اختری۔۔۔۔نادیہ عنبر لودھی/افسانہ

اختری نے گھر کا کام ختم کیا اور سفید تکیہ پوش پر رنگ برنگے چھوٹے چھوٹے پھول کاڑ ھنے لگی – اس کے ہاتھ تیزی سے چل رہے تھے ۔ اسے یہ کام جلدی مکمل کرنا تھا  – اختری یتیم تھی اس کا بچپن بہت کسمپرسی کے عالم میں گزرا تھا -باپ اس کی پیدائش کے چند ماہ بعد ہی چل بسا تھا۔ ایک بڑ ی بہن تھی اور ایک ماں -ماں محنت مزدوری کر کے ان دونوں بہنوں کو  پال رہی تھی -اکثر گھر میں کھانے کے لیے صرف روٹی ہوتی جب وہ ماں سے پوچھتی اماں !روٹی کس کے ساتھ کھائیں ؟

ماں جواب دیتی :منہ کے ساتھ ۔۔

جیسے تیسے کرکے اس کا بچپن گزر گیا -وہ بھی ماں کا ہاتھ بٹانے کو سلائی کڑھائی کرنے لگی -لیکن یہ چادر اور تکیے اس کے جہیز کے تھے۔ ان پر لگے ہر ٹانکے میں اس کے ارمان پروئے ہوۓ تھے ۔ ان کے رنگوں میں اس کے خواب سجے تھے ۔کنواری آنکھوں میں سجے ایک شہزادے کے خواب – جس کا ساتھ اس کی زندگی کو دل کش بنادے گا۔

اس کا تعلق مشترکہ ہندوستان کے گاؤں گورداسپور سے تھا -یہ جنوری1947 کا زمانہ تھا – جنگ آزادی کی شدت میں اضافہ ہوتا جارہا تھا -اکثر گلی میں سے گزرتے جلوسوں کے نعرے سنتی اختری مستقبل کے اندیشوں سے لاعلم تھی -اس کی عمر 14 سال تھی -اس نے ہوش سنبھالنے کے بعد صرف گھر کی چار دیواری دیکھی تھی -سیاست کی موجودہ صورت حال سے وہ بے خبر تھی -کبھی اماں سے پوچھتی کہ جلوس کیوں نکلتے ہیں تو وہ جواب دیتی ،یہ لوگ انگریز سرکار سے آزادی مانگتے ہیں –

آزادی کیا ہوتی ہے یہ سوال اس کے لیے عجیب تھا کیونکہ وہ ان پڑھ تھی ،قرآن اور نماز کی تعلیم ماں نے دی تھی اس کے نزدیک دین کا علم ہی کُل علم تھا -دنیاوی علم سے وہ بے بہرہ تھی ،دو ماہ بعد اس کی شادی طے تھی –

شادی کا دن آپہنچا،ماں نے اپنی حیثیت کے مطابق اسے چار چیزیں دے کر   رخصت کردیا ، سسرال میں ساس ،شوہر اور دیور تھے -نئی نئی شادی میں دہکتے جاگتے ارمانوں کا ایک جہان آباد تھا -یہ دنیا اتنی خوبصورت تھی کہ وہ ماضی کی سب محرومیاں بھول گئی -اس کا شریک ِحیات اس کے مقابلے میں بہت بہتر تھا پڑ ھا لکھا اور وجیہہ،اس کا شوہر سرکاری ملازم تھا۔وہ ایف۔اے پاس تھا او ر محکمہ ڈاک میں کلرک تھا ،خوابوں کے ہنڈولے میں جھولتے چند ماہ لمحوں کی طرح   گزر گئے ، ملک میں فسادات پھوٹ پڑے ،حالات دن بدن خراب ہوتے جارہے تھے ،ان کے سارے خاندان نے ہجرت کی ٹھانی ،ضرورت کے چند کپڑے گھٹڑیوں میں باندھے ،وہ جہیز جو اس نے بہت چاؤ سے بنایا تھا حسرت بھری نظر اس پر ڈالی اور رات کی تاریکی میں سسرال والوں کے ساتھ گلی کی طرف قدم بڑ ھا دیے ،وہ لوگ چھپتے چھپاتے شہر سے باہر جانے والی سڑک کی طرف بڑ ھنے لگے ، دبے پاؤں چلتے چلتے وہ شہر سے باہر نکلے ،آبادی ختم ہوگئی تو قدموں کی رفتار بھی تیز ہو گئی،درختوں کی  اوٹ میں ایک قافلہ ان کا منتظر تھا ، جس میں زیادہ تر خاندان ان کی برادری کے تھے ،قافلے چلنے میں ابھی وقت تھا کیونکہ کچھ اور خاندانوں کا انتظار  تھا ۔۔

اس کی ماں اور بہن پہلے ہی پہنچ چکی تھیں، اگست کا مہینہ  اور  ساون کا موسم تھا، گزشتہ رات ہونے والی بارش کی وجہ سے میدانی علاقہ کیچڑ زدہ تھا -اسی گرمی ، حبس اور کیچٹر میں سب لوگ ڈرے سہمے کھڑ ے تھے -گھٹڑیاں  سروں پہ رکھی ہوئی تھیں اتنے میں گھوڑوں کی ٹاپوں کی آواز سنائی دینے لگی -اللہ خیر کرے ۔۔۔قافلے والوں کی زبان سے پھسلا ،چشم زدن میں گھڑ سوار قافلے والوں کے سروں پر تھے ، ان کے ہاتھوں میں کرپانیں اور سروں پر پگڑیاں تھیں ،یہ سکھ حملہ آور تھے ،کاٹ دو ان مُسلوں کو کوئی نہ بچے ۔۔۔۔صدا بلند ہوئی ،لہو کا بازار گرم ہوگیا ،مسلمان کٹ کے گرنے لگے ان کے پاس نہ تو ہتھیار تھے نہ ہی گھوڑے ، جان بچا کے جس طرف بھاگتے کوئی گھڑ سوار گھوڑے کو ایڑ ھ لگاتا اور سر پہ  آپہنچتا ۔

اختری کا شوہر اور دیور بھی مارے گئے ۔چند عورتیں رہ گئیں  ،باقی سب شہید کردیے گئے   ، ان عورتوں کو گھڑ سواروں نے اپنے اپنے گھوڑوں پہ لادا اور رات کی تاریکی میں گم ہوگئے ،شوہر کو گرتا دیکھ کے اختری ہوش وحواس  کھو بیٹھی   ،رات گزر گئی ،دن کا اجالا نکلا، گرمی کی شدت سے اختری کو ہوش آیا تو چاروں طرف لاشیں بکھری پڑی تھیں اور وہ اکیلی زندہ تھی -اختری نے واپسی کے راستے کی طرف جانے کا سوچا اور شہر کی طرف چل پڑی ،وہ ہندوؤں اور سکھوں سے چھپتی چھپاتی اپنے گھر کی طرف جانے لگی – گلی سے اندر داخل ہوئی تو گھر سے دھواں نکلتے دیکھا ،دشمنو  ں نے  گھر کو لُوٹ کے بقیہ سامان جلایا تھا، نہ مکین رہے نہ گھر – وہ اندر داخل ہوئی اور ایک کونے میں لیٹ گئی ، گزرا وقت آنکھوں کے سامنے پھرنے لگا اس کی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے ،وقت نے کھل کے رونے بھی نہ دیا ،زندگی کیا سے کیا ہوگئی ۔۔انہی سوچوں میں غلطاں تھی کہ قدموں کی چاپ سنائی دی ،آج یہاں جشن مناتے ہیں ، تین ہندو ہاتھ میں شراب کی بوتل لیے گھر میں داخل ہوۓ ۔۔۔ اختری نے ارد گرد نظر دوڑائی اپنی حفاظت کے لیے کوئی چیز نظر نہ آئی ،وہ برآمدے میں بیٹھ گئے اور شراب پینے لگے، اختری اندر کمرے کے دروازے کی درز سے انہیں دیکھنے لگی،ان میں سے ایک اٹھا اور بولا ،تھک گیا ہوں آرام کرلوں ۔وہ اختری والے کمرے کی طرف بڑ ھا اختری پیچھے ہٹی اور کسی برتن سے جا ٹکرائی۔۔۔ اندر جانے والے نے چاقو نکال لیا ، شور کی آواز سے باقی دونوں بھی اٹھ کھڑے ہوئے ،کوئی ہے ۔۔۔یہاں کوئی ہے۔۔

لڑکی ہے ،پہلے والا بولا

باقی دو کے منہ سے نکلا ۔۔۔ لڑ کی

پہلے والا ہاتھ   میں چاقو لے کر اختری کی سمت بڑ ھا ،اختری پیچھے ہٹتے ہٹتے دیوار سے جا لگی ،باقی دو بھی پہنچ گئے، ایک نے چھپٹا مار کے اختری کو پکڑ نے کی کوشش کی ۔اختری نے چاقو والے سے چاقو چھینا اور  میں اپنے پیٹ میں  گھونپ  لیا ۔خون کا فوارہ ابل پڑا ،اختری نیچے بیٹھتی گئ،ی فرش پہ خون پھیلنے لگا اور اس کی گردن ڈھلک گئی۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

مر گئی سالی،اُن میں سے ایک کے منہ سےنکلا –

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply