• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • عوام کے لیے نہیں اپنے طبقے کے لیے لکھتا ہوں۔۔ڈاکٹر انور سجاد/انٹرویو۔انورسن رائے

عوام کے لیے نہیں اپنے طبقے کے لیے لکھتا ہوں۔۔ڈاکٹر انور سجاد/انٹرویو۔انورسن رائے

سوال: کوئی اگر آپ ہی سے آ کر پوچھ لے کہ یہ انور سجاد کون ہے تو آپ کیا کہیں گے؟
انور سجاد: اُسی کی تلاش میں ہوں۔ (قہقہہ)
سوال: اب تک آپ نے اسے کتنا جانا ہے؟
انور سجاد: نام جیسے کہ آپ نے کہا ہے: انور سجاد۔ پیدا لاہور میں ہوا۔ اندرون شہر۔ جسے والڈ سٹی بھی کہتے ہیں۔ والد لدھیانہ کے اور والدہ امرتسر سے۔ والد کا نام سیّد دلاور علی شاہ۔ میں سیّد اس لیے نہیں لگاتا کہ کچھ حرکتیں سیّدوں والی نہیں ہیں۔ والدین نے نام رکھا تھا: سجاد انور، میں نے اسے انور سجاد کر دیا۔ تاریخِ پیدائش تھوڑی سی متنازع ہے، ایک اندازے کے مطابق ستائیس نومبر انیس سو پینتیس ہے اور لیکن میرے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ پر ستائیس مئی انیس سو چونتیس ہے۔ کبھی اس فرق کو جاننے کی ضرورت ہی نہیں پڑی، میری بلا سے اگر اٹھارہ سو چونتیس بھی لکھ دیں تو کچھ فرق نہیں پڑتا۔ کیونکہ مجھے ملازمت وغیرہ نہیں کرنی تھی تو اس لیے یہ کوئی مسئلہ تھا ہی نہیں۔لیکن میں ستائیس نومبر انیس سو پینتیس ہی سمجھتا ہوں۔
سوال: گھر کا ابتدائی ماحول، بہن بھائی؟
انور سجاد: بڑا اچھا ماحول تھا۔ ماشا اللہ بڑا خاندان تھا۔ تین بہنیں تین بھائی۔ ایک بھائی اور ایک بہن فوت ہو چکے ہیں۔ ایک بھائی امریکہ میں رہتا ہے اور بہنیں دو بیاہی ہوئی ہیں اور راولپنڈی اور اسلام آباد میں رہتی ہیں۔ ایک بہن مجھ سے بڑی تھیں اور بھائیوں میں میں سب سے بڑا تھا۔
سوال: میڈیکل کی طرف اپنی پسند سے گئے یا؟
انور سجاد: (ہنستے ہوئے) والد میرے شہر کے بہت جانے پہچانے فزیشن تھے۔ انہوں نے کنگ ایڈورڈ کالج سے انیس سو انتیس میں گریجویشن کیا تھا۔ انہیں کوئی نہ کوئی ولی عہد چاہیے تھا۔ میں نے کافی جان بچانے کی کوشش کی۔ میرا خیال سول سروس یا سپورٹس می جانے کا تھا۔ سینٹ پال سکول سے میٹرک کیا۔ پھر گورنمنٹ کالج سے ایف ایس سی کی اور ایف سی کالج سے گریجویشن کی۔ والد کا خیال تھا کہ میں لاہور میں پڑھ نہیں سکتا۔ ادبی سرگرمیاں تھیں۔ ریڈیو تھا۔ چھٹی کلاس میں تھا کہ ریڈیو پر بچوں کے پروگرام میں جانے لگا تھا۔ لیکن بیچ کا وہ زمانہ چھوڑ کر، جس میں آواز ریڈیو کے قابل نہیں رہتی، انیس سو باون تریپن میں نے پھر ریڈیو شروع کیا۔ تھیٹر بھی چل رہا تھا۔ اس وقت آرٹس کونسل ہی تھی، تو دوستوں کے ساتھ کافی ڈرامے کیے۔ اس زمانے میں کیونکہ قراردادِ مقاصد آ چکی تو مذہبی علماء کافی جوش و خروش سے کام لے رہے تھے۔ لاہور میں انٹر سکول اور انٹر کالج مقابلوں کی ایک روایت تو موجود تھی ہی تو کافی جد و جہد رہی۔ اس وقت ہمارے گورنمنٹ کالج میں پاور فُل ڈرامیٹک سوسائٹی تھی۔ ایف سی کالج سے میڈیکل کالج گئے تو وہاں ڈاکٹر اعجاز تھے۔ بہت سینئر، تو انہوں نے اسی وقت تھیٹر پر کام شروع کر دیا۔ ایک اور بات یہ تھی کہ ہمیں اساتذہ بہت ہی اچھے مل گئے بہت حوصلہ افزائی کرنے والے اور گروم کرنے یا صلاحیت کو نکھارنے والے۔ ساٹھ کے ابتدائی برسوں میں ٹھیک ٹھاک ڈرامہ ہونا شروع ہو گیا۔ چونسٹھ میں ٹیلی ویژن آگیا تھا۔
سوال: اس وقت کون کون لوگ آپ کے ساتھ تھے اور ان میں سے کتنے رہے اور کتنے راستے میں گم ہو گئے؟
انور سجاد: کوئی ساٹھ فیصد رہ گئے۔ یہ لوگ شعیب ہاشمی، نعیم طاہر، خالد سعید بٹ، فاروق سلیم وغیرہ یہ سب تھے۔ ان میں سے کچھ کلاس فیلو تھے کچھ جونئر۔ اس وقت یہ ضیاء صاحب (ضیاء محی الدین) بڑی متحرک کرنے والی شخصیت ہوتے تھے۔ ہمیں معلوم ہوا کہ کراچی میں خواجہ معین الدین کا ڈرامہ کر رہے ہیں۔ پھر انہوں نے کھیل پروڈیوس کیا تھا ’لال قلعے سے لالو کھیت‘ پھر اسے وہ لاہور بھی لائے۔ تو پچاس کے وسط سے پچھہتر تک کے بیس سال میں ماحول بڑا تخلیقی تھا۔ ہر قسم کی تخلیقی سرگرمی تھی۔ تھیٹر ہو رہا تھا، فکشن لکھا جارہا تھا، بغاوتیں ہو رہی تھیں اور پاکستان میں ہی نہیں ساری دنیا میں۔ میرا پہلا ڈرامہ انگریزی کا تھا اور سب سے پہلے میں نے اس میں ایکٹ کیا (اداکاری کی تھی)۔ سائیلنٹ رول تھا۔ میں بہت اداس ہوا۔ ڈاکٹر صادق تھے اس وقت ڈرامیٹک کلب کے انچارج، میں اس وقت میں فرسٹ ائر میں تھا تو، میں نے کہا کہ میں تو نہیں کروں گا۔ ’لائبل‘ نام تھا اس ڈرامے کا۔ یہ جو آپ کے نگراں وزیراعظم رہے ہیں معین قریشی، یہ بھی ایکٹ کر چکے ہیں ہمارے پلے میں۔ تو ڈاکٹر صادق نے کہا کہ ایک بات یاد رکھنا۔ ’رول نہیں ہوتے چھوٹے بڑے، ایکٹر ہوتے ہیں‘۔ تو میں نے وہ رول کیا لیکن اس دوران میں بیٹھا ہوا حیران ہوتا رہتا تھا کہ لوگ ایکٹنگ کیسے کر لیتے ہیں؟۔ بہت تجسس تھا مجھے کہ کتنی ہمت کی بات ہے اتنے لوگوں کے سامنے آ کر اداکاری کرنا۔ سکول میں ڈیبیٹ ہوتی تھی، تو میری ہمت ہی نہیں ہوتی تھی، چھٹی کلاس تک۔ تو ایک بار میں نے بھی ایک تقریر لکھی اور خوب یاد کی۔ اس وقت پانچ منٹ کا وقت ہوتا تھا۔ سٹیج پرگیا تو دو منٹ کے بعد ہی سب بھول گیا۔ نیکر پہنتا تھا، تو لگ رہا تھا کہ ڈھیلی ہو گئی ہے اور کسی وقت بھی گر جائے گی۔ لیکن پھر خیال آیا کہ پانچ منٹ تو پورے کرنے ہیں۔ تو پھر سے شروع کر دی بس وہ دن تھا کہ میں نے اپنی شائینیس (حجاب) پر قابو پا لیا۔ سینٹ پال سکول اس سلسلے میں بہت زبردست تھا۔ وہاں سے ہر سال ہر کلاس اپنا ایک میگزین نکالتی تھی اور اس کی خوش نویسی بھی ہم خود ہی کرتے تھے۔ تو اس طرح کے ماحول میں جب اچھے اساتذہ بھی ہوں تو شخصیت بنتی ہے۔ وہیں سے پڑھنے کا شوق ہوا۔ پہلے پھول اخبار تھا، دارالاشاعت کا۔ امتیاز علی تاج کے والد صاحب تاج علی نکالتے تھے اس وقت تو معلوم نہیں تھا لیکن بعد میں پتہ چلا کہ اس میں غلام عباس اور احمد ندیم قاسمی صاحب جیسے بندے بھی ایڈیٹر رہے۔ پھر ان کی پیسہ لائبریری کی کتابیں چھپتی تھیں۔ جنوں اور پریوں کی کہانیاں، بہت ہی خزانہ تھا۔ پھر گھر کا ماحول والد ہمارے خاصے صوفی منش تھے۔ ابّا کٹر سنی تھے اور ہمارے رشتے دار شیعہ، تو ان کی بحثیں سنتے تھے گھر میں۔ سمجھ میں تو نہیں آتا تھا لیکن ایسی فضا تھی جس میں ہم سانس لے سکتے تھے۔ تو لاتعداد سوال پیدا ہوتے تھے۔ اندرون شہر والے گھر کی ایک اور خوبصورت بات تھی کہ گرمیوں میں ہم سب سے اوپر کی چھت پر سوتے تھے اور تاروں بھرے آسمان کے نیچے، تو وہ بہت تحیّر اور تجسس کا سامان پیدا کرتا تھا۔ میرے خیال میں قدیم انسان اسی طرح محسوس کرتا ہو گا۔ تو اس طرح کچھ آواز کے ذریعے، کچھ قلم کے ذریعے، کچھ برش کے ذریعے اور کچھ بعد میں رقص بھی سیکھا۔ تو اس طرح سب ایلیمنٹ (عناصر) مل کر، جیسا کہ اب میں سمجھتا ہوں کہ سارے علوم آپس ایک دوسرے سے کسی نہ کسی طرح جڑے ہوئے ہیں۔ تو اگر آپ ایک فن میں ہیں اور دوسروں کو آپ نے نظر انداز کر دیا ہے تو آپ کا تناظر انتہائی محدود ہو جاتا ہے۔ بعد میں مجھے اس سے دشواری بھی ہوئی کیونکہ اگر آپ نے میرا ناول پڑھا ہے یا کہانیاں پڑھی ہیں تو آپ نے محسوس کیا ہو گا کہ ان پر مصوری کا کتنا اثر ہے یا اس میں موسیقی کا کتنا ردھم ہے۔ بلکہ کئی بار تو مجھے لکھتے ہوئے ایسے لگتا تھا جیسے میں رقص کر رہا ہوں۔ پھر مصوری شروع کی تو یہ سوال پیدا ہوا کہ کہانی بیان کرنی ہے تو تصویر کیوں بنائی جائے، کہانی لکھیے، اور تصویر کو اپنی جمالیات بیان کرنی چاہیے۔ کیونکہ اس میں سمجھنے والی بات نہیں ہوتی اس میں صرف بلینک سپیسیز کو آپ نے استعمال کیا ہے۔ پھر سرریلسٹوں کو دیکھا۔ روسو جو سرریلسٹوں کا والد کہلاتا ہے اس سے ڈالی تک کو کھنگالا۔ تو اس میں کہانیاں ہی کہانیاں ہیں۔ تو وہ فرائڈ اور خوابوں کے حوالے سے ساری بات کرتے تھے۔
سوال: پہلے کہانیاں شروع کیں یا ڈرامے میں آئے اور پہلی کہانی کون سی تھی جو شائع ہوئی اور کہاں شائع ہوئی؟
انور سجاد: پہلے کہانیاں لکھنی شروع کیں۔ سنہ باون میں شائع ہوئی تھی پہلی کہانی ’نقوش‘ میں اکیاون یا باون میں مجھے اب صحیح سے یاد نہیں ہے خاص نمبر تھا۔ کہانی کا نام تھا ’ہوا کے دوش پر‘۔ قاسمی صاحب نے بہت حوصلہ افزائی کی تھی۔ وہ نقوش سے نئے نئے الگ ہوئے تھے لیکن طفیل صاحب کو گائڈ ضرور کرتے رہتے تھے۔ اس وقت میں سولہ سترہ سال کا تھا جب پہلی کہانی چھپی۔ اس کے تین سال کے بعد میرا ناول آ گیا ’رگِ سنگ‘۔ اس وقت ہوتا تھا گوشۂ ادب ملک مبارک علی، ملک عبدالسلام کا، اس زمانے میں بالکل مکتبۂ جدید کی سطح کا تھا۔
سوال: عام طور پر کیا تاثر ہوا تھا اس ناول پر؟
انور سجاد: ڈاکٹر عبادت بریلوی نے اس کا دیباچہ لکھا تھا کور فلیپ لکھا تھا عارف عبدالمتین نے، اور ظاہر ہے دیباچے میں اسی امید کا اظہار تھا کہ آگے چل کر اچھا لکھیں گے۔
سوال: اور اب آپ کو کیسے لگتا ہے؟
انور سجاد: بھئی ٹھیک ہی ہے۔ مجھے تو اب دوسری کہانیاں بھی اچھی نہیں لگتی ہیں۔ ڈرامہ میں نے سب سے پہلے ریڈیو کے لیے لکھا تھا۔ اس زمانے میں ریڈیو پر جن تھے، رفیع پیر صاحب، تاج صاحب، رفیق صاحب، عابد علی عابد صاحب، ایسے ایسے جنوں سے تو ہم نے علم کو چھینا ہے۔ جو زیادہ تر کسی کو پاس نہیں پھٹکنے دیتے تھے۔
سوال: اس زمانے میں حلقۂ اربابِ ذوق بہت سرگرم تھا تو آپ نے پہلی کہانی کب پڑھی تھی؟
انور سجاد: اکسٹھ یا باسٹھ میں وہ میری پہلی کہانی تھی مارشل لاء کے بعد، ’سازشی‘۔ استعارے کی پہلی کہانی بھی سازشی ہی ہے۔ اس میں میری واحد حمایت شیر محمد اختر نے کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’آپ کو پتہ ہی نہیں ہے کہ یہ کہانی کیا ہے‘۔ باقی لوگوں نے بس پاگل پاگل کہنا شروع کر دیا۔ کچھ نے کہا کہ کہانی ہے نئی لیکن سوچنا پڑے گا کہ ہے کیا۔ میں بالکل مایوس نہیں ہوا۔ حلقے میں تو میں منٹو صاحب کے ساتھ بھی جاتا تھا نا۔ پہلی بار میں ان سے انیس سو پچاس میں ملا تھا اور ان سے ہمارے بہت تعلقات بن گئے تھے۔ انیس سو انچاس میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی کانفرنس ہوئی تھی۔ میں اس وقت سولہ سال کا تھا۔ اس زمانے ایک تنظیم ہوتی تھی ’ڈیموکریٹک سٹوڈنٹس فیڈریشن‘ جس کے جنرل سیکرٹری ہوتے تھے منصور ملک جو بعد میں پیپلز پارٹی پنجاب کے بھی جنرل سیکرٹری ہوئے۔ ان سے دوستی ہوئی تو مزدور یونینوں اور مرزا ابراہیم سے بھی رسم و راہ ہوگئی۔ سجاد ظہیر کو میں کافی دور سے دیکھا ہوا ہے۔
سوال: کھبی آپ نے منٹو صاحب کو اپنی کہانی دکھائی یا ان کی موجودگی میں حلقے میں کہانی پڑھی؟
انور سجاد: کئی مرتبہ۔
سوال: جب آپ نے ’سازشی، پڑھی حلقے میں تو منٹو صاحب موجود تھے۔
انور سجاد: نہیں تب نہیں۔ لیکن جب میں نے انجمن ترقی پسند مصنفین میں قاسمی صاحب کی صدارت میں پڑھی تھی۔ اس میں منٹو صاحب تھے بلکہ ہم دونوں اکٹھے ہی گئے تھے۔ تو عجیب بات یہ ہوئی کہ جب کہانی میں پہلی تشبیہ آئی تو انہوں نے کہا: واہ۔ دوسری بار پھر کوئی اچھا موڑ آگیا یا کوئی اچھی تشبیہ آ گئی تو منٹو صاحب نے پھر کہا ’بھئی واہ‘ اس کے بعد یہ ہوا کہ وہاں بیٹھے ہوئے سب لوگ ہی منٹو صاحب کی واہ سے پہلے ہی واہ کرنے لگے۔ اس کے بعد میں نے کہانی جیسے ہی ختم کی تو منٹو صاحب نے کہا ’چل خواجہ چل کم ہو گیا اے‘۔ میرا خیال ہے کہ وہ سب سے بڑے آدمی تھے جن سے میں کبھی ملا ہوں۔ بہت بڑے آدمی تھے۔ میں نے تو سارا انہی سے لیا ہے۔ ایک صفت تھی منٹو صاحب میں سب سے الگ۔ کہ جب وہ کہانی پڑھ رہے ہوتے تھے تو اگر اس دوران کوئی بول پڑا ہے تو پھر وہ کہانی پڑھتے نہیں تھے کہ ’میری کہانی کمزور ہے آپ کو دلچسپی نہیں ہے‘۔ جماہی بھی نہیں لینے دیتے تھے۔
سوال: کبھی ایسا ہوا کہ انہوں نے کہانی پڑھی اور آپ بھی وہاں موجود تھے تو ان کا کہانی پڑھے جانے کے بعد ہونے والی تنقید پر کیا ردِعمل ہوتا تھا؟
انور سجاد: ایک تو کہانی مشکل سے پڑھنے پر آمادہ ہوتے تھے اور پھر کہانی پڑھنے کے بعد رکتے نہیں تھے۔ اصل میں بات یہ ہے کہ آج کے دور کا اس دور سے مقابلہ ہو نہیں سکتا۔ آج دنیا بھر میں اس سطح کا کوئی آدمی نہیں ہے۔ جو لوگ پچپن سے ساٹھ تک سامنے آئے۔ اس لیے اس وقت بڑے بڑے ایشوز تھے ویتنام تک جو ساری دنیا کو لپیٹے ہوئے تھے تو یہ ساری چیزیں آدمی کو متاثر کرتی ہیں۔ ایک دلچسپ بات ہے کہ ایک بار میں نے سرمد صہبائی کو اس کی کسی چیز پر کہا کہ یار اس میں بات بنتی نہیں ہے۔ سرمد، اپنے بعد آنے والے لوگوں میں میرا سب سے پسندیدہ شاعر اور ڈرامہ نویس ہے۔ تو اس نے جواب میں کہا کہ ڈاکٹر صاحب آپ نے ہسٹری کو بنتے دیکھا ہے۔ سینتالیس میں چاہے آپ دس گیارہ سال ہی کے ہوں گے تو آپ نے تاریخ دیکھی ہے ہم نے تاریخ نہیں دیکھی۔ چھٹی دھائی کےآخر کی بات ہے۔ اس کے بعد ہو گیا ڈھاکہ۔ تو اس کے بعد میں نے اس سے کہا کہ اب تم نے تاریخ دیکھ لی ہے نہ اب تم لکھو۔ لیکن میں کہوں گا کہ سرمد کی تفہیم اپنے ہم عصروں ہی سے نہیں اپنے بعد آنے والوں سے بھی بڑی گہری ہے۔ سارے اشوز کی چاہے وہ نیشنل ہو چاہے وہ انٹر نیشنل۔
سوال: جب آپ نے کہانی لکھنی شروع کی اس وقت آپ کے ہم عصر کون کون تھے اور ان میں کون کون تھا جو باقی رہا یا جن کے بارے میں آپ کو لگتا تھا کہ اس میں دم ہے؟
انور سجاد: اس وقت تو کوئی نہیں تھا۔ آپ لوگ آئے ہو ستر میں۔ لیکن ہماری جو دہائی تھی وہ ساٹھ کی تھی۔ تو اس میں ایسا کوئی قابلِ ذکر نام نہیں ہے سوائے خالدہ کے۔ خالدہ حسین جو پہلے خالدہ اصغر کے نام سے لکھتی تھیں اور کوئی نہیں۔ انتظار صاحب ہم سے پہلے کی جنریشن تھے۔ لیکن ہندوستان میں بلراج مینرا اور سریندر پرکاش۔ 65 کی جنگ سے پہلے ہماری تھوڑی بہت کمیونیکیشن تھی لیکن پینسٹھ کی جنگ کے بعد تو بالکل ہی ختم ہو گیی لیکن جب بعد میں پھر رسالے وغیرہ آنے شروع ہوئے تو یہ عجیب انکشاف ہوا کہ ہمارا طرز احساس بالکل ایک سا تھا۔ تو یہ ہوتا ہے کہ عصری شعور تھوڑا بہت آپ رکھتے ہوں۔ آپ چیزوں کو اگر ان کے تناظر میں رکھ کر دیکھیں اور سوچیں اور ایک آپ کا ورلڈ ویو اگر بن رہا ہو تو میرا خیال ہے کہ آپ کو اپنے جیسے بہت سے لوگ مل جائیں گے۔ تو اس زمانے میں کوششیں جو تھیں وہ کچھ باغیانہ تھیں۔
سوال: یہ کس طرح کی بغاوت تھی جس کا اظہار آپ کی کہانیوں میں بھی ہوا اور؟
انور سجاد: تین باتیں تھیں اس میں۔ یہاں تک کہ بلراج کی، سریندر کے بارے میں تو پورے یقین سے نہیں کہہ سکتا۔ ہماری گرومنگ، شکل و صورت تو ترقی پسندوں نے بنائی لیکن ہماری لڑائی بھی ان کے ساتھ رہتی تھی اور اس پر صفدر صاحب نے مجھے مارا بھی۔ ان کے ساتھ مسئلہ یہ تھا کہ وہ ہر بات پر ناراض ہو جاتے تھے اور یہ سمجھتے تھے جیسے ان کی ذات پر حملہ کیا گیا ہو۔ ہمارا یہ تھا کہ ہم ڈوگمازم (عقیدہ پرستی) کے شدید خلاف تھے۔ پھر ان کے پرانے حساب کتاب، کہ فلاں چھپے گا اور فلاں نہیں چھپے گا اور ہم اس کے خلاف تھے اور اس کے خلاف بغاوت ہم نے ساٹھ کے اوائل ہی میں کر دی تھی۔ بلکہ اس سلسلے میں بہت لمبی بحث ہوئی اس بلراج کی جعفری صاحب سے جعفری صاحب ہی کے پرچے ’گفتگو‘ میں۔ اس میں ان دونوں کا مکالمہ چھپا تھا۔ اس میں سب سے بڑی تشویش یہ تھی کہ ترقی پسندی کی نئے سرے سے تشریح کی جائے۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ پاکستان میں کمیونسٹ پارٹی بالکل ختم ہو چکی تھی۔ ہندوستان کے ترقی پسند جو تھے ان کی لائن بقول منٹو صاحب سیدھی سادی ماسکو سے آتی تھی۔ اس دوران جو انٹرویو ہوئے تو ان میں میں نے فیض صاحب کے ساتھ ذرا ناراضی کا اظہار کیا۔ تو جب ان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ ’کیوں بھئی! کیا بات ہے بڑی بک بک کرتے ہو، کیا ہوا ہے‘۔ تو میں ان سے کہا کہ ’جی بس مجھے ایک ملک کے دو سفیر پسند نہیں ہیں۔ تو یا روسی سفیر ہو یا آپ ہوں‘۔ تو ہم ان سے پیار بھی بہت کرتے تھے لیکن ان سے چہلیں بھی ہو جاتی تھیں۔ اس کے بعد علی سردار جعفری آئے اور ان سے ملاقات ہوئی تو میں نے ان سے کہا کہ اب آپ کے پیرا میٹر ایسے ہوگئے ہیں کہ مجھے انتظار حسین بھی ترقی پسند لگتے ہیں اور بڑی شدت سے لگتے ہیں۔
سوال: لیکن ڈاکٹر صاحب ایک بات ہے آپ جس زمانے کی بات کر رہے ہیں اس میں غیر ترقی پسند آپ کو ترقی پسند سمجھتے تھے اور ترقی پسند آپ کو جدید کہہ کر الگ کر دیتے تھے؟
انور سجاد: بالکل۔ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ دونوں طرف تفہیم کی کمی تھی۔ اس ٹریجڈی کو میں نے اس وقت زیادہ اچھی طرح سمجھا جب میں نے بریخت کو تفصیل سے پڑھا کہ اسے بھی اسی صورتحال کا سامنا رہا۔ اسے روسی اپنا نہیں سمجھتے تھے اور امریکی کہتے کہ تم کمیونسٹ ہو۔ ایسے لوگfreak ہوتے ہیں جو مصلحت کوش نہیں ہوتے۔ انسانی تقاضوں پر کوئی مصلحت کوشی نہیں ہو سکتی۔ یعنی جس زیادتی کے خلاف ہم لڑ رہے ہیں وہی زیادتی آپ لا رہے ہیں۔ بعد میں جب ہم نے ہنگری اور چیکوسلواکیہ پر ماسکو کی کارروائیاں پڑھیں اور ان پر سارتر کا رویہ دیکھا تو ہم نے کہا کہ بالکل ہم سارتر کے ساتھ ہیں۔ آپ تو ایک اور انویڈر (درانداز) ہو گئے ہیں۔ تو کافی تضادات تھے اس دوران تھوڑی سے تازہ ہوا چین کی طرف سے آئی۔ ماؤزے تنگ کی جو تھیوری تھی مسلسل تضاد اور ذیلی تضادات کی وہ ہمیں زیادہ اچھی لگی۔ لیکن آخر وہی ہوا جیسے کہ ماؤ نے کہا تھا۔ ماؤ سے جب ان کے انقلاب کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ’بات نہیں بنی‘۔
سوال: آپ جب اپنی پوری روح میں ترقی پسند تھے تو آپ نے اس طرح کا افسانہ کیوں نہیں لکھا؟
انور سجاد: یار حد ہو گئی۔ یعنی میں اگر ترقی پسند ہوں تو کیا کہانی کی فارم میں کوئی ترقی نہیں ہونی چاہیے؟ پرسیپشن بدل جاتے ہیں زمانے کے ساتھ ساتھ۔ اور آپ کو اپنے زمانے میں رہنا پڑتا ہے۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ اگر آپ نے پورے نظام سے بغاوت کرنی ہے تو کہانی کی فارم میں کیوں بغاوت نہیں کرنی؟
سوال: اس زمانے میں عسکری صاحب نے پاکستانی ادب کی بات کی تو وہ کس طرح کا ادب چاہتے تھے؟
انور سجاد: مجھے تو اس سے کوئی دلچسپی نہیں تھی اور مجھے نہیں پتہ کہ وہ کس طرح کا ادب چاہتے تھے۔ عسکری صاحب کیا یہ تضاد مجھے کبھی سمجھ نہیں آیا اور ان کے بعد ان کے شاگردِ رشید سلیم احمد کا مسئلہ بھی سمجھ میں نہیں آیا۔ ان کے اولین تحریروں کو اگر غور سے پڑھیں تو ہمیں معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ اسلام کی طرف جا رہا ہے۔ جب وہ رینے گینوں کا ذکر کرتے ہیں تو وہ اسی طرف جانے کا اشارہ دے رہے ہوتے ہیں۔ کوئی شک نہیں کہ وہ اردو ادب کے بہت بڑے نقاد تھے لیکن ظاہر ہے کہ وہ کسی حد تک کنفیوز تھے۔ اپنے ٹائم کے بارے میں خاصے کنفیوز تھے۔
سوال: لیکن منٹو صاحب کے وہ کیسے مداح تھے اور فکشن کے بارے میں ان کا رویہ کچھ اور تھا اور شاعری کے بارے میں کچھ اور؟
انور سجاد: منٹو انہیں پسند تھے۔ اور میری کہانی انہوں نے خود چھاپی تھی اپنے پرچے ’سات رنگ‘ میں، ’سونے کی تلاش‘۔ تو اگر آپ جمالیات کی بات کرتے ہیں اور پھر اس میں آپ اپنی آئیڈیولوجی لے آتے ہیں۔ تو میں یہ سمجھتا ہوں کے خیال اپنی فارم خود ساتھ لے کر آتا ہے۔ آپ چیزوں کو اس طرح سہل نہیں کر سکتے۔ میں اپنے تئیں بڑی اہم بات کرنا چاہ رہا ہوں۔ دوسرا مارکس کا ایک بہت بڑا کنٹریبیوشن ہے کہ خیال میں ایک انتہائی نازک سا توازن ہوتا ہے جو ذرا سا غیر متوازن ہو جائے تو پھر نہ تو ہئیت رہتی اور نہ ڈھانچہ یا سٹرکچر اور نہ ہی موضوع۔ اب اس سے کتنے مارکسسٹوں نے سیکھا ہے۔ کیونکہ انقلاب کا مطلب مسلسل تغیر اور تجربات کرتے رہنا ہے۔
سوال: میں آپ سے یہ پوچھ رہا ہوں کہ ترقی پسندوں نے مارکس کے اس پہلو کو اجاگر کرنے کیا یا اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی؟
انور سجاد: مجھے کیا پتہ؟ آپ سجاد صاحب (سجاد ظہیر) کی اولین تحریروں کو پڑھیے خالص استعاراتی ہیں۔ انہوں نے خود کبھی نہیں کہا کہ غریب لڑکی کا ذکر نہیں ہو گا تو شاعری نہیں ہو گی۔ ترقی پسندوں نے شاعری کا جو بیڑا غرق کیا ہے۔ سجاد ظہیر کو دیکھیں وہ کس طرح کی بات کرتے ہیں کس طرح کرتے ہیں۔ دیکھیں ذرا ’لندن کی ایک رات‘ تو سارے حوالے استعارے کے ہیں۔ تو ہم استعارے ہی کی بات کرتے ہیں۔ اچھا ایک اور بات لوگوں نے مجھ پر یہ الزام لگایا کہ یہ ایبسٹریکٹ یا تجریدی لکھتے ہیں۔ اب ایبسٹریکشن کا مطلب کیا ہے۔
سوال: لیکن ہم استعارے کی بات کرتے ہیں۔ جب ’استعارے، شائع ہوئی تو یہ تنقیدی پیرایہ سامنے آیا کہ کہانی ایک استعارے کو بناتی ہے اور بیان کرتی ہے۔
انور سجاد: اس وقت یہ سوال اس طرح نہیں کھلا تھا۔ بلکہ منٹو صاحب کی ’پھندنے‘ اور ’فرشتہ‘ سے لوگوں کو بڑی مشکل پیش آئی تھی اور کہا جاتا تھا کہ انہوں نے الکوحل کے زیر اثر بیٹھ کر یہ کہانیاں لکھی ہیں۔ حالانکہ میں نے پوچھا بھی تھا تو انہوں پورے شعور سے یہ کہانیاں لکھی تھیں۔
سوال: لیکن افتخار جالب نے جو آپ کا دیباچہ لکھا، استعارے کا، اس میں بھی لکھا انہوں نے اور ویسے بھی وہ کہا کرتے تھے کہ منٹو نے جہاں کہانی ختم کی ہے یعنی ’پھندنے‘ پر، وہاں سے آپ کی کہانی آغاز کرتی ہے۔ ابتدائی کہانیاں نہیں ’استعارے‘ کی کہانیاں اور ان کی جو مجموعی فضا ہے۔ لیکن اس بات کو کیسے کہا جائے کہ منٹو کی کہانی وہاں کیسے اختتام کرتی ہے اور آپ کی کہانی وہاں سے کیسے آغاز کرتی ہے؟
انور سجاد: ان کی کہانی استعارے پر اختتام کرتی ہے اور میری کہانی استعارے کی توسیع کرتی ہے۔ تو میری کہانیاں خالص استعارے اور خالص علامت نہیں ہیں۔ میری میتھڈولوجی ان سے تھوڑی مختلف ہو گئی۔ میں اسی لیے آپ سے ذکر رہا تھا کہ میں نے اپنی ففٹی ون سے سکسٹی تک کی کہانیاں نہیں چھاپیں۔ انہیں میں نے چھاپا کتابی شکل میں آج کے بعد۔ اور اس مجموعے کا نام بھی رکھا ہے ’پہلی کہانیاں‘ اب جو مجموعہ شائع ہوا ہے اس میں وہ آخر میں چھپی ہیں۔ اس مقصد یہ تھا کہ یہ کہانیاں جو میں نے لکھی ہیں وہ ہوا سے وارد نہیں ہوئی ہیں۔ یہ فلوک نہیں ہے۔ میں اپنی پہلی کہانیوں میں آپ کو گروپنگ کرتا ہو نظر آؤں گا اپنے آپ کے لیے۔ کیونکہ ہمارے سینئر نے جو بات کہنی تھی انہوں نے وہ اپنے مکمل انداز میں کہہ دی۔ جو منٹو صاحب نہیں کہہ پائے وہ بیدی نے کہہ دی۔ دونوں کو رومانوی کرنا ہوا تو کرشن چندر نے کہہ دی۔ تو ان بڑے لوگوں کے زیر سایہ، برگد کے ان درختوں کے نیچے تو کچھ نہیں نظر آتا نہ، تو آپ کو ان کے سائے سے نکلنا ہو گا۔
سوال: تو ان کے ساتھ رہتے ہوئے کیسے سوجھا آپ کو؟
انور سجاد: میں ہر چیز کے لیے ان کا احسان مند ہوں۔ ان پروگریسوز سے۔ خیر یہ لیبل لگانا بھی زیادتی ہے۔ منٹو صاحب، بیدی صاحب، یہاں تک کہ کرشن چندر صاحب، یہاں تک کہ انور عظیم صاحب، کیونکہ میں تو بہت زیادہ متاثر ہو جاتا ہوں اور میں سمجھتا ہوں کہ مجھے مزا آتا ہے تو بس ٹھیک ہے۔ لیکن اس کے باوجود ایک جھنجھلاہٹ سی تھی مجھ میں کہ یہ غلط ہے کہ اگر میں بھی وہی باتیں اسی انداز میں کروں گا تو زمانہ تو بدل گیا ہے۔ میرے زمانے کا بڑا مسئلہ ویتنام تھا، غلامی اور نیو کولونیل ازم کا مطلب کیا ہوا۔ الجیریا ہے ساری قومیں آزادی مانگ رہی ہیں۔ تو اس سب کی اہمیت کیا ہے اگر سوربون یونیورسٹی میں ہڑتال ہوتی ہے تو وہ مجھ سے کیا کہتی ہے۔ سارتر کیا کر رہا ہے؟ پاکستان میں کیا ہو رہا ہے؟ تو میرا مسئلہ تو یہ تھا کہ میں دنیا کو کیسے دیکھتا ہوں۔ سارے کرۂ ارض کو۔ تو جب ٹیکنالوجی اتنی چھلانگ لگا گئی ہے اور ہر چیز اپنے شکنجے سے باہر نکل رہی ہے تو کیا وہی رہ سکتے ہیں جیسے ہیں۔ اس لیے جب لوگ کہتے ہیں کہانی واپس آ ئی، کہانی واپس آئی تو میں پوچھتا ہوں گئی کہاں تھی کہانی۔ ہم نے لینئر ٹائم (یک رخے وقت) پر غور شروع کیا اور اسے توڑ پھوڑ کر دیکھ لیا کہ اس سے سٹرکچر پر کیا فرق پرتا ہے اور یہ ٹھیک بھی ہے یا نہیں۔ تم نے ’چیخ‘ میں کیا کیا ہے، یہی تو سارا مسئلہ ہے۔ یہ سارا غیر روایتی ہے۔ بات یہ ہے کہ شاعری کے برخلاف کہانی کی ایک مجبوری ہے کہ آپ ایک خاص وقت اور خاص مقام میں ہوتے ہیں۔ چاہے وہ بہت بیتا ہوا زمانہ ہو، چاہے آج کا ہو یا مستقبل کا۔ آپ وقت اور مقام سے نہیں نکل سکتے۔ چاہے آپ مکاں تصوراتی ہی کیوں نہ بنا لیں۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ جب فرانز فینن ہمیںWretched of the Earth کے بارے میں بتا رہا تو ہم تو ویسے ہی ختم ہوئے جا رہے تھے۔ آزادی کا مقصد کیا ہے ؟ آزادی کا مطلب کیا ہے؟ جب آزادی حاصل کرتے ہیں تو اس کے بعد بھی غلام کیسے ہو جاتے ہیں؟ اور کس کے ہو جاتے ہیں؟ دیکھ لیں چین میں کیا ہوا ہے، آپ کی بیورو کریسی ہی آپ کو نہیں چھوڑتی ہے۔ تو پھر وہ ریاست کہاں سے آئے گی جسے اینٹی سٹیٹ کہا جاتا ہے؟
سوال: تو اس حوالے سے آپ زبان کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟
انور سجاد: انتہائی بنیادی، ہمارے ملک کی سب سے بڑی بد قسمتی یہ ہے کہ آپ اس کی طرف توجہ ہی نہیں دے رہے۔ اگر بگٹی کو مار دیا ہے تو اس میں پریشانی کی کیا بات ہے وہ مفاد پرستی کی ہولناک علامت تھا۔ تو یہ سب مسائل ہیں اور ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم انہیں فکشن میں کس طرح حل کرتے ہیں۔ اب ٹیکنالوجی جس طرح سے انفارمیشن کو روانی دے رہی ہے تو مجھے سینٹ جان کا مصرعہ یاد آتا ہے: ?but the man is in question تو سارا تناظر ہی تبدیل ہو جاتا ہے۔ لوگ کیوں بھاگ بھاگ کر صوفی شعراء کی طرف جاتے ہیں؟ بھٹائی اور بلھے شاہ کو کیوں پڑھتے ہیں؟ کیوں وہ کہتے ہیں: محبت کرو، محبت کرو، سب بکواس ہے؟ اب اس کی کتنی جہتیں ہیں؟ راز یہ ہے کہ ’میری بکل دے وچ چور‘ اپنے اندر دیکھو۔ جب ہم نے یہ سب محسوس کیا تو اپنے اندر دیکھا، کیوں کہ ترقی پسند یک جہتے تھے۔ انہوں نے روح کا عنصر بالکل ہی غائب کر دیا۔ ان کے لیے انسان صرف ایک سطح پر زندہ رہتا ہے۔ فرائڈ نے کہا کہ سیکس کی سطح پر زندہ رہتا ہے اور باقیوں سے یہ اخذ کر لیا گیا کہ انسان معدے کی سطح پر زندہ رہتا ہے۔ میں نے کہانی کے معنی اپنے لیے اس طرح متعین کیے ہیں، مجھے دوسروں کا نہیں پتہ، لیکن میرا وژن خورد بینی ہے۔ تفصیل میں دیکھا جائے۔ یہ پینورامک ویو نہیں ہے۔
سوال: لیکن میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ استعارے کی کہانیوں کی ایک سطح اور انداز وہ ہے جو افتخار جالب صاحب نے بتایا لیکن ساری کہانیاں وہ نہیں ہیں بہت سی کہانیوں میں ذاتی علامتیں استعمال ہوئی ہیں اور وہ کئی جہتوں کو سامنے لاتی ہیں اور پھر اس کی ایک زیادہ میچور شکل ’خوشیوں کا باغ‘ میں سامنے آتی ہے۔ تو کبھی اس پر آپ کی افتخار جالب سے بات ہوئی کہ یہ تو کہانیوں کا ایک رخ ہے؟
انور سجاد: نہیں، جالب سے اور ناگی سےمیرا جذباتی تعلق ہے۔ کیوں کہ مجھے ماڈرن لٹریچر اور ساری خرافات میں ڈالنے والے تو یہ دو ہیں۔
سوال: خرافات؟
انور سجاد: اور کیا اب پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو یہ سوچتا ہوں یہ سب کیا ہے۔ اچھا تھا گھر بیٹھتا آرام سے پیسے کماتا۔ کیوں کہ اس کا فائدہ نہیں ہے۔ مجھے بتاؤ کسی نے اس سے کیا حاصل کیا ہے؟ سوائے اس کے کہ ایک نسل تھی میرے بعد کی، اس کے بعد کیا ہوا۔ انیس سو اسّی کےبعد کیا ہوا؟ سارے لوگ کہہ رہے ہیں کہانی واپس آ گئی، کہانی واپس آگئی۔ انڈیا میں بھی یہی ہے۔ میں وہاں کے سارے میگزین اور تنقید پڑھتا ہوں۔ مذاق میں شمش الرحمٰن فاروقی نے کہا: میں نے پوچھا: پرچہ کیوں بند کر رہے ہو؟ اس نے کہا: تم لکھتے ہی نہیں ہو۔ میں نے کہا کہ میں تو بیس سال سے نہیں لکھ رہا تو آپ تو پرچہ آج بند کر رہے ہو۔ یہ الگ بات ہے لیکن وہ میرے رہنما تھے۔ افتخار جالب، انیس ناگی سب نے میری رہنمائی کی۔ کہانی لکھ کر میں انہیں سناتا تھا اور وہ اس کا قیمہ بنا دیتے تھے۔ یہی دو آدمی لٹریچر میں میرا ذاتی سرکل تھے۔
سوال: تو خود ناگی صاحب کیا کرنا چاہ رہے تھے جب کہ ان کی شروعات کچھ اور تھیں؟
انور سجاد: ناگی صاحب کا مسئلہ میری سمجھ میں نہیں آیا۔ وہ تھوڑے سے کئرلیس careless ہیں اپنے فکشن کے بارے میں۔ میرے خیال میں غالباً ان کا رول ماڈل کامیو ہے۔
سوال: کیا واقعی آپ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا رول ماڈل کامیو ہے اور کوئی اور نہیں ہے؟ کیونکہ کامیو کا سارا کام سامنے رکھیں تو اس کا اگر کوئی میجر کام ہے تو وہ ’دی فال‘ ہے۔وہ اس طرف تو نہیں گئے۔ ’پلیگ‘ پر تو کامیو ختم نہیں ہوتا۔ اور پلیگ تو استعارے والے مسائل میں ہے۔ لیکن فال انتہائی اہم ہے۔؟
انور سجاد: میں تم سے متفق ہوں۔ اور رائٹر ایک جگہ تو کھڑا نہیں رہتا۔ اور فال غالباً ان کا آخری ناول ہے۔ باقی کچھ چیزیں جو بعد میں شائع ہوئیں تو وہ ان کی وہ چیزیں تھیں جو غیر مطبوعہ تھیں لیکن بعد کی نہیں تھیں۔ مجھے یہی دکھ ہوتا ہے کہ انیس ناگی بھی اور افتخار جالب بھی، انہوں نے اپنے کام کو نامکمل چھوڑ دیا۔ مجھے نہیں پتا کیوں؟
سوال: اب ہم آتے ہیں استعارے کے اور ’خوشیوں کا باغ‘ کی طرف آتے ہیں۔ یعنی مصوری، فکشن اور زبان کو اکٹھا کرنے کی کوشش۔ تو مصوری آپ نے کب شروع کی؟
انور سجاد: مصوری، انیس سو پچاس میں۔ آرٹس کونسل آف پاکستان میں ایک چھوٹا سا گروپ تھا۔ قطب بی شیخ آئے تھے جے جے سکول آف آرٹ سے، پھر معین نجمی تھے ان کے ساتھ وہاں جو پڑھاتے تھے۔ تو میو سکول آف آرٹ میں میری گنجائش نہیں تھی، تو میں انور جلال شمزا کے ساتھ چلا جایا کرتا تھا جہاں وہ سکلپچر کرتے تھے۔ تو مجھے انسپائر تو ان دونوں ہی نے کیا قطب صاحب نے اور نجمی صاحب نے۔ اگر لوگ میری حوصلہ افزائی نہ کرتے تو میں بہت سا کام نہیں کرتا۔ گرمیوں میں سارے ادیب مری جایا کرتے تھے، وقار عظیم صاحب سے وزیرآغا تک، تو میں بھی جاتا تھا۔ اس زمانے میں مری کی لٹریری یونین ہوتی تھی تو ہم وہاں بھی پڑھتے تھے۔ خوب تنقید ہوتی تھی۔ اسی زمانے میں انتہائی کنفیوز ہو رہا تھا تو وزیر آغا صاحب نے میری انتہائی حوصلہ افزائی کی۔ یہ افتخار اور انیس سے پہلے کی بات ہے کیونکہ ان سے میری ملاقات ہوئی ساٹھ میں جا کر۔ اصل میں تو میری گرومنگ وقار عظیم صاحب اور وزیر آغا نے کی اور جسٹس میاں بشیر احمد جن کا ’ہمایوں‘ رسالہ تھا تو پچاس سے ساٹھ تک میں بہت مصوری کی اور بہت نمائشیں بھی کیں۔ لیکن میریimmediacy یا فوریت کی ضرورت تھی۔ جس قدر بھی کوشش کرتا تھا لفظ میرے اس اظہار کو نہیں پہنچتے تھے، بعض اوقات وہ مجھے ناکام بھی کر دیتے تھے۔ اس لیے میری اس ضرورت کو رنگ پوری کر دیتے تھے۔ اس میں بھی سب سے پہلے میں نے ڈرائنگ کو ماسٹر کیا۔
سوال: ابھی آپ نے کہا تھا کہ آپ نے انتظار حسین صاحب سے بھی بہت کچھ سیکھا ہے تو آپ اپنے لیے انتظار حسین کی کہانی کو کیسے ڈیفائین کریں گے؟ اور آپ کو ان کا بنیادی قضیہ کیا محسوس ہوتا ہے؟
انور سجاد: ان کے نظریاتی معاملات سے قطع نظر، ان کے پاس کہانی کہنے کی ایک فطری مہارت ہے۔ جو بھی انداز ہے ان کا۔ ان کا بیانیہ بہت اچھا ہے اور ان کا بنیادی قضیہ نوسٹیلجیا ہی ہے مختلف حوالوں سے ایک ہی بات کہہ رہے ہیں وہ۔ اس لیے میں نے ’بستی‘ کے بعد ان سے کہا تھا کہ اب آپ لکھنا چھوڑ دیجیے۔ میں نے تو چھوڑ ہی دیا ہے لیکن میں اس لیے نہیں کہہ رہا کہ میں اب لکھ نہیں رہا لیکن میں نے انہیں اس لیے کہا تھا کہ مجھے لگ رہا تھا کہ اب وہ صرف خود کو دہرائیں گے اور ان کے خزانے میں اب کچھ نہیں رہا۔ میں نے ان کے ناول بستی پر مضمون لکھتے ہوئے کہا تھا کہ وہ لاکھ ماڈرن ہو جائیں لیکن ان کی اور ان کی نسل کی مشکل یہ ہے کہ وہ اپنے بنیادی فریم آف ریفرنس کو نہیں چھوڑ سکتے اور وہ فریم کلاسیکل ہے اور وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ تجربے سے ڈرتے ہیں۔
سوال: جب آپ یہ کہتے ہیں کہ یہ کلاسیکی ہے اور یہ ماڈرن ہے تو آپ کے ذہن میں کیا امتیاز ہوتا ہے، کلاسیکی اور ماڈرن کے درمیان؟
انور سجاد: بہت سیدھی، کیا چیز کلاسیکی کو کلاسیکی بناتی ہے: اچھا بیانیہ، پلاٹ کی اچھی بُنت، لکھنے کا موثر انداز۔ اب اس کے آپ کیا طریقہ اختیار کرتے ہیں یہ ایک الگ بات ہے۔ اس لیے انتظار کہ سارے افسانے چاہے وہ کسی بھی ذریعے پر بنیاد کر رہے ہوں ایسے لگتا ہے کہ وہ ایک ہی بات کہہ رہے ہیں۔
سوال: اس سے الگ میں آپ سے یہ پوچھنا چاہ رہا ہوں کہ آپ کے تصور انسان میں اور انتظار حسین صاحب کے تصورِ انسان میں کیا فرق ہے؟
انور سجاد: میرا انسان تو لڑنے والا انسان ہے۔ اس کا مسئلہ ہے سروائیو کیسے کرے یا زندہ کیسے رہے جب کہ انتظار حسین کا انسان مطیع ہے۔ انتظار تو ماتم کے بہانے ڈھونڈتے ہیں۔میرا انسان سمجھتا ہے کہ اس کی تقدیر اس کے ہاتھ میں ہے اور اگر نہیں ہے تو اسے یہ اختیار حاصل کرنا ہے جب کہ انتظار صاحب کا انسان مکمل طور پر طابع ہے۔
سوال: تو یہی بات منٹو صاحب کے ہاں بھی ہے ان کے ہاں انسان ہر بات کو تقدیر کا لکھا ہوا سمجھ کر قبول نہیں کرتا اور اپنے آپ کو تلاش کر کے اس پر اصرار کرتا ہے؟
انور سجاد: بالکل۔ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ انسان کی ایک پیدائشی خصوصیت ہے کہ وہ اپنا اثبات چاہتا ہے ورنہ غاروں کے انسان کو تصویر بنانے کی کیا ضرورت تھی ان تصویروں کو جادو کے معنی تو بعد میں دیے گئے لیکن وہ کوشش تو اظہار کی تھی۔ اس کے ذہن میں جادو نہیں تھا اس نے ایک امیج کے ذریعے اپنی واردات بنائی۔ ان لکیروں کے ذریعے وہ یہی کہہ رہا تھا کہ کائنات میں میں بھی ہوں۔ تمام فنون کے ذریعے انسان کیا کر رہا ہے اپنا اثبات ہی تو چاہ رہا ہے اور اسی لیے عناصر کے خلاف لڑتا ہے ایک دوسرے کے خلاف لڑتا ہے۔ اپنے مفاد بنا لیتا ہے۔
سوال تو کیا اس کا اطلاق بیدی صاحب پر بھی ہوتا ہے؟
انور سجاد: ان کا معاملہ مختلف ہے۔ وہ انسانی محسوسات کو زیادہ بیان کرتے ہیں۔ اور ان کے ہاں ورائٹی زیادہ ہے اور یہ ہونا بھی چاہیے۔ مجھ پر بھی مایوسی کے دور آتے ہیں اور میں یہ مانتا ہوں کہ ہر وقت انسان مثبت ہی نہیں رہ سکتا۔ اگر میں غلطی پر نہیں تو اس کی مثال میری کہانی ’پرومیتھیس‘ ہے۔ دوسری مثال ہے ’سنڈریلا‘۔
سوال: اس حوالے سے آپ اپنی کہانی ’دوب ہوا اور لنجا‘ کے بارے میں کیا کہیں گے؟
انور سجاد: اس میں ایک مِتھ بنانے کی کوشش ہے، انسان کی آزاد روح کے حوالے سے۔ آخر اندر ایک ترقی پسند بھی تو بیٹھا ہوا ہے نہ، جو نئی سحر کا انتظار کرتا ہے۔
سوال: لیکن اس کے بعد آپ اپنے ناول ’خوشیوکا باغ‘ کی طرف چلے گئے۔ اس میں جو پوری ایک الگ دنیا ہے اور جن لوگوں نے بوش کی مصوری دیکھی ہے ان کو یہ صاف محسوس ہوگا کہ آپ بھی اس کی طرح ایک دنیا بنا رہے ہیں؟
انور سجاد: میں اس سلسلے میں تمہیں ایک دلچسپ بات بتاتا ہوں۔ یہ ساری شرارت صلاح الدین محمود مرحوم کی تھی۔ جن دنوں وہ ’سویرا‘ کے ایڈیٹر تھے، انہوں نے ایک دن مجھ سے کہا انور ایک تجربہ نہیں کرتے۔ میں نے کہا: کہیں۔ کہنے لگے: بوش دیکھا ہے؟ میں نے کہا: دیکھا ہے۔ انہوں نے پوچھا: کیا کبھی انسپریشن محسوس نہیں کرتے؟ تمہیں یاد ہو گا کہ کیسے نرم انداز میں باتیں کرتے تھے۔ میں نے انہیں کہا: بہت انسپائر محسوس کرتا ہوں لیکن سمجھ میں نہیں آتا کہ کروں کیا۔ کہنے لگے: ایک کام کیجیے ان کا جو پہلا پینل ہے اسے ڈسکرائب کر دیجیے۔ یقین کرنا کہ جب میں نے اسے شروع کیا تو وہ تو ایک کہانی کی شکل اختیار کر گیا۔ اس دوران ہی بھٹو صاحب کے ساتھ ظلم ہو گیا تو میں ایک عجیب فرینزی میں تھا اور اسی رو میں چار ساڑھے چار سو صفحے لکھ گیا۔ جب انہیں دوبارہ دیکھا اور کاٹ چھانٹ کی، پیرے الگ الگ کیے، تو یہ فارم نکلی۔ تو شعوری کاوش یہ صرف اس طور پر ہے۔ لیکن یہ غیب سے مضامین آنے والی بات نہیں ہے۔ اصل میں ضیاالحق کے زمانے میں مذہبیت وہی شکل اختیار کر رہی تھی جو بوش کے زمانے میں بنی تھی۔ اس کہ ہاں جنسی سزا ہے وہ میرے ہاں سیاسی سزا ہے لیکن ضروری نہیں ہے کہ اس کے لیے پڑھنے والے کو بوش کا پتہ بھی ہو۔ ناول تو اپنی جگہ پر ہے۔ اور یہ ایک ناول لکھنے کوشش تھی یوں بھی میں عظیم وغیرہ کے چکر میں نہیں ہوں اور نہیں سمجھتا کہ مجھ سے کوئی عظیم ناول سرزد ہو سکتا ہے۔ اس سلسلے میں مہدی جعفر نے اچھی بات کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے لکھنے والا ایک مسلسل کھنچاؤ میں ہے اور اس میں تھوڑی بہت کامک ریلیف ہونی چاہیے۔ تو میں نہ انہیں جواب میں لکھا تھا کہ ٹیگور سے کسی انگریز نے پوچھا تھا کہ ہندوستان میں تو اتنے رنگ ہوتے ہیں دھوپ ہوتی ہے۔ تو اس کے جواب میں ٹیگور نے کہا تھا کہ جو سیاہی آپ نے بکھیری ہے مجھے تو وہی نظر آتی ہے۔ تو میرا بھی مسئلہ یہ ہے کہ میں اس کامیکل کیا لکھوں۔ مجھے اس صورتِ حال میں کہیں مزاح نظر نہیں آتا۔
سوال: فکشن، اداکاری، ڈرامہ نویسی اور مصوری یہ سب کس لیے اور یہ سب کرنے کے بعد اب آپ کو کیا لگتا ہے کہ انور سجاد کتنا اظہار پاسکا ہے اور کتنا ابھی اظہار پانے کے انتظار میں ہے؟
انور سجاد: اس میں انتہائی بیزار کن بات یہ ہے کہ کسی چیز کی کوئی قدر نہیں ہے۔ کسی اور معنی میں نہیں صرف ان معنوں میں کہ آپ نے اپنے بعد آنے والوں کو اپنے کام سے کتنا قائل کیا ہے کہ یہ بھی ایک طریقہ ہے سوچنے کا۔ تو تم لوگوں کی جنریشن کو ہی اس بات نے ناکام نہیں کیا مجھے تو دوہرا ناکام کیا ہے کیونکہ میں تم لوگوں سے ایک نسل پیچھے ہوں اور خود کو دوہرا مسترد محسوس کرتا ہوں۔
سوال: اب انور سجاد سے کس بات کی توقع کی جائے؟
انور سجاد: آرام کی: یعنی رات بہت تھے جاگے، صبح ہوئی آرام کیا۔
نوٹ:یہ انٹرویو انورسن رائے صاحب کی فیس بک وال سے شکریہ کے ساتھ کاپی کیا گیا ہے

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply