سپریم کورٹ کا خوش آئند اشارہ : ریحان خان

سپریم کورٹ کا خوش آئند اشارہ

عمومی طور پر کہا جاتا ہے کہ انصاف میں تاخیر بھی ناانصافی کے برابر ہوتی ہےلیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا جاتا ہے کہ خدا کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔۔۔ کچھ خاص کیفیات میں یہ دونوں لازوال مقولے باہم متصادم ہوتے ہیں لیکن ان میں سے ہر دو کی حقانیت پر حرف نہیں آتا۔
پرسوں سپریم کورٹ نے اشارہ دیا ہے کہ بابری مسجد کے مجرمین کے خلاف از سر نو مقدمہ چلایا جاسکتا ہے۔۔ اس معاملے میں انصاف کی موہوم سی امید پر یہ مقولہ صادق آتا ہے کہ خدا کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔ بابری مسجد کی شہادت آزاد ہندوستان کا ایک سیاہ باب ہےاوراس کے کلیدی مجرم لال کرشن اڈوانی جب پاکستان میں محمد علی جناح کے مزار پر حاضری لگانے کے بعد میڈیا سے مخاطب ہوئے تو انہوں نے خود اقرار کیا تھا کہ بابری مسجد کی شہادت ان کی زندگی کا سیاہ ترین دن تھا۔اس کا اعتراف جسٹس سری کرشنا کی ممبئی فسادات کی رپورٹ اور دیگر سیکولر غیر مسلموں نے بھی کیا ہے۔
بابری مسجد کے دو مقدمات مختلف عدالتوں میں چل رہے ہیں ایک مقدمہ بابری مسجد کی ملکیت ہے جس میں ہائی کورٹ کے آستھا پر مبنی مجہول فیصلہ سنایا جاچکا ہے پھر اسے سپریم کورٹ میں لایا گیا اور اب وہ زیرِ التواء ہے۔۔ دوسرا مقدمہ ان افراد کے خلاف ہے جنکی سازشوں سے بابری مسجد دن کے اجالے میں مسمار کر دی گئی۔۔ دوسرا مقدمہ بھی مختلف مراحل سے گزرتا ہوا سپریم کورٹ میں پہنچا تو سپریم کورٹ نے ان مجرموں کے خلاف از سر نو تفتیش کا اشارہ دیا ہےاب دونوں مقدمات دو الگ الگ عدالتوں کی بجائے سپریم کورٹ میں ہی چلائے جانے کے امکانات روشن ہوئے ہیں۔ سپریم کورٹ میں جسٹس چندر گھوش اور جسٹس روہٹن کی خصوصی بنچ سی بی آئی اور محبوب خان کی عرضداشت پر سماعت کرتے ہوئے سنٹرل بیورو انوسٹیگیشن سے سوال کیا کہ جب الٰہ آباد ہائی کورٹ نے مرلی منوہر جوشی، لال کرشن اڈوانی اور اوما بھارتی کے خلاف مجرمانہ سازش رچنے کی چارج شیٹ خارج کہ تھی تو ان کے خلاف عدلیہ میں ضمنی چارج شیٹ کیوں نہیں داخل کی گئی؟
سپریم کورٹ کے مطابق صرف تکنیکی خرابیوں کی بنیاد پر کسی کو بری نہیں کیا جاسکتا۔ساتھ ہی عدالت عظمی نےیہ بھی اعتراض کیا کہ دونوں معاملات کو الگ الگ عدالتوں میں شنوائی کی بجائے ایک ہی عدالت میں کیوں زیر بحث نہیں لایا جاسکتا۔ بابری مسجد معاملہ سیاسی جماعتوں کے لئے سونے کے انڈے دینے والی مرغی کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہر سیاسی جماعت نے اس مسئلےکو جذباتی طور پر استعمال کرتے ہوئے اقتدار تک پہنچنے کی کوشش کی ہے اور ان میں سے بی جے پی کامیاب بھی رہی ہے۔ مرکزی حکومت آئندہ دوسال تک بھارتیہ جنتا پارٹی کی ہی ہے اور اس دوران وہ بابری مسجد کے مقدمے کے دوران ہر ممکن رکاوٹیں پیدا کرنے کی کوشش کرے گی۔
بابری مسجد کی شہادت کے کلیدی مجرموں میں اوما بھارتی کے سوا ہر فرد بھارتیہ جنتا پارٹی میں عضوء معطل کی سی حیثیت رکھتا ہے لہٰذا کچھ عجب نہیں کہ کچھ ریٹائرڈ افراد کی قربانی دے کر پارٹی اور بابری مسجد ایشو کو دوبارہ جوان کرنے کے امکانات روشن کئے جائیں۔
اس کا ایک سبب یہ ہے کہ اب ہندو ووٹرز سے بابری مسجد کے معاملے پر ووٹ حاصل کرنا پہلے جیسا آسان نہیں رہااور بی جے پی کی سیاست کا ایک بڑا حلقہ بابری مسجد معاملے پر انحصار کرتا ہے۔سونے کے ووٹ دینے والے اس مسئلے سے بی جے پی آسانی سے دستبردار ہونا پسند نہیں کرےگی۔۔ بہر حال سپریم کورٹ کے اشارے خوش آئند ہیں۔ بابری مسجد کی شہادت کے مجرموں کے خلاف ازسر نو مقدمہ ملک کی عدلیہ پر عوام کے یقین کو مزید مضبوط کرسکتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

(اداریہ روزنامہ” جنگ جدید “ نئی دہلی )

Facebook Comments

گوشہ ہند
ہند کے اردو دان دوست آپ کیلیے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply