور ہمارے رشتے کی طنابیں دھیرے دھیرےُ اکھڑنے لگیں، ویسے ویسے مجھے پاروتی اور اس کے ساتھ اپنے رشتے کی مٹھاس رہ رہ کر یاد آنے لگی۔ ازدواجی زندگی کا یہ تناؤ مجھے ماضی کے ہمارے رشتے سے جڑی باتیں اور واقعات کی طرف لے جاتارہااور بار بارکچوکے بھرتارہا ۔ ’کشا‘ اپنی غلطیوں اور خامیوں کے لئے بھی مجھے ہی کوستی اور ہمارے خراب ہوتے رشتے کا سارا الزام مجھ پر ڈالتی جاتی ۔ ہمارے رشتے میں کڑواہٹ اس قدر بڑھ گئی کہ میں بات کرتا تو بھی لڑائی اور چپ رہتا تو اس سے بڑی لڑائی۔ جب اُس سے کوئی غلطی ہوتی تو بھی میری پریشانی ہی بڑھتی جاتی۔میں سب کچھ سہہ کر بھی کوشش کرتا کہ اس کی غلطی بارے کوئی لفظ زبان پر نہ آئے ۔ لیکن وہ …..وہ کسی نئے جھگڑے کی بنیادکے بنانے کے لئے میری پرانی سے پرانی باتیں نکال کر لے آتی ۔ کشا کے ساتھ ہونے والا ہر جھگڑا مجھے پاروتی کی یادوں میں مستغرق کرتا جاتا۔ مجھے پاروتی کی خود سپردگی یاد آ جاتی۔ اپنی بد نصیبی پر مجھے بڑا دکھ ہوتا کہ پاروتی کی وہ بے لوث محبت میں نہ پا سکا جو شائد تھوڑی سی اورکوشش سے میرا مقدر بن سکتی تھی۔ میں اکثر سوچتا کہ اگر پاروتی کا سچا پیار میری زندگی کا حصہ بنا ہوتا تو میرے لئے زندگی کے معنی ہی کچھ اورہوتے ۔
کشا سے الگ ہو نے کی کہانی تواپنے آپ میں ایک لمبی کتھا ہے البتہ اسے طلاق دینے کا مجھے کبھی دکھ نہیں ہوا۔ بلکہ میرے اور کشا ،دونوں کے لئے اب اسی میں شائد بھلائی تھی۔ اس کے بعد میری زندگی معمول پر تو لوٹ آئی لیکن اس سب کے بعد مجھے پاروتی کو کھو جانے کا احساس شدت سے ہونے لگا۔
کچھ عرصہ بعد کمپنی کی اندور میں واقع فیکٹری کے لئے عملہ بھیجا جارہاتھا ۔میری ہلکی سی رضامندی ظاہر کر نے کی دیر تھی کہ مجھے فوراََ تبدیل کرکے اندور بھیج دیا گیا۔
اندور میں کوئی چار پانچ بارمیرا اُس سٹور پر جانا ہوا جہاں سے کرن اکثر گھر کے لئے سودا سلف خریداکرتاتھا۔ ایک بار، جب ہم دونوں پے منٹ کاؤنٹر پر کھڑے تھے ، باتوں باتوں میں میرے منہ سے کوئی ڈوگری محاورہ نکل گیا ۔ کرن نے پلٹ کرحیرانی سے میری طرف دیکھا اور پوچھا،’’آپ….. جموں سے ہیں؟‘‘۔میری تصدیق پر اس نے بتایا کہ جموں کے ساتھ اُس کا خاص رشتہ ہے۔ جان پہچان ہوئی تو اس نے بتایاکہ اس کا سسرال بھی جموں میں ہے ۔کرن نے مجھے گھر چلنے کی دعوت دی تو اس کے اصرا ر کو میں ٹال نہ سکا۔ اس طرح میں اس کے گھر تک جا پہنچا۔
کرن بے چارے کو علم نہیں تھا کہ نہ اس سٹور پر میرا جانا اتفاقیہ تھا اور نہ وہ ڈوگری محاورہ میرے منہ سے بے ساختہ نکلا تھا۔یہ سب تو پاروتی تک پہنچنے کے لئے،میری سوچی سمجھی منصوبہ بندی تھی۔ البتہ میرے ذہن میں یہ الجھن گھر کئے ہوئے تھی کہ نہ جانے پاروتی اس طرح اچانک مجھے دیکھ کر کیا رد عمل ظاہرکرے گی ۔
میرا خدشہ بالکل صحیح تھا۔مجھے دیکھتے ہی اس کے چہرے پرہوائیاں اڑ گئیں۔اس کا رنگ زرد پڑ گیا۔لیکن بڑی ہوشیاری سے اس نے فوراََ سب کچھ سنبھال لیا اورنارمل طریقے سے بات کرنے لگی۔
پاروتی نے ایک سگھڑ گھریلو عورت کی طرح اپنے شوہر کے ساتھ آئے مہمان کو دعا سلام کیا ،بٹھایا اورخاطر داری کی۔ میری تعیناتی آجکل اندور میں ہونے کا سن کر اس نے بظاہر خوشی بھی جتائی۔ اس طرح میرا پاروتی کے گھر جانے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔شطرنج کا بورڈ دیکھ کر میں سمجھ گیا کہ کرن کو شطرنج کھیلنے کا شوق ہے ۔ اور پھرمیں ہر سنیچر کو کرن کے ساتھ شطرنج کھیلنے کے بہانے ان کے گھر جانے لگا۔
اب تو میرا پورا ہفتہ سنیچر کا انتظار کرتے گزرتا۔ یوں لگنے لگاتھا جیسے میری صدیوں کی پیاس،ایک ٹھنڈے میٹھے پانی کا چشمہ دیکھتے ہی اور بھی بھڑک گئی ہو۔
ممکن ہے پہلے پہل مجھے اس طرح لگاتار اس گھر میں جانے میں ہچکچاہٹ رہی ہو لیکن کرن کی شطرنج کے لئے اتنی رغبت ،بے صبری سے میرا انتظار اور میرے پہنچنے پر والہانہ استقبال،یہ سب میری جھجھک دور کرنے کے لئے کافی تھے۔کرن اصل میں بڑا سیدھا سادہ سا انسان ہے۔ شطرنج میں جب وہ جیت جاتا ہے تو خوب ہنستا ہے لیکن جب ہارتا ہے تو اس سے بھی بڑا قہقہ لگاکر ہنستا ہے۔
اس گھر میں آنے سے پہلے مجھے دیو ورت کے بارے میں کوئی جانکاری نہیں تھی۔اسے دیکھا تو حیرت بھی ہوئی اور خوشی بھی۔ کچھ بچے ایسے ہوتے ہیں کہ دیکھتے ہی من موہ لیتے ہیں ہے۔دیو ورت بھی ایسا ہی بچہ ہے۔ میں تو پاروتی کا قرب پانے کی ٹوہ میں تھا،اب دیو ورت سے ملے بغیر بھی جی نہیں لگتا۔ لیکن دیوورت پتہ نہیں کیوں مجھ سے دور دور بھاگتاہے۔ سچ کہوں تو اس کی یہ بات مجھے بڑا دکھ پہنچاتی ہے۔
پاروتی کو اپنے قریب پاکر اس کے اور پاس جانے کی خواہش نے مجھے وہ کرنے پر مجبور کر دیا جو میرے لئے قطعی جائز نہیں تھا۔ میری اس حرکت پر پاروتی نے جس سختی سے مجھے سرزنش کی تھی وہ کسی دھتکار سے کم نہیں۔کئی دن میں اداس،دل برداشتہ پھرتا رہا، لیکن اگلے سنیچر کو پھر اس کے ہاں جا پہنچا۔ پاروتی کے رویے میں کہیں کوئی تبدیلی نہیں تھی۔ وہ بالکل ویسے ہی پیش آئی جیسے اس واردات سے پہلے آتی تھی۔
اب میں ہر سنیچر ،بلاناغہ پاروتی کے ہاں پہنچا ہوتا ہوں۔ میں جانتا ہوں پاروتی کو میرے ساتھ کوئی لگاؤ نہیں لیکن مجھے اس کو اٹھتے بیٹھتے،چلتے پھرتے اورکام کاج کرتے دیکھنے میں ایک سکون سا ملتا ہے۔ مجھے کرن کے دوستی بھرے قہقہوں میں بھی ایک اپنا پن لگتا ہے ۔
دیو روت کو دیکھ کر تو میری باچھیں کھل جاتی ہیں۔میں سمجھتاہوں کہ اس گھر ،گھرہستی کا حصہ بننے کا مجھے کوئی حق نہیں لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اپنی زندگی کے اس مقام پر اگر میرے دل کے تا ر کسی جانب کھنچتے ہیں تو وہ یہی گھر ہے۔ میں اکثر سوچتا رہتاہوں کہ کیا مجھے اس گھر میں اسی طرح جاتے رہنا چاہیئے ؟ کیا مجھے اپنے اندر پلتے ایک طرفہ رشتوں کی حرارت کی خاطر اس گھر کی سریلی سرگم میں زبردستی اپنا بے سرا راگ ملانے کی کوشش کرنا چاہیئے؟
لیکن کسی بھی طرح پاروتی کے نزدیک رہنے کی خواہش کے سامنے میری ساری منطقیں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔ مجھے ،سوائے اس گھر کے، کہیں بھی اپنے لئے کوئی ٹھکانہ نظر نہیں آتا۔
تیسرا رخ ۔ پاروتی
عام طور پر انسان زندگی میں جو کچھ چاہتا ہے ،تقریباََ وہ سب کچھ میرے پاس موجود ہے۔۔۔۔ایک بے انتہا پیار کرنے والا اور میری چھوٹی بڑی،کہی ان کہی ہرخواہش کا خیال رکھنے والا پتی اور کھلتے پھول کی مانند نوجوان بیٹاجس کی توانائیوں سے ہمارا اندر باہر چاندنی میں نہایارہتا ہے ۔ اور اسی چاندنی میں گھلی ہوئی ہے ہمارے آپسی پیارمحبت اور وشواس کی بے انت خوشبو ۔
اس سب کے ہوتے ہوئے بھی میں اپنے دل میں ہمیشہ سے ایک خلش سی پالتی بلکہ ڈھوتی آئی ہوں۔ یہ خلش بیتے وقت کے ایک کالے رازکا بوجھ ہے جو میں ہر وقت اٹھائے پھر رہی ہوں۔ میرے دل کی گہرائیوں میں دبکی بیٹھی یہ خلش اکثر خوشی کے موقعوں پر میرے اندر سے نکل کر سامنے آن کھڑی ہوتی ہے اور میرا منہ چڑا کر کہتی جاتی ہے’’ناچو گاؤ،خوشیاں مناؤ ….لیکن یہ بھولنا نہیں کہ میں بھی یہیں ہوں ، یہیں کہیں تمہارے اندر،تمہارے آس پاس ‘‘۔
کتنے دکھ کی بات ہے کہ میں یہ رازاپنی زندگی کے دو عزیز ترین لوگوں یعنی میرے پتی کرن اور بیٹے دیو ورت کے ساتھ بھی نہیں بانٹ سکتی۔ یہ بات ہر وقت مجھے اندر ہی اندر ڈستی رہتی ہے۔ اکثر سوچتی ہوں کہ کرن کوسب کچھ بتا دوں لیکن پھر ایک ڈرسا لگنے لگتا ہے ۔ کتنا عجیب ہے نا۔۔۔۔ آپس میں وشواس کا اتنا مضبوط رشتہ ہونے کے باوجو د بھی ڈر ؟ ہمارے آپسی پیار محبت اور گہرے وشواس پرمبنی رشتوں کی یہ عمارت کیاریت کے ذروں پر کھڑی ہے کہ میرے ماضی سے کوئی جھونکا آکر اسے ملیامیٹ کردے؟
کرن جیسا ہم سفرہونا میری سب سے بڑی خوش قسمتی ہے۔ ان کے دل میں ہر کسی کے لیے بس پیار ہی پیار اور اپنا پن بھراپڑاہے۔لیکن دیو ورت کے لیے ان کے دل میں اس قدر محبت کا جذبہ دیکھ کر مجھے کبھی کبھی ڈر لگتا ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ خدانخواستہ کسی وجہ سے اگر ان کے رشتے میں کوئی دراڑ پڑ گئی تو کیا ہوگا؟
دیو ورت بھی انھیں اسی قدر پیار کرتا ہے جتنا وہ ۔ چھوٹے سے دیوورت کے ساتھ کھیلنے اور اس کی دلآویز کلکاریاں سننے کے لیے کرن کیا کیا الٹی سیدھی حرکتیں کرتے رہتے تھے۔اب بھی یاد آتا ہے تو بے ساختہ ہنسی چھوٹ جاتی ہے۔
ایک بارایسا ہوا کہ کرن نے مجھے آدھی رات کو جگایا اور بڑے سنجیدہ ہو کر کہا کہ ہمارے آپسی رشتے کو لے کر انہیں کوئی بہت ضروری بات کرنی ہے۔ ان کے ہنس مکھ چہرے پر اس قدر سنجیدگی نے مجھے ڈرا ہی دیاتھا۔ من کی مٹی میں برسوں سے گڑا بُت ا چانک سر ابھارنے لگاتھا۔ میں نے سہم کر کہا، ’بولئے… کیا بات ہے؟‘ انھوں نے مسکراتے ہوئے مجھے اپنی بانہوں میں سمیٹ لیا اور بولے، ’ ’میں تمہارا شکریہ ادا کرنا چاہتا تھا۔تم خوشیاں بانٹنے والی ایک دیوی ہو جس نے مجھے دیو ورت سا پیارا تحفہ دیا ہے۔۔۔شکریہ‘‘ کرن اپنے سیدھے سوبھاؤ اور خوش مزاجی کی وجہ سے مجھے پتی سے زیادہ اپنے دوست لگتے ہیں۔ ان کے ساتھ رہتے ہوئے میرے من کی کتنی ہی الجھنیں اپنے آپ سلجھ گئیں اور کتنے داغ دھل کر صاف ہوگئے۔
کرن کی بڑی خواہش تھی کہ ہمارا ایک اور بچہ ہو جو دیو ورت کے ساتھ کھیلے۔ دیو ورت کے چھ سات سال بعد بھی جب ہماری کوئی اور اولاد نہ ہوئی تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ ہم دونوں کسی ڈاکٹر سے معائنہ کروا لیں۔ میں کانپ اُٹھی تھی۔مجھے معلوم تھا کا معائنے کا رزلٹ کیا آئے گا۔ میں نے کہا ، “جب ہمارا ایک بچہ ہے تو بھلا ہمیں کیا پڑی ہے ڈاکٹروں سے معائنے کراتے پھریں”۔ خیر بات کسی طرح ٹل گئی اور اس کے بعد کرن بھی ٹیسٹ ویسٹ کا خیال بھول بھال گئے ۔ پھرکئی سال بیت گئے۔ ہماری زندگی کسی خوب صورت گیت کی طرح بہت پرسکون اور خوشگوار گزر رہی تھی ۔
پھر اچانک ایک دن کرن، چیتن کو گھرلے آئے۔ وہی سیاہ راز جو میرے اندر کہیں مدفون تھا ، یک بارگی کسی وحشی کی طرح میرے سامنے آ کھڑا ہوا۔
کرن نے اپنے مخصوص مزاحیہ انداز میں چیتن کو جموں کی نشانی کہتے ہوئے مجھ سے متعارف کروایا۔ کچھ لمحوں کے لئے تو ماضی کے کسی بھوت نے مجھے پوری طرح اپنی گرفت میں لے لیاتھا۔’’میڈم جی۔۔۔۔ اب انہیں اندر بھی بلاؤ گی یا یوں ہی دروازے پر کھڑی ہمارا راستہ بند کیے رکھو گی؟” کرن کی آواز پرچونک کر میں اس بھوت کے چنگل سے باہر آگئی۔
چیتن نے مجھے ہاتھ جوڑ کر نمستے کیا۔ وہ غالباََ یہی ظاہر کرنا چاہتا تھا کہ ہم ایک دوسرے کے لیے اجنبی ہیں ۔ لیکن میں ان چند لمحوں میں ہی اپنے من کے ساتھ ایک عہدکر چکی تھی۔ میں نے بڑے سلیقے اور رکھ رکھاؤ سے اسے پوچھا،’’ چیتن جی ،آپ یہاں کیسے؟
کرن نے مسکرا کرکچھ حیرت سے پوچھا،’’تو آپ دونوں ایک دوسرے کو جانتے ہو؟‘‘
’’ہاں ہم ایک ہی محلے میں تو رہتے تھے‘‘ میں نے ایک طرح کی گرم جوشی دکھاتے ہوئے کہا ۔ لیکن چیتن نے اس میں جھوٹ کا فالودہ ملاتے ہوئے کرن سے کہا، ’’لیکن آپ کی شادی سے کچھ عرصہ پہلے ہم لوگ وہاں سے شفٹ ہو گئے تھے‘‘۔
کرن نے قہقہ لگا کر کہا،’’ گڈ گڈ…….تب تو میں نے اچھا ہی کیا کہ انھیں اپنے ساتھ گھر لیتاآیا‘‘۔
چیتن کا آنامیری زندگی کی شانت جھیل میں پتھر پھینک کر کھلبلی مچانے جیسا تھا۔ خیرکھلبلی ہوئی ضرور لیکن بس سطح پر؛ جب کہ یہ جھیل تو خاصی گہری ہے۔
وہ بھی کیا لمحے تھے جب اس تاریک راز نے جنم لیاتھا جس کا بوجھ میں آج تک اپنے باطن میں ڈھو رہی ہوں۔یہ بھی قدرت کا کیا ایک کھیل ہی ہے کہ انہی پلوں کی دین وہ خوشی بھی ہے جومیری اور کرن دونوں کی زندگی کو بامقصد اوربامعنی بنا تی ہے۔
میری زندگی میں ایک بیس برس پرانا، بند پڑا دریچہ کھل گیا ہے۔ گھر والوں کی طرف سے کرن کے ساتھ میرا رشتہ پکا کیا جاچکاتھا۔ شادی کی تاریخ بھی طے ہو چکی تھی۔ لیکن میں من ہی من میں کسی اور کی ہو چکی تھی۔ ماں کو میں نے اپنے دل کے فیصلے سے آگاہ کیا تو وہ بڑی مشکل میں پڑ گئیں۔ شادی کی تیاریاں زورو شوپر تھیں اس کے باوجود ماں نے باپو سے بات کی۔ باپو نے اسے میرابچپنا اور ذہنی فتور کہہ کر ماں کو ہی باتیں سنا ڈالی تھیں اور میرے لیے سندیسہ بھیجاکہ اگر اس طرح میں نے سماج میں ان کی ناک کٹوائی تو ان سے برا کوئی نہ ہو گا۔ میں ٹوٹ چکی تھی۔ زندگی کا میرے لئے کوئی مقصد نہیں رہ گیاتھا۔ میری خوشی کی کسی کو پرواہ تھی بھی نہیں۔ سب مجھے بیاہ دینے کی اپنی ذمے داری نبھا کر سماج میں سرخرو ہونا چاہتے تھے۔ دکھ اور غصے نے میرا اندر جلا کر رکھ دیا۔ میرے اندرباغیانہ چنگاریاں بھڑک اٹھیں اور ایک طرح کے انتقامی جذبے نے مجھے اپنے حصار میں لے لیا۔ میری خوشیوں کو دبوچ کر،جب سب نے اپنے دل کی کر لی ہے تو میں نے بھی فیصلہ کرلیاکہ میں بھی ایک بار اپنے من کی کر ہی گزروں گی۔ دیکھوں تو مجھے کون روکتا ہے ؟ کسی جلتے انگارے کی طرح میں باہر نکلی اور چیتن کی بانہوں میں پہنچ کر اپنا سب کچھ اسے سونپ دیا۔
اب میں اُن لمحوں سے متعلق سوچتی ہوں تو مجھے اندازہ ہوتا ہے کہ چیتن اس سب کے لئے تیار نہیں تھا۔ میرے ساتھ جسمانی تعلق کی خواہش سے زیادہ اس کے دل میں حیرت تھی۔ لیکن پھراس کے بعد جو ہوا وہ ایک تیز آندھی کی طرح ہوا اور پھر، سب کچھ پہلے جیسا شانت ہو گیا۔ اس کے بعد میرے دل میں ایک خالی پن سا رہ گیا۔ نہ کچھ ملنے کی خوشی نہ کچھ کھونے کا غم۔ جو کچھ میں نے کیا اس کا مجھے کوئی پچھتاوا نہیں تھا۔ میرے دل میں چیتن کے لئے جو چاہت مچلتی رہتی تھی، اس آندھی کے ساتھ وہ بھی ہوا ہو گئی۔ اگرچہ چیتن کے لئے اب میرے دل میں کوئی چاہت نہیں بچی تھی لیکن اس سے کوئی نفرت بھی نہیں تھی۔ اب میں پچھلا سب کچھ پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھ رہی تھی۔ وہ دن ہے اور آج کا دن، کرن کے علاوہ کبھی میرے دل میں کسی اور کاخیال تک نہیں آیا۔
اب چیتن کبھی کبھار ہمارے گھر آنے لگاتھا۔ پھر کرن کا شطرنج کھیلنے کا پراناشوق جاگ اٹھا اور شطرنج کے بورڈ اور مہروں سے دھول مٹی جھاڑ کر انہوں نے ہر سنیچر کو چیتن کے ساتھ بازی لگانا معمول بنا لیا۔ رات گئے تک شطرنج کھیلی جاتی۔ پھرچیتن شام کا کھانا بھی ہمارے ہاں ہی کھاکر جانے لگا۔مجھے لگتا ہے ، کرن چیتن کو کافی پسند کرتے ہیں، اس کے ساتھ ہنستے کھیلتے اور مذاق کرتے رہتے ہیں۔ شائد اس لئے بھی وہ چیتن کے ساتھ لگاؤ رکھتے ہیں کہ وہ میرے مائکے جموں سے ہے۔
میں دل سے یہ چاہتی تھی کہ چیتن ہمارے گھر نہ ہی آئے تو اچھا ہے۔لیکن اس کے آنے سے مجھے کوئی زیادہ پریشانی بھی نہیں تھی۔ پریشانی کی اصل وجہ تو کچھ اور ہے۔ دراصل میری پریشانی اس وقت بڑھ جاتی ہے جب میں چیتن اور دیو ورت کو ایک ساتھ بیٹھے دیکھتی ہوں۔ ہوسکتا ہے یہ میرا وہم ہی ہو لیکن مجھے لگتا ہے کہ اگر کوئی بغور دیکھے تو ان کی چہروں میں مماثلت بآسانی ڈھونڈھ سکتا ہے، خاص کر دونوں کی آنکھیں تو بالکل ایک جیسی ہیں۔ دونوں کی آنکھوں کے کونوں پرجھریاں سی ہیں جس طرح چینیوں کی آنکھوں پر ہوتی ہیں، لیکن چیتن کی عینک کے پیچھے وہ نظر نہیں آتیں۔
حالانکہ چیتن نے کبھی مجھ پر ظاہر تو نہیں ہونے دیا لیکن مجھے پورا یقین ہے کہ وہ بھی سمجھ چکا ہے کہ دیو ورت اسی کا بیٹا ہے۔ پتہ نہیں کیوں، دیو ورت کو چیتن ایک آنکھ نہیں بھاتا۔
اکثر ایسا ہواہے کہ پانی کا گلاس یا کوئی اور چیز دیتے ہوئے چیتن کی انگلیوں سے میری انگلیاں مس ہو جاتیں۔ شروع شروع میں تومَیں نے اس طرف کوئی دھیان نہیں دیا لیکن جب ایسا کچھ زیادہ ہی ہونے لگا تو مجھے شک ہوا کہ چیتن جان بوجھ کرایسا کرتا ہے۔ اس کی حرکت مجھے بالکل اچھی نہیں لگی۔ پھر ایک دن جب چیتن ہمارے گھر آیا تو وہ نہ ہی اس کے آنے کادن تھا اور نہ ہی وقت ۔ گھر میں نہ کرن تھا ،نہ دیو ورت۔ میں نے اسے بٹھایا اورپانی پیش کیا۔ اس کی انگلیاں پھر میری انگلیوں سے مس ہوگئیں۔ میں نے اسے پوچھا کہ وہ اس وقت کس لئے آیا ہے؟ اس نے کہا،’’آج دفتر سے جلدی فارغ ہو گیا تھا سوچا گپ شپ ماریں گے اس لیے ادھر چلا آیا‘‘۔
میں نے اپنے اندر کی سختی پرنرمی کا غلاف چڑھا لیا اورچیتن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے صلاح دی،’’ آپ تبھی آیا کریں جب کرن گھر میں موجود ہوں۔ خیر آپ بیٹھیں میں آپ کے لئے چائے بنا لاتی ہوں اور ہاں جب تک کرن نہیں آتے آپ آرام سے بیٹھیں اور ٹی وی دیکھیں‘‘۔
اس کے بعد چیتن کبھی بے وقت ہمارے گھر نہیں آیا۔
دیو ورت اور چیتن کے رشتے کو لے کر میں کسی غلط فہمی کا شکار نہیں ۔ دیو ورت کی پیدائش کی وجہ چاہے چیتن رہا ہو یا کرن لیکن اس کے پاپا صرف اور صرف کرن ہیں۔ یہی سچائی ہے۔ میں کرن کے سوائے کسی اور کواپنے بیٹے کے پتا کے روپ میں دیکھ ہی نہیں سکتی۔ ہاں، میں اتنا ضرور چاہتی ہوں کہ میرا بیٹا دیو ورت،چیتن سے اس قدر نفرت نہ کرے۔ اس کاچیتن کے تئیں ایسارویہ مجھے بالکل اچھا نہیں لگتا۔
چوتھا رخ ۔ کرن
چیتن جب پہلی بار میرے ساتھ گھر آیا تو پاروتی کا رویہ مجھے کچھ عجیب سا لگا۔ میرے ساتھ جب بھی کوئی مہمان گھر میں آتا، پاروتی بڑے خلوص اور گرم جوشی سے اس کا استقبال کرتی۔ اس کے اعلیٰ اخلاق و اطوار کا میں ہمیشہ قائل رہا ہوں۔ لیکن چیتن کا سواگت کرتے ہوئے اس کی وہ مہمان نوازی اور گرم جوشی کہیں غائب تھی۔ مجھے اور بھی حیرت اس لئے ہوئی کہ چیتن کا تعلق پاروتی کے اپنے شہر جموں سے تھا ۔۔۔ وہ جموں جس کی تعریفیں کرتے کرتے پاروتی کبھی نہیں تھکتی۔کتنی بار میں اور دیو ورت اس کی اس عادت کا مذاق اڑاتے رہتے ہیں ۔ اسی جموں سے آنے والے مہمان کا سواگت ا تنی سرد مہری سے ؟؟؟
مجھے لگا کہ برسوں سے میرے من میں بیٹھے سوالوں کا ، ہو نہ ہو،کچھ نہ کچھ تعلق چیتن سے ضرور ہے۔ وہ سوال جنہیں ہمیشہ میں نے اپنے اندر دفنا دینے کی کوشش کی ہے۔
یہ کوئی دس بارہ سال پرانی بات ہو گی۔ دیو ورت کے بعدجب کافی دیر تک ہمارا کوئی دوسرا بچہ نہیں ہوا تو میں نے پاروتی کو صلاح دی کہ ہمیں میڈیکل چیک اپ کروالینا چاہیئے، کہیں پہلے بچے کے بعد کوئی نقص یا بیماری نہ ہو گئی ہو۔ پاروتی نے میری یہ صلاح جھٹ سے خارج کردی تھی۔ اس نے اپنی نرم طبیعت کے بالکل الٹ رویہ دکھاتے ہوئے جس طر ح سرے سے ہی چیک اپ سے منع کردیا تھا اس پر مجھے بڑی حیرانی ہوئی۔ پھر بھی میں نے پاروتی کو بتائے بناڈاکٹر سے اپنا معائنہ کرواہی لیا۔ ٹیسٹ کا جو نتیجہ آیا وہ بڑا حیران کن تھا۔ ڈاکٹر کے مطابق نہ میں باپ بننے کے قابل تھا اور نہ کسی علاج کی توقع تھی۔ یہ کوئی پیدائشی جنیاتی بیماری تھی جس کا کوئی بھی علاج موجود نہیں تھا۔
میرے من میں سوالوں کے طوفان کا برپا ہونا قدرتی تھا۔لیکن میں پاروتی کو اتنی اچھی طرح سے جانتا اور سمجھتا تھا کہ اس پر شک کرنا اپنے اوپر شک کرنے جیسا تھا۔ پاروتی کا اخلاق، اس کی خو خصلت،عزت نفس، خلوص اور میرے لئے اس کی خود سپردگی مجھے اس کے بارے میں کچھ بھی غیراخلاقی سوچنے کی اجازت نہیں د یتے ۔ اگر پاروتی نے کوئی بات مجھے بتانا مناسب نہیں سمجھا تو اس کا بتانا واقعی ضروری نہیں ہوگا۔
دیو ورت ممکن ہے میرا خون نہ ہو لیکن وہ بیٹا میرا ہی ہے۔کیا بے اولاد جوڑے بچے گود لے کر نہیں پالتے اور ان پر اپنا سب کچھ لٹا نہیں دیتے؟ کچھ بھی ہو دیو ورت نے پاروتی کی کوکھ سے جنم لیا ۔۔۔ وہ پاروتی جسے میں دنیا میں سب زیادہ چاہتا ہوں۔
جس طرح چیتن کی آمد پر پاروتی نے انجانا سا رخ اپنالیاتھا اس سے جیسے میری تیسری آنکھ کھل گئی جو سامنے رونما ہونے والے واقعات کے پیچھے بھی کچھ دیکھ لیتی ہے۔ میری اسی تیسری آنکھ نے دیکھا کہ پاروتی کو چیتن کالگاتار ہمارے گھر آنا کچھ زیادہ نہیں بھاتا ۔ مجھے یہ سمجھنے میں زیادہ دیر نہیں لگی کہ دیو ورت ،چیتن کی ہی اولاد ہے۔ چیتن کے دل میں پاروتی کے لئے پیار اور پاروتی کی طرف سے مکمل بے حسی بھی میری نظروں سے پوشیدہ نہیں۔
اب پاروتی سمجھتی ہے کہ اس نے جو راز اپنے سینے میں دفن کررکھا ہے، وہ اس کے سوا کسی کو نہیں معلوم ۔ حالانکہ چیتن سمجھ چکا ہے کہ دیو ورت اسی کا بیٹا ہے۔ چیتن سوچتا ہے کہ مجھے اس بات کی کوئی خبر نہیں۔ اور میں یہ سوچتا ہوں کہ شائد ہم سب کی سوچ اپنی اپنی جگہ صحیح ہے اور ہم سب کے لیے بہتر بھی، خاص کر پاروتی کے لیے۔ مجھے یہ بھی پتہ ہے کہ پاروتی جیسی انسان کے لیے ایک راز کا یہ بوجھ زندگی بھر ڈھوتے جانا کتنا کٹھن اور عذاب دہ ہے۔لیکن خدانخواستہ اس کی اپنی یا کسی اور کی غلطی کے باعث اگر کبھی یہ بھید میرے سامنے کھل گیا ، تو وہ جیتے جی مرجائے گی۔ پھر میں اسے چاہے کتنا بھی یقین دلاؤں کہ اس کے ماضی سے اس کے حال پر کوئی اثر نہیں پڑنے والا، وہ کبھی نہیں مانے گی ۔ میں کبھی بھی،کسی قیمت پر بھی، یہ نہیں چاہوں گا کہ پاروتی اپنے تئیں کسی طرح کی ذلت محسوس کرے ۔ چیتن کے ہمارے گھر میں آنے سے بھی مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا کیوں کہ میں جانتا ہوں پاروتی کے دل میں اس کے لئے کوئی جگہ نہیں۔اور اگر بے چارے چیتن کو ہمارے گھر میں آکر کوئی خوشی حاصل ہوتی ہے تو ہم کیوں اسے اس سکھ سے محروم کریں۔ ہاں اگر کبھی وہ خود یہ فیصلہ کر لے کہ اب اسے ہمارے گھر نہیں آنا چاہیئے تو یہ اس کی مرضی۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply