پارلیمنٹ کیوں اہم ہے؟۔۔نجم ولی خان

یہ پارلیمنٹ کیا ہے جس پر خود اس کے ارکان لعنت بھیج دیتے ہیں، کہتے ہیں کہ وہ ایک مرتبہ نہیں بلکہ ہزارمرتبہ لعنت بھیجتے ہیں۔ میں نے سوشل کے ساتھ ساتھ الیکٹرانک میڈیا پر بھی ایسے لوگوں کو بارہا سنا ہے جو پارلیمنٹ کی توہین کرتے ہیں، اسے گالی دیتے ہیں، اِس کے اِن ارکان کو کرپٹ ، مفاد پرست اور ظالم قرار دیتے ہیں جنہیں ہزاروں نہیں بلکہ ہر حلقے سے لاکھوں منتخب کر کے بھیجتے ہیں۔ میں نے سیانے اور مہذب لوگوں سے سنا کہ پارلیمان تو تمام اداروں کی ماں ہے مگر ہمارے کچھ ادارے آئین کی مقدس چادر میں اپنا بدن لپیٹے ہوئے ہیں مگر ان کی ماں کو گالیاں دی جا رہی ہے، جن کی ذمہ داری آئین کی حفاظت اور قانون کی تشریح ہے۔ انہوں نے فرمایا ہے کہ پارلیمنٹ سب سے محترم ادارہ ہے مگر اس کے ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ اس سے بھی محترم آئین ہے۔ میں سوچ رہا ہوں کہ آئین کسی صحیفے کی طرح آسمان سے نازل نہیں ہوتا، یہ ہر ریاست میں پارلیمان سے جنم لیتا ہے، پارلیمان تو آئین کی بھی ماں ہے،یہاں بیٹا مقدس اور محترم ٹھہرا اور ماں آوارہ، بے آبرو ۔

کچھ باتیں سطحی ذہن رکھنے والوں کی دانشوری میں غلط العام ہوجاتی ہیں جیسے اس سوال کاجواب کہ کسی بھی ملک کو متحد رکھنے والا ادارہ کون سا ہے۔ ہم اپنی مسلح افواج کی قدر کرتے ہیں، ہم سوچ بھی نہیں سکتے کہ ہماری مسلح افواج کمزور ہوں کہ اس کے نتیجے میں ہمارا ہمسایہ ہمیں کسی بھوکے بھیڑئیے کی طرح نوچ لے ۔ پاکستان کا بیرونی خطرات سے تحفظ بہرصورت پاکستان کی مسلح افواج کی ذمہ داری ہے مگر پاکستان کا اندرونی استحکام کسی طور نہیں۔یہ میری فوج کی ذمہ داری اس لئے نہیں ہے کہ میں چاہے جو بھی سیاسی نظریہ رکھوں، یہ فوج میری ہونی چاہئے لیکن اگر سیاسی نظرئیے کے اختلاف پر میں فوج کا مخالف یا فوج میری مخالف ہوجاتی ہے تو یہ درست اور مناسب عمل نہیں ہے، ہاں یہ ضرور ہے کہ میرا سیاسی نظریہ پاکستان کی نفی میں نہیں ہونا چاہئے۔ مجھے کہنے دیجئے کہ جیسے ہی ایک طاقتور فوج ملک کے اندرونی معاملات میں دخل دے گی، قوم میں عدم توازن اورعدم استحکام پیدا ہونا شروع ہوجائے گا۔

پاکستان کو متحد رکھنا عدلیہ کی ذمہ داری بھی نہیں ہے کہ اس کی ذمہ داریوں میں آئین اور قانون کے مطابق انصاف کرنا ہے اور یہ کام براہ راست بیورو کریسی کا بھی نہیں ہے اوراس کے باوجود نہیں ہے کہ ملک کے ڈھیر سارے چھوٹے بڑے اداروں کو چلانا انہی کے ہاتھ ہے کہ ان اداروں میں بیٹھے ہووں کابنیادی کام آئین اور قانون کے مطابق اپنی ذمہ داریاں سرانجام دینا ہے۔ آپ بالواسطہ تشریحات میں ضرور بات کو بڑھا سکتے ہیں مگر براہ راست کبھی اور کہیں بھی ریاست کا اتحاد برقراررکھنا ان کی ذمہ داری نہیں ہے۔کیا ایسے میں آپ کے ذہن میں سوال نہیں اٹھتا کہ علم سیاسیاست جو جدید ریاستوں میں بہت ترقی پا چکا ہے وہ یہ اہم ترین ذمہ داری کس ادارے کو دیتا ہے۔ اس سوا ل کا واضح جواب ہم اپنی تاریخ سے بھی پا سکتے ہیں کہ وہ کون سا ادارہ تھا جس کی کمزوری نے پاکستان کو دولخت کیا۔آپ کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان کی فوج کمزور نہ ہوتی تو اسے بھارتی فوج کے سامنے ہتھیار نہ ڈالنے پڑتے مگر یہ تو بات کا چہرہ ہے اور اس چہرے کے پیچھے ہماری تاریخ کے بدترین سانحے کا پورا بدن ہے، اگرپارلیمنٹ میں مشرقی پاکستان کے مینڈیٹ کو تسلیم کر لیا جاتا، اس وقت اگر مشرقی اور مغربی حصوں میں ا پنی اپنی حکومتوں کی بات نہ کی جاتی جس پر عباس اطہر مرحوم نے ادھر ہم ادھر تم کی سرخی لگا دی تھی تو ہماری فوج کبھی کمزور نہ ہوتی، مان لیجئے کہ پارلیمان کو کمزور کیا گیا تو ہماری فوج کمزور ہو گئی۔

علم سیاسیاست جدید ہو یاقدیم، ہر نصاب میں ریاست کے اتحاد کی ذمہ داری عوام کے منتخب نمائندوں پر ہی ملتی ہے۔ پارلیمنٹ ریاست کا واحد ادارہ ہوتی ہے جو جہاں عوام کی بطور فرد اور شہری نمائندگی ہوتی ہے۔ کسی بھی ریاست کا کوئی بھی دوسرا ادارہ اس کا دعویٰ نہیں کر سکتا کہ وہ عوامی مفادات کا محافظ اور پاسبان ہے کہ ان اداروں کے مقاصد میں یہ شامل ہی نہیں ہے۔پارلیمنٹ واحد ادارہ ہے جس کی تشکیل میں ہی یہ با ت شامل کر دی گئی ہے۔ عوامی مفادات کی تکمیل اسی صورت کی جا سکتی ہے اگر آپ عوام کو جواب دہ ہوں۔ پارلیمنٹ کے علاوہ کسی بھی دوسرے ادارے کے ارکان عوام کو براہ راست جوابدہ نہیں ہیں بلکہ بہت سارے ادارے جو بہت مقدس سمجھتے جاتے ہیں وہ بہت ساری جگہوں پر بالواسطہ جوابدہی سے بھی مبرا ہیں۔ کوئی ان سے سوال نہیں کر سکتا اور وہ خود اپنے آپ کو ہی جوابدہ ہیں۔ پارلیمنٹ واحد ادارہ ہے جو اپنی تشکیل کے لئے عوام سے رجوع کرتا ہے اور ایک بار نہیں بلکہ بار بار کرتا ہے۔ یہ وہ مجبوری ہے جو اسے عوام کی حقیقی ترجمانی اور ان کے مفادات کی پاسبانی پر مجبور کرتی ہے جبکہ دوسری طرف دلچسپ امر یہ ہے کہ ہمارے کچھ نام نہاد دانشور اسی ادارے کو عوام اور ریاست کا دشمن قرار دیتے ہیں حالانکہ ریاست کے وجود کا ضامن یہی ادارہ ہوتاہے، ایک بات دوبارہ ذہن نشین کر لیجئے کہ باقی تمام ادارے اسی ادارے کی فہم و فراست سے وجود اور اختیارات حاصل کرتے ہیں اور اگراسی ادارے کی نفی کر دی جائے تو سب کی نفی ہوجاتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

دوسری بہت ساری ریاستوں کی طرح پاکستان بھی ایک وفاق ہے جس میں ایک سے زیادہ تہذیبیں، زبانیں اور نسلیں موجود ہیں۔ میں نے بوجوہ یہاں لفظ قومیں استعمال نہیں کیا کیونکہ ان تمام مختلف نظر آنے والوں کو ایک قوم پاکستان کا نظریہ بناتا ہے جو اسلام ہے اور اگر آپ اسے کسی قسم کی توہین نہ سمجھیں تو پاکستان ان کا بھی ہے جن کا مذہب اسلام نہیں ہے۔ انہیں آپس میں معاملات طے کرنے کے لئے ایک ہی پلیٹ فارم میسرہے جو پارلیمنٹ ہے۔ سندھی، بلوچ، پنجابی ، پختون اور کشمیری اسی پارلیمنٹ میں ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھتے اور اپنے اپنے علاقوں اورلوگوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ جب پارلیمنٹ کی صورت میں موجود اس اہم ترین لڑی کو کمزور کیا جاتا ہے، اسے توڑا جاتا ہے تو اصل میں اس قوم کے اتحاد اور یکجان ہونے کو توڑا جاتا ہے۔ جب پارلیمنٹ کو گالی دی جاتی ہے تو حقیقت میں ریاست کے اتحاد اور اس کے پیچھے قوم کو گالی دی جاتی ہے۔ مجھے اس سوال کا جواب بھی دینا ہے کہ اگر یہ بات درست ہے تو پھر پارلیمنٹ کو گالی کیوں دی جاتی ہے۔ میں آپ کو سڑکوں پر نظر آ نے والے ان ذہنی مریضوں کا حوالہ دوں گا جو محض دوسروں کی توجہ حاصل کرنے کے لئے اپنے آپ کو گالی دیتے ہیں۔ وہ اپنے منہ پر تھپڑ مارتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں کہ ان کا چہرہ لال ہو گیا ہے۔

Facebook Comments

نجم ولی خان
ڈائریکٹر جنرل پاکستان ریلوے،کالمسٹ،اینکر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply