کائنات کی پہلی کہکشاں۔۔محمد شاہزیب صدیقی

ہماری کائنات بھی عجب شے ہے، یہ تو بہت محتاط اندازے کے مطابق ہمیں معلوم ہوچکا ہے کہ بیگ بینگ کو ہوئے 13.8 ارب سال بیت گئے ہیں مگر حیران کن بات یہ ہے کہ شاید ہم کبھی بھی اپنی کائنات کا کنارہ نہ دیکھ پائیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری کائنات روشنی سے تین گنا زیادہ رفتار سے پھیل کر اب تقریباً 93 ارب نوری سالہ رقبے پر محیط ہے۔ لہٰذا اگر کبھی ہم نے بے انتہاء طاقتور دُوربین بنا کر کائنات کے کناروں میں جھانکنے کی کوشش بھی کی تو ہمیں 14 ارب نوری سال سے زیادہ اپنے آس پاس کچھ نہیں دِکھائی دے گا کیونکہ وقت کی گھڑی ہی 14 ارب سال پہلے چلی ،اس سے پہلے نہ وقت تھا نہ زمان و مکاں تھے جبکہ ہم کچھ بھی دیکھنے کے لئے روشنی کے محتاج ہیں اور روشنی کو سفر شروع کیے 14 ارب سال ہوئے ہیں لہٰذا آسمانی پردے پر ہمیں 14 ارب سال سے زیادہ کی انفارمیشن ملنا مشکل ہے۔
سائنسدانوں میں اسی متعلق چہ مگوئیاں جاری تھیں کہ کیا ہمیں کبھی سب سے دُور کوئی کہکشاں مل سکتی ہے؟ یا سب سے دُور جو کہکشاں ملی ہے کیا اس کی کوئی واضح تصویر حاصل کی جاسکتی ہے؟ کیونکہ ہبل ٹیلی سکوپ سے ملنے والی تصاویر میں اتنے دُور دراز علاقے پر موجود کہکشائیں عموماً ایک نقطے سے زیادہ نظر نہیں آتیں اور نہ ہی واضح ہوتیں ہیں۔ لیکن اب پہلی بار ناسا ایک ایسی کہکشاں کی تھوڑی سی واضح تصویر لینے میں کامیاب ہوگیا ہے جو ہم سے تقریباً 13.3 ارب نوری سال کے فاصلے پر ہے! جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ کہکشاں بگ بینگ سے محض 50 کروڑ سال بعد وجود میں آگئی تھی!
اس کو سائنسدانوں نے  کائنات میں  بننے  والی “سب سے پہلی کہکشاں “کا اعزاز دیا ہےاس کا سائنسی نام “SPTO615-JD” رکھا گیا۔ اس کہکشاں کی تفصیلی تصویر ہمیں قدرتی عمل Gravitational lensing کے ذریعے حاصل ہوئی۔ Gravitational lensing اس عمل کو کہتے ہیں جب کائنات میں روشنی بڑے اجسام کی کشش ثقل کی وجہ سے مُڑ جاتی ہے اور بعد ازاں  ایک  نقطے  پر  جمع  ہو کر  ہمیں تفصیل فراہم کرتی ہے، اس قدرتی ٹیلی سکوپ کو ہم Cosmic gravitational zoom lens بھی کہتے ہیں جس کی وجہ سے ہمیں دُور دراز کی کہکشائیں بڑی نظر آتی ہیں۔ اِس پہلی کہکشاں کے متعلق  ملنے والی معلومات سے اندازہ ہوا ہے کہ اس کا ماس 3 ارب سورجوں کے برابر ہے جبکہ ہماری ملکی وے کہکشاں کا ماس تقریباً 300 سے 400 ارب سورجوں کے برابر ہے۔ اس کے علاوہ کائنات کی پہلی کہکشاں کا رقبہ 2500 نوری سال ہے جبکہ ہماری کہکشاں ملکی وے کا رقبہ تقریباً ایک لاکھ نوری سال ہے ۔
سائنسدان اس متعلق حیران ہیں کہ کہکشاں کو بنانے کے لئے بلیک ہول کی ضرورت پڑتی ہے تو سوال اُبھرتا ہے کہ کیا بلیک ہول بگ بینگ کے   50 کروڑ  سال بعد موجود تھے ؟ حالانکہ یہ وہ عرصہ تھا جب نئے ستارے وجود میں آرہے تھے کیونکہ جدید تحقیق کے مطابق بلیک ہول بگ بینگ کے 80 کروڑ سال بعد وجود میں آئے ۔ اسی خاطر کہا جاتا ہے کہ کائنات میں موجود ہر کہکشاں معلومات کا انبار ہوتی ہے  اور ہماری کائنات کھربوں کھربوں کہکشاؤں کا مجموعہ ہے ، لہٰذا ہم جان سکتے ہیں کہ پہلی کہکشاں کی حالیہ موصول ہونے والی واضح تصویر کتنی بڑی پیش رفت ہے اور یہ بگ بینگ کو سمجھنے میں بے انتہاء معاونت کرے گی۔ ہبل ٹیلی سکوپ سائز میں سکول بس جتنی ہے،جبکہ 1990ء میں اس کو خلاء میں بھیجا گیا جس کے بعد سے اب تک زمین سے 547 کلو میٹر کی اونچائی پر خلاء میں موجود ہے اور کائنات کو کھنگالے میں مصروف ہے اب تک 13 لاکھ مختلف مشاہدات کرچکی ہے اس کے علاوہ کائنات کے متعلق 15 ہزار کے قریب انکشافات کرچکی ہے ۔
بلاشبہ یہ بھی انسانیت کی عظیم چھلانگ ہے۔ ناسا جلد ہی (جون 2019ء تک) James Webb Space Telescope لانچ کرنے والا ہے جو ہر طرح سے ہبل سے بہت بہتر ہوگی، اس کے علاوہ اس کو زمین سے 15لاکھ کلومیٹر کی بلندی پر رکھا جائے گا، اس کا سائز Tennis court جتنا  ہوگا۔ اس  میں Infrared ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے گا جس کے ذریعے ہمیں  کہکشاؤں میں موجود بادلوں کے اندر جھانکنے کا موقع ملے گا اور کائنات کے دُور دراز مُحلؔے explore ہوں گے ۔اس ٹیلی سکوپ کو بنانے میں 10 ارب ڈالر (تقریباً1000 ارب روپے)لاگت آئی ہے ۔ سائنسدان بہت پُر امید ہیں کہ اس کے ذریعے بگ بینگ کی شروعات کو جاننے کا موقع ملے گا شاید ہم جان پائیں کہ کائنات کا پہلا ستارہ کون سا تھا۔ کائنات بے انتہاء خوبصورت اور وسیع ہے اوردن بدن ایسے  انکشافات  اس کو مزید خوبصورت بناتے جارہے ہیں۔ انسان نے جب سے آنکھ کھولی اس کو دیکھا اور سمجھا ۔ آج حضرت انسان اس نہج پر ہے جہاں یہ 13.3 ارب سال پیچھے ماضی میں جھانک کر دیکھ کر رہا ہے۔ یقیناً یہ انسانیت کے لئے تاریخی  موقع  ہےاپنے وجود کو جاننے کا، کائنات کے وجود کو سمجھنے کا!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”کائنات کی پہلی کہکشاں۔۔محمد شاہزیب صدیقی

Leave a Reply